سچر کمیٹی کی سفارشات: مسلمانوں کا سچ 

مدثراحمد

جسٹس راجندر سچر کا نام ان لوگوں میں عام ہے جنہوںنے ہندوستان کی سیاست، ہندوستان کے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں لیکن کئی ایسے لوگ بھی ہیں جنہوںنے انکا نام بھی نہیں سنا ہوگاخصوصَا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد انکے نام سے مانوس ہے کیونکہ ہم مسلمانوں کے پاس محدود مدعوں کو سننے اور سنانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ ملک کے بٹوارے اور ملک کی آزادی کے بعد سے ہندوستانی مسلمان اپنی شناخت کھوچکے ہیں، مسلمان تعلیمی، معاشی و سماجی طورپر پسماندہ ہوچکے ہیں، اس پسماندگی کی کئی وجوہات ہیں جس کی فہرست طویل ہے لیکن ہم چند ایسی وجوہات کو بیان کرنا ضروری سمجھیں گے جو نہایت اہم ہیں۔

 ان میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد ملک کے مسلمان اس ملک میں اپنی شناخت قائم رکھنے کے لئے کسی بھی ایسی تحریک کی شروعات نہیں کی جس سے مسلمانوں کو پستی سے نکال کر عروج کی جانب لے جایا جاسکے۔ آزادی کے دوران تحریک ریشمی رومال اور جمیعت العلماء کی انتھک کوششوں نے جہاں مسلمانوں کو سیاسی اعتبار سے مضبوط رکھا تھا وہیں سرسید احمد خان کی علی گڑھ تحریک سے مسلمان علم و اداب کے گہوارے سے استفادہ کرنے لگے تھے مگر آزادی کے بعد جو بھی مسلمان مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے آگے بڑھا وہ ایک حد تک اپنی راہ پر سیدھا رہا لیکن جیسے ہی اسے اپنی منزل ملنے لگی وہ قوم کو بے سہارا اور لاچار چھوڑ کر اپنے مفادات کی تکمیل کی خاطر کمر بستہ ہوگیا۔ اسی طرح سے اہل علم کے حلقوں میں بھی مسلمانوں کا استحصال شروع ہوگیا اور مسلمانوں کو بٹورنے کے جتنے حربے انکے دماغوں میں آنے لگے وہ تمام حربے مسلمانوں پر آزمائے جانے لگے جس کی وجہ پوری قوم آج ہر زمرے میں پیچھے ہے۔ جب مسلمانوں کی اس بدحالی کے رونے کی آوازیں بلند ہونے لگیں تو سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور انکے ساتھی سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کو انکی حقیقت سے آگاہ کروانے کے لئے ایک جائزاتی کمیٹی کی تشکیل دی اور وہی کمیٹی سچر کمیٹی کہلاتی ہے۔

 چونکہ اس کمیٹی کے سربراہ دلّی ہائی کورٹ کے وظیفہ یاب جج جسٹس راجند ر سچر تھے تو انہیں کے نام سے کمیٹی پہچانے جانے لگی، انکے علاوہ اس کمیٹی میں مزید سات دانشوران بھی تھے جنہوںنے پورے ملک کے مسلمانوں کا جائزہ لیتے ہوئے انکے حالات کو قلمبند کیا اور اپنی رپورٹ حکومت کو سونپ دی تاکہ حکومت اس رپورٹ پر نظر ڈالے اور فوری طورپر مسلمانوں کو معاشی، تعلیمی اور سماجی مسائل سے باہر نکالے، لیکن پورے 12؍ سال گزرنے کے باوجود نہ تو مرکزی حکومتیں اس رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کو کسی طرح کی سہولت دینے کے لئے تیار ہے نہ ہی ریاستی حکومتوں کی جانب سے پیش رفت کی جارہی ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کی حالت جوں کی توں ہے۔ سب سے بڑا شکوہ تو مسلمانوں پر ہی ہے جن کے سیاسی، سماجی اور مذہبی رہنمائوں نے کبھی بھی اس سمت میں آواز اٹھانے کی جرأت نہیں کی ہے۔ جو قوم اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کی کوشش نہیں کرتی وہ قوم مردہ ہوجاتی ہے، اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والی قوم ہی زندہ قوم ہے۔

 ہماری مسلم تنظیمیں اور ادارے اگر بارہ سال میں اپنی اپنی ریاستوں میں ہی سہی مسلمانوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے تو شاید ہی سچر کمیٹی کی سفارشات زندہ رہتے اور حکمرانوں کو اس بات کاا حساس ہوتے رہتا کہ مسلمانوں کو حقوق چاہئے لیکن کہاں ہمارے قائدین کے پاس اتنی فرصت ہے۔ جو جماعتیں و تنظیمیں بنائے ہوئے ہیں انکے پاس کوئی مدعا نہیں ہے البتہ وہ اپنی تنظیموں اور اداروں کو فنڈ رائزنگ آرگنائزیشنس میں تبدیل کرچکے ہیں۔ فسادات، زلزلے، آگ زنی، سیلاب کا انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کب یہ قدرتی آفات آئیں اور کب ہم اپنے کارکنوں کے ہاتھوں میں چادریں دے کر انہیں چندہ کروانا شروع کریں اور عوام سے چندہ لے کر خوب واہ واہی بٹوریں۔ ہماری تنظیمیں آغاز میں جن اغراض و مقاصد کو عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں وہ کچھ دنوں بعد فوت ہوجاتے ہیں اور آخر میں صرف چندوں کو دھنداہی چلتاہے جس کے سبب مسلمان چندہ دینے والے اور چندہ لینے والوں میں ہی شمار ہوتے رہے ہیں۔ سچر کمیٹی کی سفارشات کا جائزہ لیاجائے تو اس میں جو باتیں کہی گئی ہیں ان باتوں کو اگر عملی شکل دی جائے تو یقینی طور پر مسلمانوں کو چندہ لینے اور دینے کی نوبت ہی نہیں آئیگی اور مسلمان قوم اپنے وقار کو بچاکر اپنی خوددار زندگی گزار سکے گی۔

 دستور ہند کے معمار ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈ کر نے جس طرح سے دلتوں اور پسماندہ طبقات کی بازآبادکاری کے لئے ریزرویشن فراہم کیاہے اسی ریزرویشن کی بنیاد پر آج دلت و پسماندہ طبقات ملک کے اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں، ہم مسلمانوں دلتوں کے برابر ریزرویشن دینے کے لیے مطالبہ نہیں کرسکتے ہیں تو سہی لیکن اپنے ریزرویشن کو اوبی سی سے ہٹاکر مخصوص تو کرواسکتے ہیں۔

کانگریس ہو یا جے ڈی یس، یس پی ہو یا بی یس پی مسلمانوں کو چاکلیٹ دینے کا ہی کام کرتے رہے ہیں کیونکہ یہ چاکلیٹ لینے والے مسلمانوں کے لیڈران ہی ہیں جنہوںنے اپنے مفادات کی خاطر اکثر قوم کا سودا کرتے رہے ہیں اس وجہ سے اب وقت آگیاہے کہ ہم میں سے عام مسلمان ہی اس سلسلے میں پیش رفت کریں اور ہمیں ہی اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانا پڑیگااور یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم زندہ ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