آزاد ہندوستان پر ایک قیمتی تاریخی: تنقیدی و تجزیاتی دستاویز

نایاب حسن

ہندوستان کو آزاد ہوئے ستر، اکہتر سال کا طویل عرصہ گزر چکاہے، اس دورانیے میں سیاسی، معاشرتی و معاشی سطح پر بے شمار تبدیلیاں رونما ہوئیں اور ہورہی ہیں، حکومتوں کی آمدورفت اور سیاسی جماعت کا عروج و زوال اپنی رفتار سے جاری ہے، مگر ایک مسئلہ ہے کہ جواول دن سے اپنی جگہ قائم ہے اور حل ہونے میں نہیں آتا، وہ مسئلہ ہے مجموعی طورپر ملک کی ہمہ گیر و ہمہ جہت ترقی و خوشحالی اور خاص طورپراس ملک کے مسلمانوں کی سماجی، معاشی وتعلیمی مشکلات کا مداوا، بہ طورایک عظیم جمہوری ملک یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم ترقی کی طرف ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں، توفوراً ہی کئی قدم پیچھے ہٹالیتے ہیں، ہمارے سیاست داں زیادہ ترعیار، مکار، بے ایمان اور ضمیر فروش ہیں، ہمارے یہاں سیاست عوام کی خدمت نہیں، تگڑم بازی، غنڈہ گردی اور داداگیری کرکے کی جاتی ہے، مذہب سیاست دانوں کے لیے ایک ایساثمردار درخت ہے، جس سے ہر سیاسی پارٹی حسبِ موقع و سہولت مستفیض ہوتی اور عوام کے مذہبی جذبات کو بھڑکاکر انھیں اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو تباہ کرنے پر اکساتی ہے، یہ بھی عجوبہ ہی ہے کہ یہاں کسی معمولی سرکاری آفس میں نوکری کے لیے بھی ایک متعینہ تعلیمی لیاقت کاہونا ضروری ہے، مگر سیاست کے شعبے میں آنے کے لیے کسی قسم کی تعلیمی لیاقت کی کوئی شرط نہیں، نتیجہ یہ ہے کہ وہ لوگ، جنھوں نے زندگی کے دسیوں سال خرچ کرکے اور شب و روز محنت و مشقت کے بعد اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں حاصل کیں اور مقابلہ جاتی امتحانات پاس کیے، وہ نرے جاہل، گنوار، بدبوداراور ذہنی و فکری طورپر مفلس؛بلکہ مفلوج انسانوں کا جھولا ڈھوتے پھر نے پر مجبور ہیں۔

