سوڈانی مسلم رہنما ڈاکٹر حسن ترابی کے افکار کا مطالعہ (قسط 4)

ذکی الرحمن فلاحی مدنی

مخفی لادینیت

        ترابی کے افکار و نظریات پر ایک دوسرے زاویے سے بھی تنقید کی گئی ہے۔ سوڈان کی لبرل جماعتوں نے ترابی کے قول وعمل کے تضاد پر انگلی اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ دین کو متغیر انسانی ذرائعِ اظہار اور آفاقی لا زوال اقدار کی تقسیم میں بانٹنے والے ترابی ایک مذہبی مصلح سے زیادہ علمِ سماجیات کے ماہر نظر آتے ہیں۔ وہ نظریاتی طور پر تو دین کی اس مبدّل و غیر مبدّل تقسیم پر زور دیتے ہیں، لیکن میدانِ عمل میں اپنے دینی وسیاسی مخالفین کو کافر وملحد کہنے سے احترازبھی نہیں کرتے، حالانکہ دین کی تعبیر و تشریح کا جتنا حق ان کو حاصل ہے اتناہی ان کے سیاسی ودینی مخالفین کو بھی حاصل ہونا چاہیے۔

        ترابی کے نزدیک اجتہاد کا حق صرف علمائے دین کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتا، بلکہ ہر انسان انتہائی ممکن آزادی کے ساتھ اس کو انجام دے سکتا ہے۔ یہ اور اسی طرح کے اور نظریات اُن کو لبر ل مفکرین کی صفوں سے قریب تو کردیتے ہیں، علاوہ ازیں ان کی تحریکی سرگرمیوں کے تصورات واہداف میں موجود مخفی لادینیت کی نقاب کشائی بھی کردیتے ہیں۔ اگرچہ بحیثیتِ مجموعی امت کے سوادِ اعظم نے ان نظریات کو یکسرنکار اورمسترد کردیا ہے، لیکن بذاتِ خود ترابی بھی ان نظریات سے پیدا ہونے والے سوالات واشکالات پر حیران وسرگرداں نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ سوال کہ مذہبی احکامات کی ظاہری قابلِ تغیر شکلیں اور ابدی ولازوال غیر مبدّل عناصر میں امتیاز وتفریق کا طریقۂ کارکیا ہونا چاہیے، خصوصاً جب کہ اس امتیاز کی کوئی واضح منقول مثال تاریخِ اسلامی میں نہیں ملتی ہے۔

        چوں کہ بیشتر اوقات میں شریعت کے تعبدی احکامات (جیسے کہ ارکانِ دین)کی شکل وصورت اور مغزوجوہر یکساں اورایک ہوتے ہیں، لہٰذا ان میں تفریق وتقسیم کے لیے کیا معیار قابلِ قبول ہوگا؟ یا مثلاًاس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کسی قوم کا اپنے پارلیمانی نمائندوں کے ذریعے شرعی احکامات میں گودے اور چھلکے کی زمرہ بندی کی خاطر اجتہاد کرنا، ہر حال میں اسلام کے ابدی عناصر کے موافق ہی ہوگا، مخالف نہیں واقع ہوگا اس کا کیا بھروسہ ہے؟ اس مقام پر آکر ترابی کسی حکومتی یا دستوری سرپرستی و نگرانی کی بات کرتے ہیں۔ غور کیا جائے تواس حکومتی نگرانی کے دوسرے معنی بعینہ وہی نکلتے ہیں جس کو تاریخِ اسلام میں مذہبی وشرعی سند کے حامل علمائے دین کے ادارے سے تعبیر کیا جاتارہاہے۔ مزیدبرآں شرعی اجتہاد پرحکومتی نگرانی ایک ایسی بات ہے جس کی مثال طول طویل تاریخِ اسلام کے کسی صفحہ میں ہمیں پڑھنے یا سننے کو نہیں ملتی۔

        در اصل ترابی اور ان کے ہم نواؤں، مثلاً ہندوستان کے ’’راشدشاذ‘‘ وغیرہ کا تجدیدی منصوبہ اسی قسم کے تضادات وتناقضات سے عبارت ہے۔ ایک سماجی فینومینا (مظہرے) کی حیثیت سے تجدید ِدین کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جدید تغیرات و انقلابات کو دینی صحائف میں مذکورہ ابدی حقائق کے تابع اور ان کے موافق بنالیا جائے، اور اس کے دو طریقے ممکن ہوسکتے ہیں۔

