ہمارے بعد اردوئے معریٰ کون سمجھے گا؟

محمد طارق اعظم

کسی زبان کے لکھنے کی معیاری صورت یا لکھنے کا طریقہ کار رسم الخط کہلاتا ہے۔ رسم الخط زبان کی شناخت کے ساتھ قوموں کے شناخت کا بھی ذریعہ ہے۔ قوموں کے تہذیب و تمدن اور روایت و ثقافت کے بقا اور تحفظ میں رسم الخط کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندہ قومیں اپنے رسم الخط کو بےحد عزیز رکھتے ہیں اور اس کے بقا اور تحفظ میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے ہیں۔ یہ کہنا بجا طور پر درست ہے کہ اگر کسی قوم کا رشتہ اس کی تہذیب و تمدن اور اس کے ماضی سے ختم کرنا ہو تو اس کے رسم الخط کو مٹا دو، اس سے قوم کا رشتہ ماضی سے خود بخود ختم ہو جائے گا۔ اردو رسم الخط جو کہ اپنی جدا پہچان اور الگ شان رکھتی ہے اپنوں کی بے توجہی اور بے اعتنائی سے عدم تحفظ کے مسائل سے دو چار ہے۔ اردو سے محبت کا دم بھرنے والے تو بہت ہیں، مگر وہ خوش نصیب تھوڑے ہیں جو وفا کر رہے ہیں۔ گویا اکثر اُردو کے نام کی مالا جپنے والے اور اردو کی حالت بالکل ایسی ہی ہوگئی ہے جیساکہ کسی شاعر نے لکھا ہے  ؂

اب اردو کیا ہے کوٹھے کی ایک طوائف ہے

مزہ ہر ایک لیتا ہے، محبت کم کرتے ہیں

تجزیہ یہ بتلاتا ہے کہ اردو لکھنے اور پڑھنے والے زیادہ تر افراد وہ ہیں جو مدرسوں سے وابستہ ہیں، پھر تھوڑے وہ ہیں جنہوں نے مکتب میں مولوی صاحب سے اردو سیکھا تھا۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جدید نسل کی اکثریت اردو لکھنے پڑھنے سے بے بہرہ اور نابلد ہے جو کہ نسل کشی کی مترادف ہے۔ ماحول کے اثر سے ٹوٹی پھوٹی ہی سہی اردو بول لیتی ہے غنیمت ہے، پڑھنا بھی کسی حد تک ہے مگر لکھنے کا تو بس اللہ ہی حافظ ہے۔ اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب مکتب میں بچوں کو ”جگہ “کو پلیس (place) کہتے سنا اور جب ایک طالب علم سے قلم طلب کیا تو وہ مجھے اجنبیت سے تکنے لگے، سمجھانے پر وہ سمجھے کہ اُردو میں ”پین“ کو قلم کہتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ نئی نسل عام اردو الفاظ تک سے نا مانوس ہوتی جا رہی ہے، اس سنگین صورت حال میں تو صرف اردو زبان کا باقی رہ جانا ہی کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒاسی اندیشے کا اظہار کرتے ہوئے ایک خطاب میں قوم کو اردو زبان کی تعلیم پر اس طرح توجہ دلائی: ”دوسری طرف ان کی اردو کی تعلیم کا بھی انتظام کرنا ہو گا اور اس میں لکھنے پڑھنے کی صلاحیت پیدا کرنی ہوگی، جس میں وہ دینی، علمی و ثقافتی سرمایہ اور ذخیرہ ہے۔ جو عربی زبان کے بعد کسی مسلمان ملک کے زبان میں نہیں ہے۔ (اور بعض حیثیتوں سے وہ بعض شعبوں میں اس سے بھی فائق ہے) اس زبان سے مسلمان نسل کا یکسر نا آشنا ہو جانا اور اس میں لکھنے پڑھنے ہی نہیں اس کے سمجھنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو جانا ایک ذہنی و لسانی نسل کشی کے مترادف ہے، جو اس کو اپنے ماضی سے اپنے تمدن اور تہذیب سے یکسر نا آشنابنا دے گا۔ اسی سلسلے میں رسم الخط کا مسئلہ بھی آتا ہے، اس کی تبدیلی بھی کسی قوم کے اپنے قدیمی علمی و تہذیبی سرمایہ اور اپنے اسلاف کی محنتوں اور اپنے ماضی سے رشتہ کاٹ لینے کے مرادف ہے اور جیسا کہ فلسفی مورخ، TOyanbee نے لکھا ہے کہ: کتب خانۂ اسکندریہ کے مسلمان عرب فاتحین کے نذر آتش کر دینے کی روایات صحیح ہو یا غلط، اب ایسے کسی ذخیرہ کو نذر آتش کرنے اور بربادکردینے کی قطعی ضرورت نہیں رسم الخط script بدل دینا کافی ہے“۔ (۱)

اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ اردو زبان کی دلکشی، شیرینی اور وسعت کے باوجود اس کے چاہنے والوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو شاید انگریزی زبان سے مرعوب ہو کر اپنے مادری زبان کے تئیں احساس کمتری کی شکار ہے، اس لیے اس سے کنارہ کشی اختیار کرتے نظر آتے ہیں اور عام بول چال میں انگلش نما اردو بولتے نظر آتے ہیں۔ ان کی گفتگو میں انگریزی کا عنصر اس قدر غالب رہتا ہے کہ آپ کو یہی گمان گزرے گا یہ انگریزی میں گفتگو کر رہے ہیں جبکہ وہ اردو میں گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کی سنگینی کو بیان کرتے ہوئےحضرت مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں : ” ہماری روزمرہ کی بول چال میں انگریزی الفاظ، بلکہ پورے پورے جملوں کا استعمال جس تیز رفتاری سے بڑھ رہا ہے وہ ایک ایسا لمحۂ فکریہ بن چکا ہے کہ اگر اس پر ابھی سے توجہ نہ دی گئی تو ہماری زبان اور اس کے پس منظر میں ہماری ثقافت اور ہمارے دینی، علمی اور ادبی سرمائے کا نہ جانے کیا حشر بنے گا؟ جب اپنے بھائیوں کو عام گفتگو میں انگریزی الفاظ کا بےمحابا استعمال کرتے اپنی زبان کو اردو انگر یزی کا ایک مضحکہ خیز ملغوبہ بناتے دیکھتا ہوں تو واقعۃً تشویش لاحق ہوتی ہے کہ وہ اپنی زبان کو تباہی کےکس غار کی طرف لے جا رہے ہیں؟“(۲)

مزید اس خراب صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ ” اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری دینی علمی ادبی اور صحافتی زبان کا تقریبا دو تہائی حصہ نہ صرف عام لوگوں کے لیے بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے بھی اجنبی بن چکا ہے، جن کی تربیت انگریزی کے زیر سایہ ہوئی ہے۔ عہد حاضر کے مشہور مورخ ٹائن بی نے اپنی کتاب ”مطالعہ تہذیب“ میں لکھا تھا کہ پہلے زمانے میں بادشاہوں نے اپنے مخالفوں کا ملک فتح کرنے کے بعد ان کے کتب خانے جلائے تھے، (مثلا ًاندلس میں عیسائیوں نے مسلمانوں کی عظیم الشان علمی خزانوں کو نذر آتش کیا تھا) مقصد یہ تھا کہ اس قوم کا رابطہ اپنے ماضی سے کٹ جائے، لیکن مصطفی کمال اتاترک نے ترکی میں ایک ایسا آسان راستہ اختیار کیا کہ کتب خانے جلانے کی بدنامی بھی اٹھانی نہیں پڑی، وہ آسان راستہ یہ تھا کہ اس نے ترکی قوم کا رسم الخط بدل دیا، اب کتب خانے تو جوں کے توں محفوظ رہے، لیکن اگلے وقتوں کے چند بوڑھوں کے سوا ان سے استفادہ کرنے والا کوئی باقی نہ رہا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ساتھ کمال اتاترک کے راستے سے بھی زیادہ آسان راستہ اختیار کیا جا رہا ہے، ہمارے کتب خانے بھی جوں کی توں محفوظ ہیں رسم الخط بھی وہی کا وہی ہے، لیکن عربی اور فارسی تو کجا، خود اردو زبان کو بھی ہمارے لیے ایسا اجنبی بنایا جارہا ہے کہ اس کے علمی اور ادبی الفاظ ہمارے لیے اچنبھے بن کر رہ جائیں اور ہم اپنے دینی، علمی اور ادبی ذخیروں سے استفادے کے قابل نہ رہیں۔ چنانچہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہمارے صرف عام لوگ ہی نہیں بلکہ بہت سے اعلی تعلیم یافتہ حضرات بھی جو انگریزی اردو کی ملی جلی زبان کے عادی بن گئے ہیں اردو کی علمی کتابوں کے مطالعے میں سخت مشکل محسوس کرتے ہیں، وہ اردو کی ادبی عبارتوں سے لطف نہیں لے سکتے، غالب، ذوق اور انیس کو تو چھوڑیے وہ اقبال مرحوم تک کے اشعار ٹھیک ٹھیک سمجھنے پر قادر نہیں، نہ ان اشعار میں پوشیدہ افکار، تلمیحات اور مضامین کا صحیح ادراک کرسکتے ہیں“۔ (۳)