بات اگر اس ملک کے مسلمانوں کی کی جائے، جو مجموعی طورپرآزاد ہندوستان کا کم ازکم بیس فیصدہیں، توان کے توخیرکیاہی کہنے، ان کا وہ مسئلہ، جو چودہ و پندرہ اگست1947کو شروع ہوا تھا، وہ ستر سال کی مدتِ دارز گزرنے کے باوجود آج بھی وہیں ہے، یعنی اس عرصے میں کم ازکم دونسلیں گزرچکیں، مگر مسلمانوں کا مسئلہ حل ہی نہیں ہوسکا؛بلکہ دن گزرنے کے ساتھ اس میں مزید پیچیدگی آتی گئی، افسوس کہ جن مذہبی و سیاسی قیادتوں نے ان کے مسئلے کو حل کرنے یا کروانے کی باتیں کیں، انھوں نے بھی زیادہ تر باتیں ہی کیں، نتیجہ یہ ہے کہ اب مسلمانوں کی صورتِ حال پرمنعقد ہونے والی ہر مجلس میں ’’سچرکمیٹی‘‘کی رپورٹ کوآموختہ کی طرح دہرایاجاتا اورآہ و نالہ و دردکے اظہار کے ساتھ وہ مجلس اختتام پذیر ہوجاتی ہے۔ ابھی چند دن قبل ہی ایک خبر نظر سے گزری کہ کانسٹی ٹیوشن کلب میں بارہویں اصغر علی انجینئر یادگاری خطبے کا انعقاد عمل میں آیاتھا، اس کا عنوان تھا’’مسلمانانِ ہند:ماضی و حال‘‘جس میں خطاب کرتے ہوئے ملک کے معروف ماہر قانون و مصنف اے جی نورانی نے کہاکہ اس وقت مسلمانوں کی حالت 1857اور 1947سے بھی بدتر ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ گویا پونے دوسو سال کے عرصے میں مسلمانوں کا سفر ہر دن زوال ہی کی طرف ہوتا رہاہے، ان کی اس بات میں کلی تونہیں، مگر بڑی حد تک حقیقت اور سچائی ہے، اس کے لیے اجتماعی طورپر تو تمام مسلمان قصوروار ہیں، مگر زیادہ قصور ان افراداور اداروں کاہے، جنھوں نے مختلف زمانوں میں مختلف سٹیجوں سے مسلمانوں کی نمایندگی و قیادت کے ڈھول پیٹے، ظاہر ہے کہ ان قیادتوں نے کچھ نہ کچھ کام توضرورکیاہوگا، مگرفی الجملہ انھوں نے وہ نہیں کیا، جس کی ان سے توقع کی گئی یا جو کرنے کے انھوں نے خود اپنی زبانی وعدے کیے۔ نورانی صاحب نے اپنی تقریر میں کئی اہم پوائنٹس کی نشان دہی کرتے ہوئے کہاہے کہ ان پر کام کرنے کی ضرورت ہے، تبھی مسلمانوں کے حالات بہتر ہوسکتے ہیں، مگر مسئلہ پھر یہ پیدا ہوتاہے کہ یہ کام کرے گاکون؟اس مجلس کے صدرنشیں جناب حامد انصاری تھے، جومسلسل دس سال ہندوستان کے نائب صدر جمہوریہ رہ کر گزشتہ سال سبکدوش ہوئے ہیں، انھوں نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایاکہ آزادی کے بعد مسلمانوں کی طرف سے سب سے زیادہ تعلیم سے بے توجہی برتی گئی ہے اورتمام تر پریشانیوں کا سامناانھیں اسی وجہ سے ہے، انھوں نے زور دیاکہ مسلمانوں کی حقیقی ترقی تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے سے ہی ہوسکتی ہے (http://muslimmirror.com/eng/muslims-of-india-are-in-worst-position-today-than-in-1857-or-1947-)

اِس وقت دراصل میرے پیشِ نظر ایک نئی کتاب ہے، جس میں بڑی دیدہ ریزی و بصیرت مندی کے ساتھ آزاد ہندوستان اور خاص طورپر اس ملک کے مسلمانوں کی کہانی بیان کی گئی ہے، کتاب کانام بھی’’کہانی اپنے ہندوستان کی ‘‘ہے، اسے پڑھتے ہوئے بداہتاً کچھ باتیں ذہن میں آگئیں ؛اس لیے اس کتاب پرکچھ لکھنے سے قبل ان باتوں کا ذکر ضروری سمجھاگیا۔ زیر ِنظر کتاب کا پیش لفظ معروف دانش ور اور فی الحال دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئر مین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے لکھاہے، کتاب کے مصنف ہمارے معزز دوست رمیضـ احمد تقی(فاضلِ دیوبند) ہیں، سیاسی و سماجی موضوعات پران کے مضامین ملک وبیرونِ ملک کے اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں، سوان کانام اہلِ علم و قلم کے نزدیک جانا پہچاناہے، چندسال قبل انھوں نے سیرتِ پاک ﷺ کے موضوع پر سوال و جواب کی روشنی میں ایک کتاب مرتب کی تھی، جسے خاطرخواہ مقبولیت حاصل ہوئی تھی، 2017ء میں اس کتاب کا ہندی ترجمہ بھی شائع ہوچکاہے۔