        اولاً:جدید حوادث کو مذہبی ہدایات واحکامات کے روایتی مفہوم کے موافق بنایالیاجائے، ثانیاً: مذہبی صحائف کی جدید واقعات وحقائق کی روشنی میں از سرنو تعبیر و تشریح کی جائے۔ ترابی اور ان کے متبعین دوسرے راستے کو اختیار کرتے ہیں، لیکن غالباً اس حقیقت کو فراموش کر جاتے ہیں کہ قدیم تہذیب و روایات کے تاریخی تسلسل سے ناطہ توڑے بغیر دین اورشریعت کو جدید مفہوم میں اپ ٹوڈیٹ(مطابقِ زمانہ) نہیں بنایا جاسکتاہے۔ ترابی اور ان کے ہم نوا اسلام پسندوں کی بنیادی غلطی اس قضیے کی غلط تفہیم میں مضمر ہے۔ ان حضرات کی بنیاد پرست فکرکا مخمصہ یہ ہے کہ وہ جدیدیت اور اس کے مظاہر جیسے کہ عقلیت پرستی، حریت پسندی، علمی موضوعیت اور ناقدانہ زاویۂ نگاہ وغیرہ کو ان چیزوں کے اصول ولوازمات اور فلسفیانہ متضمنات سے معریٰ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کی دوسری بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ اجتماعی نظامِ زندگی اور معاشی روابط میں اصلاح و تجدید سے پہلے فکر ِاسلامی کی تجدید کے خواستگار ہوتے ہیں، یہ لوگ امتِ مسلمہ کی پسماندگی وبدحالی کے حقیقی امراض کی تشخیص کیے بغیر صرف علامات مرض کے خاتمے کے لیے ہمہ وقت و ہمہ تن مصروفِ کار ومحوِجستجو رہنے میں ہی اپنی دماغی صلاحیتیں کھپائے رہتے ہیں۔

        ترابی عملی سطح پرمولانا مودودیؒ اورسید قطبؒشہید کے خلاف ِ جمہوریت رویے کو رد کردیتے ہیں، لیکن بذات ِ خود بھی جمہوریت کو روبہ تحقیق لانے کے لیے کچھ شرائط اورحدود وقیودمتعین کرنے سے نہیں چوکتے۔ وہ کہتے ہیں کہ فی الوقت عالمی جمہوریت کااسلامی ممالک بالخصوص سوڈان میں قیام ناپائیدار ثابت ہوگا اور اس کو ہرآن اس بات کا خطرہ لاحق رہے گا کہ وہ اندورنی ناکامیوں یا بیرونی استعماری سازشوں کا شکار ہوجائے۔ وہ مغربی تصور ِ جمہوریت اور اسلام کے شورائی نظام میں موازنہ کرتے ہوئے مغربی جمہوریت کے نقائص کو نمایاں تو کرتے ہیں، لیکن خود ہی اس بات کو بھی قبول کرتے ہیں کہ اسلام کی سیاسی اقدارنے جمہوری نظامِ حکومت کی تشکیل اورنظریہ سازی میں شورائیت اور شریعت کی بالادستی کے علاوہ کوئی خاص قابلِ ذکر کردار ادا نہیں کیا ہے۔

        خود کو سوڈانی قومیت کا جزو بتا کر ترابی کی تحریک جمہوری مزاج کی نمائندگی کا دم تو بھرتی ہے، لیکن 1989ء میں فوجی انقلاب کے نتیجے میں تخت ِ اقتدار پر قابض ہونے کے بعداس تحریک کا طرز ِ عمل انتہائی طور پر جمہوریت مخالف ثابت ہواتھا۔ اپنے دور ِ حکومت میں نام نہاد اسلام پسندوں نے تمام سماجی اداروں اورسیاسی شعبوں پر اپنی اجارے داری قائم کرلی تھی۔ انھوں نے ایک متمدن معاشرے کے بالمقابل استبدادی موقف اختیار کیا اور مختلف حیلوں بہانوں کی آڑ میں عام انسانی حقوق کی سنگین حق تلفی کی ہے۔ لہٰذااپنے دورانِ اقتدار سماج کو تقویت دینے اور نظامِ سیاست کو مضبوط بنانے کا ترابی اور اسلام پسندوں کا دعویٰ قابلِ قبول یا علی الاقل قابلِ توجہ ہوسکتاتھا، بشرطیکہ وہ اپنی تحریک کی عوامی مقبولیت اورسماجی اساس کو ثابت کرسکتے، لیکن افسوس صورتِ واقعہ اس کے بالکل خلاف ہے۔

