فقہی قواعد اور ان کا تحقیقی مطالعہ

مبصر: ڈاکٹر عمر فاروق راشد

(استاذ جامعۃ الرشید کراچی)

کتاب مستطاب ”فقہی قواعد کا تحقیقی مطالعہ” جب سے منظرعام پر آئی ہے، اس کے متعلق ماہرین فن، اہل علم و ارباب قلم مسلسل اپنے خیالات کا اظہار فرما رہے ہیں۔ قواعد فقہیہ جیسے اہم اور وقیع علمی موضوع پر کچھ عرض کرنا بلاشبہ ماہرین فن اور اہل علم کو زیب دیتا ہے۔ بندہ کتاب سے متعلق ذاتی تاثرات کے طور چند گزارشات عرض کرنا چاہتا ہے۔

یہ کتاب جس زمانے اور جس پیرائے میں منظر عام پر آئی ہے، ہمارے خیال میں صدیوں سے علم جس ارتقائی سفر پر نکلا ہوا ہے،یہ دور، فن کی ایسی ہی تدوین کا متقاضی تھا۔ اس بات کی ذرا وضاحت یہ ہے کہ علوم دینیہ کی تدوین پر مختلف ادورا اور مراحل گزرے ہیں۔ کبھی متون تو کبھی شروح و حواشی، کبھی مطولات تو کبھی مختصرات۔ کبھی تلخیصات تو کبھی تسہیلات۔ وغیرہ۔ ماہرین علوم و فنون عصر در عصر اپنے فن و اسلوب میں تبدیلیاں لاتے رہے۔ جاری صدی میں علوم و فنون کی مختلف کتب، گوشوں اور موضوعات کو پوری جامعیت اور کمال کے ساتھ اردو کے سانچے میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ اس زمانے کے عوام دین کو از خود سمجھ کر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے یہ REASONING کا زمانہ ہے۔ پڑھنے والے کو حکم، دلیل، حکمت، مثال اور تفصیل سبھی کچھ سمجھانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح یونیورسٹیوں، کالجوں اور مدارس کے تشکیل و تبدیلی کے مرحلے سے گزرتے نصابوں کے لیے بھی ایسی کتب کی ضرورت ہے جو اپنی تمام جزئیات کے ساتھ عربی و دیگر زبانوں میں لکھی گئی فنی کتابوں کے مماثل ہوں اور سلیس اردو میں بھی ہوں۔ ایسے مجموعوں کی تشکیل کا سلسلہ جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ کے اپنے محاضرات نیز ان کی سرپرستی میں مرتب ہونے والے رسائل و کتابچوں سے ہو گیا تھا۔ جسے تسلسل دیتے ہوئے بڑھاتے چلے جانے کی ضرورت ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ جناب مفتی شاد محمد شاد صاحب کی یہ کتاب اسی سلسلۃ الذھب کی ایک کڑی ہے۔ اس کتاب کی اہم خصوصیت خود اس کے جامع نام سے واضح ہے۔ کتاب میں ایک طرف اگر ”99فقہی قواعد” تفصیلا ذکر کیے گئے ہیں تو دوسری جانب ان کا ”تحقیقی مطالعہ” بے مثال انداز میں زیب قرطاس کیا گیاہے۔ مصنف ایک قاعدہ کو مخصوص نمبر دے کر شروع کرتے ہیں تو پھر اس کے متعلق ہر وہ تفصیل شامل کرتے جاتے ہیں، جس کا اس قاعدے کے الفاظ تقاضا کرتے ہیں۔ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ انہیں ہر قاعدہ فقہیہ پر ایک مختصر رسالہ یا ایک شارٹ آرٹیکل لکھ دیا ہے۔ جو اس کی تمام جہات کو اپنے اندر خوبصورتی اور دلکشی کے ساتھ سمو لیتا ہے۔

مثال کے طور پر قاعدہ نمبر 56 ہے: ”لایتم التبرع الابالقبض۔” اس پر انہوں نے 20 صفحات میں اپنی بحث مکمل کی ہے۔ سلیس ترجمے کے ذریعے قاعدے کا ابتدائی مفہوم اور دلائل واضح کرنے کے بعد اس کی کتب فقہ میں موجود دیگر تعبیرات ذکر کرتے ہیں۔ پھر آخر تک قاعدے کے تین کلمات یعنی لایتم، تبرع اور قبض ۔۔۔۔ اس پر مفصل بحث پیش کرتے ہیں۔ لایتم اور تبرع سے متعلق فقہا کی مختصر عبارات درج کرنے کے بعد قبضے کے احکام پر ایک تحقیق انیق لا کر اس کی جملہ جہات کو واضح کر دیا ہے۔ قبضے کی اقسام، صورتیں، احکام و مسائل کی جزئیات پر اس کی تطبیق اور متعلقہ تمام فقہی ابحاث شامل کرتے ہیں۔ فن کا طالب جب تک کسی قاعدے کے اخیر تک پہنچتا ہے تو وہ صرف اس تین لفظی قاعدے کے توسط سے پورے گلشن فقہ کی سیر کر کے آ چکا ہوتا ہے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ایک ایک قاعدے کو جامعیت کے ساتھ پیش کرنے کے لیے کس قدر عرق ریزی سے کام لیا گیا ہو گا۔

جناب شاد محمد شاد صاحب نوجوانوں کی اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جو علامہ اقبال نے کہا تھا

خرد کو غلامی سے آزاد کر 

جوانوں کو پیروں کا استاد کر

بلاشبہ شورش، انتشار ذہنی، کج فکری، بد محنتی اور ضیاع وقت کے اس وبائی زمانے میں خود کو علم و تحقیق کے لیے ہمہ تن مصروف رکھے ہوئے ہیں اور ان کی نت نئی علمی و تحقیقی کاوشیں ان کے ہم عصروں کو حیرت میں مبتلا کیے دیتی ہیں۔ اللہ تعالی ان کے علم و عمر میں برکتیں عطا فرمائے اور ان کو ایسی مزید کامیابیوں کے لیے موفق فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

تبصرے بند ہیں۔