مصنف نے زیر نظرکتاب میں مختلف عناوین کے تحت سلسلہ وار آزادی کے بعد سے لے کر اب تک کے ہندوستان کا گہرا، بے لاگ و بصیرت مندانہ تجزیہ پیش کیا ہے، ’’ہندوستان:لفظی پس منظر‘‘، ’’تاریخی پس منظر‘‘، ’’مزید تاریخی حقائق‘‘ان عناوین کے تحت مصنف نے مجموعی طورپرہندوستان کے تاریخی پس منظر کو مختلف تاریخی حقائق و شواہد کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے واضح کیاہے کہ ہندوستان کانام ہندوستان کیوں اور کیسے ہے؟اس ملک میں کتنے مذاہب ہیں اور ان کا پس منظرکیاہے؟اس ملک کاماضی بعید کا سماجی ڈھانچہ کیاتھااور مسلمانوں کی یہاں آمد کے بعد اس میں کیا تبدیلیاں ہوئیں ؟ہندوستان کی اکثریتی آبادی کے مابین پائی جانے والی پیچیدہ ترین سماجی و طبقاتی تفریق پر بھی انھوں نے جامع گفتگو کی ہے۔ چوتھاعنوان ہے’’تاریخ کی بھول‘‘اس کے تحت بنیادی طورپر مصنف نے اکبر، اورنگ زیب، دیگر مغلیہ حکمرانوں اور ٹیپوسلطان شہید وغیرہ کو مسخ کرنے کی علمی و تصنیفی کوششوں کی نشان دہی کرتے ہوئے ناگیندرناتھ بنرجی، ڈاکٹربشمبھر ناتھ پانڈے، ششی تھرور اور جاوید اختر وغیرہ کے حوالے سے انھوں نے اصل صورتِ حال کو واضح کرنے اور دائیں بازوکے مؤرخین و مصنفین کی بدنیتی کو واشگاف کرنے کی عمدہ کوشش کی ہے۔ پانچواں عنوان’’خونِ شہیداں ‘‘ہے، جس میں جنگ آزادی میں مسلم علماو دانشوران اور عوام کی جاں نثارانہ شرکت کو تاریخی حقائق کی روشنی میں بیان کیاگیاہے۔ چھٹا عنوان’’قانون سازمجلس اور مسلم ممبران‘‘غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے، اس میں رمیض صاحب نے بڑی دیدہ ریزی کے ساتھ ہندوستان کی قانون ساز مجلس کے مسلم ممبران کی تعیین کرتے ہوئے دستورِ ہند کی تشکیل میں ان کے کردار پر روشنی ڈالی ہے، عام طورپر ہر ہندوستانی یہی سمجھتاہے کہ دستورِہند کی ڈرافٹنگ اور اس کی تیاری ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکرکی دین ہے، مگر ایسا نہیں ہے، یہ تو حقیقت ہے کہ وہ دستور تیار کرنے والی جماعت کے سربراہ تھے، مگر اس میں مختلف مذاہب کے بہت سے ماہرینِ قانون و دانشوران شریک تھے اور سبھوں نے مل کر آئینِ ہند کا خاکہ تیار کیاتھا، مصنفِ کتاب نے تحقیق کرکے ایسے35؍مسلمانوں کی نشان دہی کی ہے، جوقانون سازمجلس کے ممبراور آئین ِہند کی مسودہ سازی میں شریک تھے۔