        اصلاح یا تشکیلِ نو

        موجودہ اسلامی نشأتِ ثانیہ کی بحرانی صورت حال کا علاج مکمل لادینیت کو قرار دینا بھی بڑی غلطی ہوگی، جیسا کہ سوڈان کے لبرل مفکر’’عبداللہ النعیم‘‘(Towards an Islamic Reformation:Civil Liberties,Human Rights and International Laws) کی تجویز اور خیال ہے۔ ان کے مطابق اسلامی احیاء وتجدیدکے موجودہ طریقے فی نفسہ اس مشکل صورت ِحالات کاحل نہیں ہوسکتے ہیں۔ عصرِ حاضر میں شریعت ِ اسلامیہ کا دفاع کرنے والے مفکرین اور اُن کے مؤثر ترجمان کی حیثیت سے حسن ترابی کے افکار و نظریات اور طرز ِ عمل اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ قدیم تہذیب و روایات کی پاسداری کا دم بھرتے ہوئے موجودہ دور میں اسلامی اصلاح و تجدید کے فکری وعملی پراسس کی حدود اربعہ کس قدر وسیع الاطراف اورمتعدد الجہات واقع ہوسکتی ہیں۔ اصلاح وترمیمِ شریعت کے پسِ منظر میں گفتگو کرتے ہوئے ترابی اکثر و بیشتر عمومی انداز اختیار کرنے لگتے ہیں اور معین و مقرر طرز ِ گفتگو سے گریزاں نظر آتے ہیں۔

         مثال کے طور پر حسن ترابی معاشرے میں عورت کے مناسب مقام کی پر زور وکالت تو کرتے ہیں، لیکن شریعت کے نقطۂ نظر سے جو کہ عورت ومرد کی جسمانی خصوصیات کا لحاظ کرتے ہوئے دونوں میں فرق و امتیاز کرتی ہے، وہ عورت کے اُس مزعومہ مقام کی نشاندہی نہیں کرپاتے ہیں جس تک وہ صنفِ نازک کو پہنچانے کے خواہاں ہیں۔ اسی طرح وہ غیر مسلموں کے مساوی حقوق پر اظہار خیال کرتے ہوئے بھی متعدد ایسے قانونی رخنے چھوڑ جاتے ہیں جو غیر مسلموں کو مکمل شہری حقوق سے محروم رکھنے کے لیے کافی ہوسکتے ہیں۔ بعینہ یہی ابہام اور غموض کی کیفیت ان کے اس دعوے میں بھی نظر آتی ہے کہ حاکمِ وقت کے اختیار ات شریعت کے تابع ہوں گے اور اس کی خلاف ورزی کی صورت میں اس کو بذریعۂ قوت منصبِ اقتدار سے ہٹایا جاسکے گا، حالانکہ متداول فقہی مذاہب میں اس رائے پر اتفاقِ رائے نہیں پایا جاتا ہے۔ لہٰذا کسی قدر جرأت کے ساتھ کہا جاسکتاہے کہ قدیم روایتی اسلامی فکر سے دست کشی کے بعد ترابی کے افکار و خیالات زیادہ دور تک ہماری رہنمائی نہیں کر پاتے ہیں۔

