سچر کمیٹی کی سفارشات: کارواں نکلے تو منزل ملے گی

مدثر احمد

وطن عزیز میں مسلمانوں کے پاس ہر سال ایک نہ ایک مسئلہ رہتاہے، ہندوستانی حکومتیں مسلمانوں کو انکے حقیقی مسائل پر غورکر نے اور انکے حل کی جانب فکر کرنے کا موقع نہیں دیتی رہی ہیں، یہ بات صرف حکومتوں پر ہی نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں پر لاگو ہوتی ہے۔ آزادی کے بعد سے ہندوستانی مسلمانوں کو ہر سال ایک امتحان رہتاہے اور یہ امتحانات ایسے ہوتے ہیں جن کے نتائج کبھی نہیں نکلتے، کبھی مذہبی فسادات سے باہر نکلنے کا امتحان تو کبھی بابری مسجد کا امتحان، کبھی طلاق ثلاثہ کا معاملہ تو کبھی نکاح اربع پر بحث، کبھی مدرسوں کو دہشت گردی کے اڈے قرار دئے جانے پر تشویش تو کبھی مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد بناکر جیلوں میں بند کرنے کے معاملات، کہیں پر لوجہاد کے معاملات پر بحث تو کہیں پر گائو کشی کے معاملات پر سوالیہ نشان، اس طرح سے ایسے مسائل سے ہندوستانی مسلمان گھرے ہوئے ہیں کہ انہیں ان مسائل سے ہٹ کر انکی اقتصادی، سماجی، تعلیمی اور معاشی حالات پر سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا جارہاہے یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں مرکزی حکومت کے کہنے پر بننے والی جسٹس راجندر سچر کمیٹی کی رپورٹ پر آج تک عمل پیرائی نہیں ہوئی ہے، جسٹس راجند ر سچر نے اپنی رپورٹ میں واضح طورپر یہ کہاہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی حالت ہندوستان کے دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات سے بدتر ہیں۔

 آزادی سے پہلے راج کرنے والے مسلمانوں کی حالت آزادی کے بعد جس طرح پیش کی جارہی ہے وہ قابل افسوس بات ہے۔لیکن اس رپورٹ پر عمل کروانے کی ذمہ داری ہم مسلمانوں کی ہی تھی مگر بارہ سالوں میں کس نے اس تعلق سے آواز بلند کی اسکا ہمیں علم نہیں ہے۔ ماہرین یہاں تک کہتے ہیں کہ جسٹس سچر کمیٹی کی سفارشات کو اگر صد فیصد عمل میں لاتے ہوئے مسلمانوں کی بازآباد کاری کے لئے کام کیاجائے تو تب بھی  مسلمانوں کی ترقی ممکن نہیں ہوگی۔ ذرا سوچئے کہ خود ماہرین اس بات کا اعتراف کررہے ہیں تو مسلمانو ں کی حالت کیا ہے۔ ہم نے سچر کمیٹی کی سفارشات کو کبھی جاننے کی بھی کوشش نہیں کی ہے۔

جسٹس سچر اپنی رپورٹ میں کہتے ہیں کہ کئی سابقہ کمیشنوں اورکمیٹیوں کی سفارشات پر ’’عمل درآمد‘‘ نہ ہونے کہ وجہ سے مسلم فرقہ کسی بھی نئے اقداما ت کے باے میں بہت محتاط ہو گیا ہے۔ ’’ ایک کے بعد ایک میمورنڈم پیش کئے جانے سے تھکے ہوئے، بہت سے لوگوں نے کہا کہ اب نتائج چاہئے۔اگرچہ سارے لوگوں نے امید کا دامن نہیں چھوڑا ہے مگر بہت سے لوگوں کا احساس ہے کہ ریاست کے رویے میں تبدیلی کیلئے ’’عزم اورارادہ اورذہنیت میں تبدیلی‘‘ کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو بہ یک وقت وطن دشمن ہونے اورنازبرداری کا دوہرا الزام سہنا پڑرہا ہے۔ اس صورت میں اگر مسلمان یہ کہہ کر خاموش ہوجائیں کہ ہمیں نہ انصاف ملے گا نہ سہولتیں ملیں گی تو یقینی طورپر یہ مسلمانوں کی ہار ہوگی۔ دوسری جانب ہم مسلمانوں نے کبھی بھی اپنے سماجی، اقتصادی اور تعلیمی حقوق کے لئے آواز بلند نہیں کی ہے جس کی وجہ سے مسلم اور غیر مسلم حکمران یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ مسلمان خود اپنے حقوق کے لئے آواز نہیں اٹھارہے ہیں تو ہم کیونکر انہیں سہولیات دینے کی بات کریں اور کیوں اپنی سیاست میں خلل پیدا کریں۔ ہمارے مطالبات سن کر ہمیں اکثر افسوس ہوتاہے۔ ہم زندہ لوگوں کے لئے بہت کم مانگتے ہیں ہمارے مطالبے قبرستانوں کے لئے جگہ کا ہوتاہے، ہمارے مطالبے درگاہوں کے احاطے بندی کے لئے ہوتے ہیں۔

