سَیّد فخرالدین بَلّے کی شعری کائنات

ڈاکٹر مظفر نازنین

سید فخر الدین بلے – ایک آدرش،ایک انجمن، بڑی خوبصورت اور اعلیٰ پائے کی  ای۔ بُک ہے۔جو  ہند و پاک کےنامور ادیبوں، شاعروں اور نقادوں کی ,  مشاہیر ادب کی شاہکار نگارشات کا مجموعہ ہے۔ یہ الیکٹرانک  کتاب اولڈ بوائز ایسوسی ایشن مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے کئی برس کی محنت سے مرتب کی ہے اور حال ہی میں اس کا دوسرا ترمیمی ایڈیشن  منظرعام پر آیا ہے۔ جسے پڑھ کر ایک قد آور شخصیت   ہمارے سامنے آئی ہے۔ سیدفخرالدین بلے مایہ ء ناز ادیب، شاعر، دانشور، نقاد، صوفی، فنون و ثقافت کے دلدادہ، منجھے ہوئے ماہر تعلقات عامہ، کالم نگار، انسان دوست  اور اسٹیج کی دنیا کی بڑی متحرک شخصیت تھے۔ میں نامورادیبوں کی تحریروں سے آراستہ کتاب کے اولین حصے پر تفصیلی تبصرہ اور تجزیہ کرچکی ہوں  اور کئی اقساط پر مبنی میرے تجزئیےاور تبصرے بھارت سمیت کئی ممالک کے اخبارات کی زینت بن چکے ہیں۔

اب اسی تالیف  سیدفخرالدین بلے۔ ایک آدرش۔ ایک انجمن   کا دوسرا حصہ  میرے سامنے ہے جس میں مرتبین  نےسیدفخرالدین بلے کی شعری تخلیقات  شامل کی ہیں۔ کتاب کے اس دوسرے حصے  میں فخر الدین بلے صاحب کی نعتیں، مناقب، سلام، غزلیں، نظمیں، آزاد نظمیں، قطعات اور ہائیکو شامل ہیں۔ یہ شاعری پڑھ کراندازہ ہوتا ہے کہ بلّے صاحب واقعی ایک عظیم المرتبت قادرالکلام شاعر اوراپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ان کی فکر کی بلندپروازی، ان کے خیالات کی رعنائیاں، زبان و بیان پر ان کی قدرت، احساسات کی نزاکتیں اور دلوں کو چھولینے والی بندشیں ان کی خوبصورت شعری نگارشات کی زینت ہیں۔ انہوں نے تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی اور اپنی انفرادیت کے رنگ دکھائے ہیں۔ نعتیں بھی ایمان افروز اور مناقب و سلام بصیرت آگیں۔ نظموں میں ان کی فکر آسمان ِ تخیل کو چھوتی محسوس ہوتی ہے اور غزلوں میں جدت اور قدامت کے خوبصورت امتزاج  نے ان کی شاعری کو غیر معمولی دلکشی عطاکی  ہے۔

ان کی لکھی ہوئی نعت کے چند خوبصورت اشعار میزانِ فصاحت میں  تلےہوئے اور کوثر و زمزم سے دھلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور روح کی بالیدگی کاسامان بہم پہنچاتے محسوس ہوتے ہیں۔ اس زمین میں بہت سے شعراء نے عقیدت و محبت کے پھول کھلائے ہیں، لیکن سید فخرالدین بلے کااپنا ہی رنگ ہے۔ اپنی بات کی تصدیق کیلئے میں  یہاں ان کے  چند اشعار پیش کررہی  ہوں۔ سبحان اللہ کیابات ہے۔ ہر مصرعے میں درود و سلام کا نذرانہ بھی پیش کیا گیا ہے۔

اول و آخر رحمت ِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم
حسنِ سراپا عشق ِمجسم صلی اللہ علیہ وسلم

مظہر ِنور ِ ذات ِ الٰہی،سر ِ علوم و راز ِخدائی
ہادیء برحق رہبرِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم

روئے منور، سیرتِ اطہر شافع ِمحشر ساقی ءکوثر
تم ہو جمال ِ روحِ ِمکرم صلی اللہ علیہ وسلم

مہر ِگدا یاں، لطفِ  یتیماں، محسنِ  انساں، عاشقِ یزداں
شانِ خودی و فخر ِدو عالم صلی اللہ علیہ وسلم

وارث ِ ایماں، چشمہ ء عرفاں، مہر ِدرخشاں، صاحب ِقرآں
شانِ یقیں،  ایقان ِ مسلم صلی اللہ علیہ وسلم

