کیا واقعی یہ ’من کی بات‘ ہے؟

گلزار صحرائی

’’ہمارےآئین میں  خاص بات یہی ہے کہ حقوق اور فرائض کے  سلسلے میں ا س میں تفصیلی وضاحت کر دی گئی ہے۔ شہریوں کی زندگی میں انہی دونوں کا تال میل ملک کو آگے لے  جائے گا۔ اگر ہم آئین میں دیے  گئے اپنے فرائض بہ خوبی سر انجام دیں گےاور دوسروں کے حقوق کا احترام کریں گے تو ہمارے حقوق کی حفاظت خودبہ خود ہو جائے گی۔ ‘‘یہ خیالات ہیں وزیر اعظم ہند مسٹر نریند ر مودی کے جس کا اظہارانھوں نے۲۵؍نومبر کو یوم آئین کے موقع پر خطاب کرتے  ہوئے اپنے مخصوص پروگرام ’من کی  بات ‘ میں کیا۔ عوام سے اپنے ’من کی بات‘ کرتے ہوئے انھوں نے  کہا کہ ’’سال ۲۰۲۰ میں ایک جمہوریت کے طور پر ہم ۷۰ سال پورے کریں گےاور ۲۰۲۲ میں ہماری آزادی کے ۷۵ سال پورے ہوجائیں گے۔ہم سبھی کو چاہیے کہ اپنے آئین کے اقتدار کو آگے بڑھائیں اور امن وخوش حالی کو یقینی بنائیں۔‘‘انھوں نے آئین ساز ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ یہ ان شخصیات کو یاد کرنے کا دن ہے جنھوں نے ہندستان کا آئین تخلیق کیا ہے،ساتھ ہی یہ کہنابھی نہیں بھولے کہ انھوں نے آکاش وانی پر اپنے اس پروگرام کو کبھی سیاست یا حکومت کی کامیابیاں گنوانے کے  لیے استعمال نہیں کیا۔

ریڈیو نشریات کے ذریعے عوام سے مخاطب ہونے کی روایت بلاشبہ ایک اچھی کوشش ہے اور وزیر اعظم عموماً اس میں بڑی اچھی اچھی باتیں بھی کرتے ہیں، لیکن عموماً وہ باتیں محض ’جملے‘ ہی ثابت ہوتی ہیں،یعنی عملی طورپر  ان کی اور ان کی پارٹی کی طرف سے  اس  کا اظہار نہیں ہوتا۔اب یہی اتفاق  دیکھیے کہ جس ۲۵؍ نومبر کو وزیر اعظم نے آئین ِ ہند کے ادب و احترام اور اس کی تعریف وتوصیف میں مذکورہ بالا خیالات کا اظہار کیا ہے، اسی دن یعنی ۲۵ ؍نومبر کو اسی آئین وقانون کے خلاف اپنی برہمی کے مظاہرے کےلیے ایودھیا میں ایک بھیڑ جمع کی گئی،جس کا پرزور مطالبہ یہ تھا کہ ایودھیا کے متنازعہ مقام پر  ہر حال میں رام مندر تعمیر ہونا چاہیے۔ حالاں کہ سب جانتے ہیں کہ بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازع کا کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے  اور اگلے سال جنوری سے اس کی سماعت شروع ہونے والی ہے۔اس کے باوجود رام مندر کے حامیوں کی جانب سے جس طرح کے اشتعال انگیز بیانات آرہے ہیں، اور مندر کے لیے الگ سے قانون سازی کے مطالبے کیے جارہے ہیں، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں ملک کے آئین وقانون کے تئیں ذرہ برابر بھی   احترام نہیں پایاجاتا۔غور طلب امر یہ ہے کہ عوام کو ملک کے آئین وقانون کےاحترام کا درس دیتے ہوئے  وزیر اعظم کا ذہن ایک بار بھی ملک کی اس تشویشناک صورت حال کی طرف نہیں گیا، حالاں کہ جو کچھ اس وقت ہورہا ہے اس سے وہ بے خبر تو ہرگزنہیں ہوسکتے۔

ایک یہی موقع نہیں ہے جب وزیر اعظم کے قول وعمل کافرق نمایاں طورپر محسوس کیا گیاہو، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ موجودہ دورِ حکومت میں، جسے عرف عام میں ’مودی سرکار‘ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے،  جس طرح قانون کی خلاف ورزی کا رجحان بڑھا ہے، ملکی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ موب لنچنگ کا ’کلچر‘ اسی دورِ حکومت میں فروغ پایا جس میں ذرا سی افواہ پر ایک بھیڑ عدالت وقانون کی یکسرنظر انداز کرکے کسی کی بھی جان لی لیتی  ہے۔کیا یہ رجحان وزیر اعظم کی مذکورہ ’من کی بات‘سے مطابقت رکھتا ہے؟ اگر نہیں، تو پھر اس کے سدِ باب کے لیے انھوں نے اب تک کچھ کیوں نہیں کیا؟حال ہی میں سبریمالا معاملے میں بھی سپریم  کورٹ کی ہدایت کو نظر انداز کرکے جس طرح مذہبی انتہا پسندوں نے  ہٹ دھرمی کا ثبوت پیش کیا وہ بھی اسی دورِ حکومت میں ممکن ہواہے۔ اسی معاملے میں خودبی جے پی صدر امیت شاہ کا ایک طرح سے عدلیہ کو دھمکاتے ہوئے یہ کہنا کہ ’’عدالت کو ایسے فیصلے نہیں سنانے  چاہئیں جن پر عمل نہ ہوسکے اور جو آستھا سے  جڑے  ہوں،‘‘ آئین وقانون کے احترام کی کون سی قسم ہے؟اورسب سے بڑھ کر بابری مسجد اور رام  مندر تنازع سے متعلق وزیر اعظم کے نظریاتی حلیف جس طرح کا طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہیں،اسے کیا عنوان دیا جائے؟کسی بے اختیاراور کمزور شخص کے قول وعمل میں اگر تضاد نظر  آئے تو اس کی تاویل یہ کہہ کر کی جاسکتی ہےکہ اس کا قول اس کے دل کی آواز ہے، اور عمل میں وہ اس لیے کمزور ہے کیوں کہ بعض معاملات اس کے دائرۂ اختیار سے باہر ہیں، جن پر اس کا زور نہیں چلتا۔لیکن کسی  بااختیار اور برسراقتدار شخصیت کے قول وعمل کے  تضاد کی کوئی معقول توجیہ نہیں کی جاسکتی،اس لیے  کہ اقتدار کا مطلب ہی یہ ہوتا  ہے کہ اس کے ذریعے اپنے ’من کی بات‘ پر عمل کیا جاسکے۔ اب اگر بااختیار اور برسر اقتدار شخص بھی ’اپنے من کی بات ‘ کے خلاف سب کچھ پرسکون رہ کر برداشت کررہا ہو، تو اس کے دو ہی مطلب لیے جاسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کا برسرِاقتدار ہونا محض فریب ہے اور اس کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے، دوسرے یہ کہ اس کے ’من کی بات‘ ہرگزوہ نہیں ہے جوظاہر کی جارہی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