ان کے علاوہ مزید سولہ عناوین کے تحت اس کتاب میں آزادہندوستان کے سیاسی اتارچڑھاؤ، تعلیمی و معاشی پسماندگی، دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی، کشمیر اور کشمیریوں کے مسائل، گئوکشی کا ہوّا اور اس کے پسِ پشت حقائق، غیر سرکاری سماجی تنظیمیں اور ان کے حقیقی عملی جغرافیے کا تاریخی، تحقیقی و تنقیدی تجزیہ اورآرایس ایس و نمایندہ مسلم تنظیمیں مثلاً جمعیت علماے ہند، مرکزی جمعیت اہلحدیث، جماعت اسلامی ہند، امارت شرعیہ، رضا اکیڈمی ممبئی وغیرہ کے قیام کے پس منظر اور ان کی کاکردگیوں کا بے لاگ جائزہ پیش کیاگیا ہے، کتاب کا آخری مضمون’’آئینۂ مدارس‘‘کے عنوان سے ہے، بہ ظاہر یہ مختصر اور سادہ سا عنوان ہے، مگر اس میں مصنف نے لفظِ مدرسہ کی لغوی و تاریخی تحقیق سے لے کرعہدِ نبوی میں مدرسے کے تصور، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے تعلیمی مشن، ہندوستان میں قیامِ مدارس کی تحریک، خاص طورپر دارالعلوم دیوبند کے قیام اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے  طے کردہ اصولِ ہشت گانہ پر گفتگو کرتے ہوئے مدارس کی موجودہ صورتِ حال، اس کے نظام و نصابِ تعلیم اورعملی دنیا میں فضلاے مدارس کو درپیش مشکلات پر نہایت بصیرت مندانہ و بے باکانہ اظہارِخیالات کیاگیاہے، یہ مضمون خاصا فکر انگیز ہے، اس میں ظاہرہ کردہ افکار و آرا کے بعض حصوں سے اختلاف کی گنجایش ہوسکتی ہے، مگر چوں کہ رمیض صاحب خود فاضلِ دارالعلوم دیوبند ہیں اور ان کی ساری تعلیم و تربیت مدرسوں میں ہی ہوئی ہے؛اس لیے یہ تو بہر حال ماننا پڑے گا کہ انھوں نے مدارس یا فضلاے مدارس کے تعلق سے جو کچھ لکھا ہے، وہ سن کر نہیں، دیکھ اور برت کر لکھاہے اور نہایت دردوفکرمندی کے ساتھ لکھا ہے۔

 اس طرح یہ کتاب آزاد ہندوستان کی سیاسی، سماجی ومعاشی تاریخ کانہایت ہی جامع جائزہ پیش کرتی ہے، ہندی مسلمانوں کو درپیش مسائل پر ایک منفرد انداز سے روشنی ڈالتی ہے اور جہاں قاری کے علم و معلومات میں بے پناہ اضافہ کرتی ہے، وہیں قدم قدم پر اسے چونکاتی، اس کی روایتی سوچ کو کچوکے لگاتی اوراسے اپنا زاویۂ نظر تبدیل کرنے پر ابھارتی ہے، اس کتاب کو پڑھتے ہوئے دل ودماغ کے کینوس پر تجسس، تحیر، تعجب، کبھی خوشی و مسرت اور کبھی غم و اندوہ کے رنگارنگ نقوش ابھرتے چلے جاتے ہیں، یہ کتاب دعوتِ تدبر ہے، دعوتِ عمل ہے، دعوتِ احتساب ہے اورخیال و فکر کے مختلف النوع دیوتاؤں کی پرستش کی بجاے ان سے پرسش کا رویہ اختیار کرنے کی دعوت ہے۔ یہ کتاب ہر اس شخص کے مطالعے میں ہونی چاہیے، جوپڑھنے لکھنے کے ذوق کے ساتھ سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق سے بہرہ مندہے۔

 بعض مقامات پرموجودکمپوژنگ کی غلطیوں سے قطع نظر مجموعی طورپرکتاب کی زبان و بیان نہایت عمدہ اور سلیس ہے، مصنف نے معلومات و خیالات کی پیش کش کے ساتھ اسلوبِ تحریر اور پیرایۂ اظہار کی شایستگی وشگفتگی پر بھی خاص دھیان دیا ہے، پوری کتاب نہایت رواں ددواں اندازِ تحریر کا خوب صورت نمونہ ہے۔ مواد کی معنویت کے ساتھ کتاب کا ظاہری سراپا، طباعت وغیرہ بھی دیدہ زیب، جاذب ودلکش ہے، مرکزی پبلی کیشنزمحترم مولانا فیروز اختر قاسمی کی سربراہی میں معیاری و مثالی طباعت کے روشن نشان قائم کررہاہے، اسی ادارے کے زیر اہتمام اس کتاب کی اشاعت عمل میں آئی ہے، 208صفحات پر مشتمل اس وقیع پیش کش کی قیمت 150روپے بہت مناسب ہے۔

تبصرے بند ہیں۔