ماہِ فروزاں، نیر ِتاباں نعمت ِ یزداں، دلبرِ رحماں
تم سے مشرف عرش ِمعظم صلی اللہ علیہ وسلم

شوق کا عالم اللہ اللہ! عشق  ِمحمد بلے بلے
نورِ نبی ہے وجہ ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم

بلّے صاحب کی اس نعت کو پڑھ کر درِ پاکؐ کا منظر سامنے آجاتا ہے۔ گنبد ِخضریٰ کا روح پرور نظارہ نظروں کے سامنے رہتا ہے۔ خدا ہم سبھوں کو درِ پاک ؐ کی زیارت نصیب کرے۔ بقول شاعر :

الٰہی یہ تمنا ہے کہ موت آئے مدینے میں
نظر کے سامنے خیر الوریٰ کا آستانہ ہو

سید فخرالدین بلے کا منقبتی کلام بھی عشق میں ڈوبا ہواہے۔ زبان کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی  محسوس ہوتی ہے۔ ایک ایک لفظ میں حب ِ اہل بیت اطہار دھڑکتی نظرآتی ہے۔ سید فخرالدین بلے صاحب کی ایمان افروز منقبتِ حسین ابن علی  علیہ السلام  کے چند خوبصورت بند ملاحظہ  فرمائیں اس منقبت کاعنوان ہے۔ حسینؓ ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لیے

الٰہی، کون مٹا دین کی بقا کے لیے
یہ کس نے جام ِشہادت پیا وفا کے لیے
یہ کس نے کردیا قربان گھرکاگھر اپنا
یہ کس نے جان لُٹادی تِری رضا کے لئے
حسین ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لیے

قیامِ  فصل ِ بہاراں کا کام باقی تھا
علاج ِ تنگی ء داماں کا کام باقی تھا
ابھی  رسالت ِ  ایماں کا کام باقی تھا
شعورِ حکمتِ قرآں کی انتہا کے لیے
حسین ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لیے

بھٹک رہا تھا اندھیروں میں کاروان ِ رسول
اسیرِ  دام ِ مصائب تھا خاندانِ رسول
امیر و حاکم و سلطان تھے، دشمنان ِ رسول
تحفظ ِ  حرم ودین  ِ مصطفےٰ کے لیے
حسینؓ ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لیے

حیا کانام مِٹا جارہا تھا دنیا   سے
وفا کانام مٹا جارہا تھا  دنیا سے
 خُدا کا نام مٹا جارہا تھا دنیا سے
 حرم کی حُرمت و تقدیس کی بقا کے لئے
حسینؓ ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لیے

بلّے صاحب کی ایک نظم ’آگ‘ ہے جو مسجدِ اقصیٰ کی آتشزدگی کے سانحے پر اگست 1969 میں انہوں نے اپنےاشکوں میں قلم کوڈبو کر لکھی تھی۔ اس نظم میں ان کے جذبات کے بہاءو کے ساتھ ساتھ رُلا دینے والے الفاظ کاچناءو دیدنی ہے۔ اس تڑپا دینے والی  خوبصورت نظم کے چند بند آپ  بھی پڑھئیے۔ اور میرے اس تاثر کی تائید فرمائیے کہ دل میں اتر جانے والی شاعری  ایسی ہوتی ہے۔

نظم کا عنوان ہے آگ اور سید فخرالدین بلے صاحب نے  یہ مسجد اقصیٰ کی آتشززدگی سے متاثر ہوکر لکھی تھی۔ نصف صدی سےزیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود لگتا ہے کہ یہ نظم آج  ہی تخلیق کی گئی ہے۔ بہرحال آپ ملاحظہ کیجئے، اس شاہکار نظم آگ کا  ایک بند ، آپ کو پڑھتے ہوئے بھی شعلوں کی آنچ دل کوجھلساتی محسوس ہوگی۔

قرآں سے دھواں سا اٹھتا ہے اور عرشِ بریں تھراتا ہے
اللہ! وفورِ غیرت سے نبیوں کو پسینہ آتا ہے
وہ قبلہ ء اوّل منزل تھی معراج کی شب جو احمد کی
وہ مسجد  ِ اقصیٰ جلتی ہے، ایماں شہادت پاتا ہے
وہ تین سو تیرہ تھے جن سے تقدیر اُمم تھراتی تھی
ہم پون ارب ہیں جن کا سر ہر گام پہ جھکتا جاتا ہے

 سید فخرالدین بلے  نے اپنے ایک دوست کی  سالگرہ پر تحفہ  بھیجنے کے موقع  پر ایک نظم لکھی اور اپنا دل کھول کر بیان کردیا۔ اس نظم کاعنوان ہے سالگرہ کاتحفہ۔