        دور ِ حاضر کی جدیدیت اور اس کی اثر آفرینی کے مقابلے میں مسلم مفکرین کے سامنے دو راہیں کھلی ہوئی ہیں۔ اول: دین و شریعت کو اجتماعی زندگی کے معاملات سے کاٹ کر صرف انفرادی معاملے کی حیثیت سے باقی رکھا جائے، جیسا کہ اکثر مسلم ممالک کا واقعی طرز ِ عمل اسی کی غمازی کر رہا ہے۔ دوم: بنیادی انسانی حقوق کے اعتراضات اور بین الاقوامی دستور وقوانین کو بالائے طاق رکھ کر شرعی نظامِ زندگی کو نافذ کردیا جائے۔ مشکل یہ ہے کہ ترابی اور النعیم جیسے آزاد خیال مسلم مفکرین کی نظر میں پہلا طریقہ اصولی طور پر قابلِ اعتراض اور موجود ہ عالمی اسلامی بیداری کے پسِ منظر میں غیر واقعی اورغیر عملی ہے، جبکہ دوسرا طریقہ اخلاقی لحاظ سے قابلِ مذمت اور سیاسی طور پر ناپائیدار ہے، کیوں کہ یہ ثانی الذکر طریقہ عورت اور غیر مسلم عوام کو متعدد ذلت آمیز چیزوں کا مکلف بنادینے والا ہوگا۔

        ترابی اس مشکل صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے مناسب طریقۂ اصلاح کی یافت کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں اُن کے تجویز کردہ طریقۂ اصلاح و تجدید(جس کے واضح خط وخال وہ ابھی تک نمایاں نہیں کرسکے ہیں ) کے ذریعے اہل ِایمان کے لیے ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ شریعت الٰہیہ پر عمل کرتے ہوئے سیکولرزم(لادینیت) کے فوائد سے بھی کما حقہ بہرا یاب ہوسکیں۔ ان کے نزدیک عصرِ حاضر میں حقوقِ انسانی کا احترام اور قانونی وجمہوری روایتوں کی پاسداری، نیز ایک پُرامن عالمی معاشرے کاقیام صرف لادینیت کے زیرِ سایہ ہی ممکن ہو سکتاہے، لیکن اس کا طریقۂ کار( میتھڈلوجی) کیا ہو؟ اس کا جواب ہمیں ترابی یا ان کے ہم نواؤں کے یہاں نہیں ملتا۔

        ترابی کے اساتذہ میں سے مشہور ومعروف مسلم مفکر محمودمحمد طہ( 1909-85 ) کے نظریۂ نسخِ معکوس (Reverse Abrogation) میں اس میتھڈ لوجی کا کچھ سراغ لگایا جاسکتاہے۔ (Towards an Islamic Reformation: Civil Libarties, Human Rights and International Laws :Ahmad Abdullah An Naim)محمد طہ کے نظریۂ نسخِ معکوس کا لفظی مفہوم قرآن کو الٹا پڑھنا ہے۔ اس نظریے کے مطابق قرآن نے وحی کے ابتدائی دور میں کچھ بنیادی اصول پیش کیے تھے، آگے چل کر جن کا عملی اظہار معاشرے کے قیام کی صورت میں سامنے آیاتھا اور پھر اسی عملی اظہار کو سنتِ رسولﷺ مان کر تاریخ کے تمام ادوار میں ان اصولوں کی تشریح و ترجمانی کی جاتی رہی ہے۔ موجودہ دورِ ترقی میں اس بات کی ضرورت ہے کہ ان ابتدائی قرآنی اصولوں کے تمام تر تاریخی اظہارات وتطبیقات کو بشمول عہد ِ نبوی و دور ِ خلفائے راشدین، بالائے طاق رکھ کران کی از سرِ نو تعبیر وتشریح کی جائے۔

        آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اِن بنیادی اسلامی اصولوں کو سامنے رکھ کر امت مسلمہ کی فکری تشکیلِ نو کا بیڑہ اٹھایا جائے۔ ان قرآنی اصولوں کا زمانۂ نزول مکے کا ابتدائی دور تھا، لہٰذا مکے کے آخری دور اور مکمل مدنی دور میں نازل شدہ معین ومخصوص قرآنی احکامات اور ان کی نبوی تشریحات، نیز بعد کے ادوار میں ان سے مستنبط فقہی وکلامی تفصیلات کو ان آفاقی اصولوں کے تابع رکھا جائے۔ ان اصولوں پر مشتمل قرآنی آیات کو اصل آیات (Primery  Verses)   اور دیگر آیات کو ضمنی (Subsidiary Verses) قرار دیا جانا چاہیے۔