 ہماری ناراضگی حکمرانوں کی جانب سے مسلمانوں کو انکے حقوق دئے جانے پر نہیں ہے بلکہ ہمارے جلسوں، تقاریب، شادی بیاہ میں شرکت نہ کرنے پر ہوتی ہے۔ پچھلے دنوں کرناٹک میں عیدمیلاد کے مرکزی جلسے میں ریاست کے وزیر اعلیٰ کمار سوامی کی عدم موجودگی پر مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ناراضگی کا اظہارکر تا رہا، اسی طرح سے ٹیپوجینتی کے موقع پر بھی وزیر اعلیٰ کمار سوامی اور نائب وزیر اعلیٰ جی پرمیشور کی عدم موجودگی پر ریاست میں خوب چرچہ چلا۔ ہمارے درمیان کچھ ایسے مسلم لیڈران بھی ہیں جو اپنے اپنے علاقوں میں جب تک انکا رکن اسمبلی عید کی نماز میں شرکت نہیں کرتا اسوقت امام کو نماز شروع کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور اگر رکن اسمبلی نے شرکت نہیں کی تو ہماری سوچ یہ بن جاتی ہے کہ رکن اسمبلی یا رکن پارلیمان مسلمانوں کا دشمن ہے۔ درحقیقت مسلمانوں کو جن باتوں کو لے کر تشویش، برہمی، غصہ، ناراضگی کرنی چاہئے ان باتوں پر وہ توجہ نہیں دیتے بلکہ غیرضروری باتوں پر اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے نہ صرف اپنا نقصان کررہے ہیں بلکہ پوری قوم کا نقصان کا سبب بن رہے ہیں۔

پورے بارہ سال کی تاریخ کو کھنگال کر دیکھا جائے تو کسی ایک دو تنظیموں یا جماعتوں نے سچر کمیٹی کی سفارشات پر ایک یا دو میمورنڈم حکومتوں کے حوالے کیا ہے لیکن ان سچر کمیٹی کی سفارشات کو نافذ کرنے کے لئے آج تک ایک بھی تحریک یاآندولن شروع نہیں ہواہے۔ ملک کے تمام پسماندہ طبقات جیسے پاٹھیدار، مراٹھا، جاٹ جیسی قومیں کم تعداد میں ہونے کے باوجود اپنے حقوق کے لئے نہ صرف آوازیں بلند کیں بلکہ حکومتوں کا تختہ ہی پلٹ دیا یا پلٹنے میں کامیاب رہے۔ مگرایسا لگ رہاہے کہ مسلمان قوم میں اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی جد وجہد کرنے کا مادہ ہی فوت ہوگیا ہے اور وہ اپنے بنیادی حقوق کو حاصل کرنے کے لئے منصوبہ بندی کرنے کے بجائے مندر مسجد کی پہیلی سلجھانے میں مصروف ہورہی ہے۔

 وقت کی ضرورت ہے کہ مسلمان اپنے اپنے علاقوں میں سچر کمیٹی کی سفارشات کو نافذ کرنے کے لئے آواز اٹھائیں، یہ کام یقینی طورپر کسی سیاسی جماعت کے ماتحت نہیں ہوسکتاکیونکہ سیاسی جماعتیں کبھی نہیں چاہیں گے کہ مسلمانوں کے حقیقی مدعوں پر انکی قیادت کریں بلکہ وہ ہمیشہ مسلمانوں کو اپنے اطاعت گزار بنانے کی کوشش میں رہتیہیں۔

حالانکہ یہ کامیابی مسلمانوں کو ایک یا دو بار کوشش کرنے پر نہیں ملے گی اس کے لئے وقت کی قربانی، مال کی قربانی اور اپنی طاقت کی قربانی دینی ہوگی تب جاکر کہیں مسلمانوں کو حقوق مل سکتے ہیں اور یہ حقوق ہمیں نہ سہی ہمارے آنے والی نسلوں کوضرور فائدہ پہنچائیں گے۔ ہماری آنے والی نسلوں کو تعلیم اور روزگار میں ریزرویشن ملے گا۔ ہمارے غریب و متوسط مسلمانوں کو مالی امداد ملے گی۔ بس پہل ہمیں سے ہونی ہے اور منزل تک ہم پہنچیں یا نہ پہنچیں قدم بڑھاتے جائیں بھلے منزل تک کوئی اور اس کارواں کو لے جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