میں تیری سالگرہ پر اے دوست
یہ بتا ؟کون سا تحفہ بھیجوں
مری خواہش تویہی ہے کہ تِری دعوت پر
سر کے بل چل کے میں خود جاؤں، جنم دن پہ تِرے
ایک دلہن کی طرح تجھ کو سجانے کے لیے
تیری خوابیدہ امنگوں کو جگانے کے لیے
عید ِ میلاد  کی اِک رسم سمجھ کر اس کو
بالارادہ تجھے سینے سے لگانے کے لیے۔

یہ ایک طویل نظم ہے۔ اور اس کےحیران کردینے والے  کلائیمیکس کےتو  کیا کہنے۔
کوئٹہ کی برف باری سے متاثر ہو کرسید فخرالدین  بلے  نے بڑی معرکۃ الآرا نظم کہی۔ فیض احمد فیض اور جوش ملیح آبادی ادبی محفلوں میں فرمائش کرکے ان سے  یہ نظم باران  ِ کرم  سنا کرتے تھے۔ :

گردوں سے برستے ہوئے یہ برف کے گالے
تنتے ہوئے ہر سمت ہر اک چیز پہ جالے
دُھنکی ہوئی روئی کی طرح صاف شگفتہ
شفاف، سبک، نازک و خود رفتہ و خستہ
رخشندہ و تابندہ و رقصندہ جوانی
یہ برف کی بارش ہے کہ پریوں کی کہانی
دو شیزگی ء شام و سحر کے یہ سنبھالے
چھائے ہوئے بکھرے ہوئے ہر سمت اجالے
چاندی میں نہائے ہوئے ہیں یہ کوہ  و بیاباں
ہے عام بہ عنوان ِطرب زیست کا ساماں
انوار کا ٹیکہ ہے پہاڑوں کی جبیں  پر
غالیچہ ء سیمیں ہے بچھا ہے جو زمیں  پر
موتی ہیں کہ دامن میں کوئی رول رہا ہے
جو بن کے ترازو میں سحر تول رہا ہے
ہر برگ و شجر رشک  ِتن ِ یا سمنی ہے
 صحن و در و دیوار پہ کیا سیم تنی  ہے
گوعارضی بخشش سہی، فطرت کی یہ چھل  ہے
ہر اک مکاں آج یہاں تاج محل ہے
شوخئ مناظر میں نظر کھوئی ہوئی ہے
زانوے شبستاں پہ سحر ہوئی ہے
چمپا سے، چنبلی سے ہر اک زلف گندھی ہے
ہر ایک سر  ِ کوہ پہ دستار بندھی  ہے
چشمے پہ یا  جیسے کوئی مہناز نہا کر
بیٹھی ہے بصد ناز اداؤں کو چرا کر
ہے وادی ء بولان  میں حوروں کا بسیرا
ہر گام پہ حانی نے لگا رکھا ہے ڈیرا
چاندی کا کٹورا ہے، سر ِآب پڑا ہے
بلور کا ساغر ہے کہ صہبا سے بھرا ہے
ہر ذرے سے جوبن کی کرن پھوٹ رہی ہے
انوار سے ظلمت کی کمر ٹوٹ رہی ہے
ہیں کوثر و تسنیم بھی، ساقی بھی ہے، مئے بھی
ہے ساز بھی، مضراب بھی، آواز بھی،لے بھی
مطلوب بھی موجود ہے، طالب بھی طلب بھی
پائل بھی ہے، جھنکار بھی، مطرب بھی، طرب بھی
منظر بھی ہے، منظور بھی، ناظر بھی، نظر بھی
 ہے ناز بھی، انداز بھی، انداز ِ دگر بھی  

ہیں ارض و سما کوں و مکاں نورمیں غلطاں
بارانِ کرم ہے کہ اترتا ہوا قرآں
ہر منظر پر کیف پہ جنت کا گماں ہے
سڑکوں پہ پڑی برف ہے یا کاہ کشاں ہے
ہر ذرہ ہے مہتاب، ہر اک ذرہ ہے خورشید
ہے برف کہ اک جشن ِ جہاں تاب کی تمہید
اس برف سے رعنائی  و شوخی  ء گل ِ تر
یہ برف ہے پیشانی ء  بولان کا جھومر
یہ برف بلوچوں کی دعاؤں کا ثمر ہے
یہ برف نہیں،  فصل ِبہاراں کی خبر ہے
اس برف سے مہوش تری تصویر بناؤں
بت ساز ہوں اور صنم دل میں بٹھاؤں
ڈرتا ہوں مگر برف پگھل جائے گی اک دن
گرمی ء حوادث  سے یہ گل جائے گی اک دن