اس تبصرے کو پچیس سال کا عرصہ گزرنے کو ہے، گذرتے وقت کے ساتھ بجائے کم ہونے کے اس کی سنگینی میں اضافہ ہی ہوا ہے، ۲۰۰۱؁ میں اردو زبان ملک عزیز میں چھٹے مقام پر تھی جو کہ ایک دہائی کے بعد ہی کھسک کر ساتویں مقام پر آ گئی، جبکہ ہماری محبت کے شور و غوغا کے مطابق پانچویں مقام پر ہونا چاہیے تھا۔ ہائے خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا!اردو کے نادان دوستوں اور چاہنے والوں سے تو بس یہ شکوہ کرنے کو جی چاہتا ہے کہ ؂

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح 

کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا 

رومن رسم الخط کے عام رواج نے اس خطرے کی سنگینی کو دو آتشہ بنا دیا ہے۔ رومن رسم الخط اردو کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ جو اردو رسم الخط کے بجائے رومن اردو لکھتے ہیں وہ اردو زبان کے بڑے دشمن ہیں اور صرف اردو زبان ہی نہیں بلکہ اپنی روایت، تہذیب اور ثقافت پر بڑا ظلم ڈھا رہے ہیں اور اس کی جڑوں کو کھوکھلی کر رہے ہیں۔ خدا نخواستہ اگر یہ رومن رائج ہو گیا تو ہم اپنے عظیم تہذیبی، روایتی اور تاریخی ورثے سے محروم ہو جائیں گے اور ہماری آنے والی نسلیں اپنے تابندہ اور درخشندہ نقوشِ ماضی سے نا آشنا ہوں گی۔ اُردو رسم الخط کی حفاظت در حقیقت اردو زبان کی حفاظت ہے، اردو کی اصل پہچان اس کا اپنا انوکھا اور خاص رسم الخط ہی ہے، اس لیے اردو زبان کی حفاظت رسم الخط کے تحفظ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ اپنے خاص اسلوب اور انداز میں اردو زبان کی شرعی اور ثقافتی اہمیت بیان کرتے ہوئے اس کی حفاظت کو واجب قرار دیا اور اس سے غفلت برتنے اور پہلو تہی اختیار کرنے کو باعث گناہ اور آخرت میں پکڑ کا سبب قرار دیا، لکھتے ہیں ؛ ” اس بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے ملک ہند میں عربی کے بعد علوم دینیہ کا ذخیرہ جس قدر فارسی اور اردو میں ہے کسی اور زبان میں نہیں، خصوصاً انگریزی ( وغیرہ ) میں تو ہے ہی نہیں، اس اعتبارسے فارسی اور اردو کو ( اور اب توصرف اردو کو، کیونکہ فارسی اب متروک ہوگئی، مرتب ) دوسری زیربحث زبانوں پر شرعی طور پر فوقیت حاصل ہوگی، اور چونکہ علوم دینیہ مطلوب ہیں اور مطلوب کا مقدمہ ( وذریعہ بھی ) مطلوب ہوتا ہے اس لیے اردوفارسی میں مناسبت پیدا کرنا شرعاً مطلوب ہوگا۔ ( نیز ) مسلمانوں کو اپنی قومیت قائم رکھنے کے لیے اس امر کی ضرورت ہے کہ وہ انگریزی تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم سے بھی بہرہ اندوز ہوں، اگر وہ مذہبی تعلیم سے بالکل بے بہرہ رہیں گے تو ان کی قومیت کا شیرازہ ہر گزقائم نہیں رہ سکتا، اور یہ امر محتاج بیان نہیں کہ مسلمانوں کی مذہبی تعلیم سوائے اردو زبان کے ہندوستان کے کسی دوسری مروجہ زبان میں نہیں ہوسکتی۔ اس لیے اس وقت اردو کی حفاظت دین کی حفاظت ہے، اس بنا پر یہ حفاظت حسب استطاعت طاعت اور واجب ہوگی اور باوجود قدرت کے اس میں غفلت اور سستی کرنا معصیت اور موجب مواخذہ آخرت ہوگا، واللہ اعلم “۔ (۴)

اردو زبان کی حفاظت کے تعلق سے ہم اکیڈمیوں اور حکومت کا رونا روتے ہیں اور مجرمانہ طور پر اپنا پہلو اس سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ اس کی حفاظت کی پہلی ذمہ داری ہم پر ہی عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے گھر، دفتر، اسکول اور بازار میں اس زبان کو رواج دیں اور پھیلائیں۔ اس تعلق سے ہمارے کرنے کے چند کام یہ ہیں:

1۔ اگر اردو زبان کے تئیں احساس کمتری میں مبتلا ہیں تو اس احساس سے باہر نکلیں اور یہ یقین کریں کہ اردو زبان دنیا کی خوبصورت اور شیریں زبان ہے، اس کے ساتھ وہ تمام خصوصیات اس زبان میں لچک اور وسعت کے اعتبار سے موجود ہے جو ایک بین الاقوامی زبان میں ہونی چاہیے۔

2۔ رومن اردو کا بالکل بائیکاٹ کریں، رومن کو اردو رسم الخط کے لیے زہر قاتل یقین کریں، صحیح اور غلط کی پرواہ کیے بغیراردو کو اردو رسم الخط ہی میں لکھیں اور رومن میں لکھنا گناہ اور ظلم یقین کریں۔ ابتدا میں شاید کچھ دشواری ہو مگر یہ دشواری کچھ دنوں کی مشق کے بعد دور ہو جائے گی انشاء اللہ۔ میں ایسے کئی سے واقف ہوں جو بالکل اردو نہیں لکھ پاتے تھے لیکن کچھ ہی دنوں کی توجہ، محنت اور مشق سے اچھی اردو لکھنے لگے۔ اس لیے ہمت کریں اور اردو لکھیں یہ آپ کی طرف سے اردو کے لیے بڑی خدمت ہوگی۔

3۔ گھر میں خالص اردو بولنے کا ماحول بنائیں، خواہ مخواہ انگریزی کے الفاظ استعمال کرنے سے بچیں اور بچوں کی زبان کا بھی خاص خیال رکھیں۔

4۔ اردو اخبار، ماہنامہ رسالے اور کتابیں خریدنے کا معمول بنائیں، اپنے بچوں کے لیے کوئی ماہنامہ رسالہ جاری کروائیں، جیسے امنگ، بچوں کی دنیا، الہلال اور نور وغیرہ۔ اس سے بچے زبان سیکھنے کے ساتھ اخلاق اور تہذیب بھی سیکھیں گے۔

5۔ اپنی کمائی کا خواہ تھوڑا ہی سا حصہ اردو کتابوں کی خریداری کے لیے ضروری نکالیں۔

6۔ سائن بورڈ خواہ دوکان کی ہو یا اسکول کی اردو میں بھی لکھوائیں، مختلف کارڈ وغیرہ چھپواتے ہوں تو اسے اردو میں بھی چھپوائیں۔

7۔ اردو کوئی مشکل اور پیچیدہ زبان نہیں ہے بلکہ انتہائی آسان، دلکش اور شیریں زبان ہے اس کی اشاعت اور فروغ کو اہمیت دیں۔ اردو بولیں، اردو لکھیں اور اردو پڑھیں۔ بہ طورِ خاص انگلش میڈیم اسکول کے اربابِ حل و عقد سے درخواست ہے کہ اردو زبان کو بھی اپنے اسکول کے نصاب میں جگہ دیں، اردو زبان میں بھی تختیاں، بینر اور سائن بورڈ وغیرہ لگانے کا اہتمام کریں۔

8۔ بچے اگر ایسے انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کرتے ہوں، جہاں اردو کی تعلیم نہیں ہوتی ہے تو اپنے بچوں کے لیے مستقل اردو کی تعلیم کا انتظام کریں۔

اور بھی جو تدبیریں اور منصوبے اردو کی اشاعت اور حفاظت کے لیے آپ اختیار کر سکتے ہوں تو ضرور کریں، خواہ چھوٹے پیمانے پر ہی سہی انفرادی ہو یا اجتماعی۔ اگر ہم اس تعلق سے نہ  بیدار ہوئے اور نہ حساس تو وہ دن دور نہیں کہ یہ رہی سہی اور بچی کھچی اردو بھی مٹ کر بے نام و نشاں ہو جائے گی اور ہماری نئی نسل اپنی تاریخ، روایت اور تہذیب وثقافت سے یکسر بے بہرہ اور نا آشنا ہوگی۔ پھر ہم حضرت کلیم عاجز کی زبان میں یوں گویا ہوں گے ؂

غنیمت ہے ابھی ہم ہیں سنا لیجیے غزل عاجز

ہمارے بعد اردوئے معلٰی کون سمجھے گا ؟

۔ ۔

حواشی

(۱) خطباتِ علی میاں، ص۳۰۰، ج ۲، حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ۔

(۲) ذکر و فکر، ص ۲۴۳، حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب۔

(۳) ایضاً، ص ۲۴۷ -۲۴۸۔

(۴) احکام صحافت وذرائع ابلاغ مع آداب مطالعہ، ص

1 تبصرہ
  1. Naushad Zubair Mallick کہتے ہیں

    بہت عمدہ مضمون ہے

تبصرے بند ہیں۔