         محمود طہ کے الفاظ میں ’’ ہم الفاظ ومتون سے گزر کر حکمت و مقصد سے بحث کرتے ہیں، اگر ساتویں صدی عیسوی میں کسی ضمنی آیت کی روشنی میں کچھ اصولی وبنیادی آیات کو منسوخ قرار دیا گیا تھا تو یہ عمل ہمارے لیے حجت نہیں ہے، کیوں کہ بیسویں صدی کے عصرِ جدید میں ضمنی آیات کی حیثیت اصولی آیات کے بالمقابل ناقابل اعتبارہوگئی ہے۔ لہٰذا اب وقت آگیاہے کہ اصولی آیات کو ضمنی آیات پر ہر اعتبار سے فوقیت وترجیح دی جائے، کیوں کہ یہی وہ راستہ جس کے ذریعے سے قرآن کی اصولی آیات کو موجودہ دور میں قابل عمل بنایا جاسکتاہے اور ایک نئے تشریعی دستور العمل کا خاکہ تیار ہوسکتاہے۔ شرعی ارتقاء یا دینی ترقی سے ہماری مراد یہی ہے‘‘۔

        محمود طہ کی اصطلاح’’ التطور الشرعی‘‘ اور ترابی کے نظریے’’ التطویر الدینی‘‘ میں پائی جانے والی لفظی ونظریاتی مماثلت یہاں ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے۔ نسخِ معکوس کے نظریے کی روشنی میں شریعت کی کلی تعمیرِ نو اور دین کے بنیادی اصولوں کو تاریخی استعمالات سے علیحدہ کرنا ایک ناقابل فہم اور ناممکن عمل ہے۔ امت ِمسلمہ کے میراثی سرمائے کو جس میں سنتِ رسولﷺ ہی نہیں خود قرآن کریم کاایک بڑا حصہ بھی شامل ہے، بہ یک حرکتِ قلم دریابرد کردینا نہایت تعجب خیز اورانتہائی غیرمعقول طرزِ عمل ہوگا۔

        ترابی کا یہ اصلاحی وتجدیدی منصوبہ، سیکولر طبقے کے لیے بھی ناقابل قبول تھا۔ سیکولر طبقے کی نظر میں ترابی کی مذہبی حکومت کالادینی طریقوں کے ذریعے کرسیٔ اقتدار پرقابض ہوجانا، ان کے قول وعمل میں پائے جانے والے متعدد واضح تضادات کی نشاندہی کرتا ہے۔ ناقدین کے نزدیک ترابی اپنے اس نظریے کے ذریعے سے ایک طرف لادینیت کے فوائد (مثلاً جدید ادارہ سازی، حقوقِ انسانی، بین الاقوامی قوانین وغیرہ) سے بہرا ور بھی ہوتے رہنا چاہتے ہیں اوردوسری طرف قرآن وحدیث کے غیر صالح حصوں کو برطرف کرتے ہوئے قدیم وجدید علمائے دین کی بالادستی کا خاتمہ بھی کرنا چاہتے ہیں۔

        اپنے اس نظریے کے بموجب وہ حکومت ِاسلامیہ کی مقدس بنیادوں کا اعتراف بھی کرتے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اس بحران کا کوئی شافی حل تجویز نہیں کرپاتے کہ بالآخرکون ان مقدس بنیادوں کا محافظ قرار پائے گا۔ لہٰذا اس کا منطقی نتیجہ صرف ایک ہی برآمد ہوسکتاہے کہ ایسی ملغوبہ اسلامی مملکت کو لادینی و مذہبی دونوں طبقات کی تائید وحمایت حاصل نہ ہوپائے، کیوں کہ اول الذکر کے نزدیک حکومت کی مذہبی بنیادیں قابل اعتراض ہوں گی اور ثانی الذکر کے لیے اس کے لادینی ادارے باعث نفرت قرار پائیں گے۔ ایسی نام نہاد اسلامی مملکت میں دینی قانون سازی کاادارہ یا تو محض ایک ایسا نقاب دار گڈّا(Puppet )ہوگا جو سربراہِ ِمملکت کے معین کردہ خطوط وحدود سے سرِمو تجاوز نہیں کرسکتا ہے اور اس کی جنبشِ ابرو پر ناچتا ہے، یا پھر اپنے اندرونی تضادات کے زیرِ اثروہ ایک لا متناہی تاناشاہی اورنظامِ جبرکو جنم دے بیٹھے گا جو انجام کار مذہبی ولادینی تمام فوائد کو یکساں طور پرنیست و نابود کردے گا۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