باران کرم  میں انہوں نے  برف باری کے مثبت رخ  دکھائے ہیں۔ لیکن  اسی برف باری کے بعد  جب تیز ہوائیں چلنا شروع ہوئیں  تو انہوں نے  تصویر کادوسرا رخ بھی شعروں کی زبان میں بیان کردیا۔ اوراپنی اس نظم کو ہنگامِ محشر کانام دیا۔ تصویر کایہ رخ بھی بڑا شاندار ہے۔ اوراتنا توانا ہے کہ سننے یا پڑھنے والا ان کی منظر نگاری کوداد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا۔فراق گورکھپوری نےکئی دہائیوں پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ  سید فخرالدین بلے الفاظ سے رنگوں کاکام لینا جانتے ہیں  اور وہ شعری دنیا میں لفظوں کے مصور ہیں۔ افتخار عارف سید فخرالدین بلے کے منقبتی کلام کے مداح ہیں۔ اورانہوں نے اپنے مضمون میں  ان کی شخصیت، شاعری اور فن کے بہت سے امتیازی پہلووں کو بھرپورانداز میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ جوش ملیح آبادی  بھی اکثرکہاکرتے تھے  کہ سیدفخرالدین بلے کی شاعری میں ادب، تاریخ اور تصوف کاگہرا مطالعہ  بولتا اورسوچ کےدر کھولتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اب آپ بلّے صاحب کے دو خوبصورت  قطعات ملاحظہ کریں، جو زیرنظر تالیف سید فخرالدین بلے۔ ایک آدرش۔ ایک انجمن  کی زینت ہیں۔ پہلا قطعہ شہیدان ِ کربلا  کےنام ہے۔

سوفار سے چھدے ہوئے سینوں سے پوچھئے
معصوم پر چلے ہوئے تیروں سے پوچھئے
مومن کو دیں عزیز ہے یا زندگی عزیز
میدانِ کربلا کے شہیدوں سے پوچھئے

دوسرا قطعہ  :

میخانے سے رشتہ چھوٹ گیا
ساقی سے تعلق ٹوٹ گیا
ہاتھوں کا پیالہ یاد نہیں
خود پھوڑ دیا یا پھوٹ گیا

اس الیکٹرو نک  کتاب سید فخر الدین بلّے: ایک آدرش، ایک انجمن کے شاعری پر مبنی  دوسرے  حصے میں ان کی بہت سی غزلیں، خوبصورت نظمیں  اوردیگر شعری نگارشات  دامن دل و نگاہ کو تھامتی  ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ کتاب کے پہلے حصے میں  بلّے صاحب کی شخصیت کے کئی پہلو اجاگر ہوئےہیں۔ نامور ادیبوں، شاعروں، نقادوں اور دانشوروں  نے انہیں کثیرالوصف اور ہمہ جہت  شخصیت  قراردیا ہے۔ ان کی علمی ادبی اورثقافتی خدمات کوبھی اجاگر کیا ہے۔ یہ بھی بتایا ہے کہ انہوں نے اردو، انگریزی، فارسی، ہندی اور سنسکرت میں جو تالیفات اور مطبوعات مرتب کیں، ان کی تعداد ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہے اور وہ پندرہ سےزیادہ جرائد کے بانی چیف ایڈیٹر یا ایڈیٹر رہے۔ قوالی کے باب میں امیر خسرو کے بعد نیا قول ترانہ اور رنگ تخلیق کرکے بھارت اور پاکستان میں تہلکہ مچاڈالا۔ ملتان  میں 25روزہ جشن تمثیل سجانے  پر انہیں میں آف دا اسٹیج اور محسن فن کے خطابات سے  نوازا گیا۔بلاشبہ  مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ہندو پاک  کے  وہ مشاہیر ادب، جنہوں نے اس کتاب کو ترتیب دیا  ہے، منفرد نوعیت کی یہ ای بک  بلا شبہ اردو ادب میں گراں قدر اضافہ  اور  نئی نسل کے لیے مشعل راہ ہے۔میں آخر میں  سید فخرالدین بلے ہی کا ایک شعر بلے صاحب کی نذر کرنا چاہتی ہوں کیونکہ اپنے تجزئیے اور تبصرے کے اختتام پر میرے پاس کہنے کو اور کچھ نہیں

 الفا ظ و صوت و رنگ و تصور کے روپ میں
 زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے  کے باوجود

تبصرے بند ہیں۔