سگریٹ

ایس ایم حسینی ندوی

میں ہوں اور انگلی میں دبی ایک سگریٹ ہے بس!

جس کی راکھ کے ملبے میں سلگ رہی ہیں آہیں،

اور اکھڑتی، سنبھلتی، ادھوری سانسیں

خشک ہوتے لبوں کی سرحد کو چھونے سے ڈر رہی ہیں،

عجب تماشا لگا ہوا ہے خزاں کا موسم بچھا ہوا ہے

رفتہ رفتہ ساری الجھن یوں حوصلہ سے لپٹ رہی ہے

جیسے کوئی تھکا مسافر رہِ وطن سے قریں تو ہے پَر

خیالوں کے بوجھ سے، قدم اس کے ڈگمگا رہے ہیں

اور ایک خوف اس میں پنپ رہا ہے کہ جانے کیا ہو!

کیا خبر کوئی حادثہ یہیں کہیں اس کی تاک میں ہو!

نشان قدم بھی اب پچھلی راہوں سے مٹ رہے ہیں

وہ ڈر رہا ہے کہ یہ خاکی ذرے اس کے قدموں سے کیوں چمٹ رہے ہیں

گھڑی کی رفتار بڑھ رہی ہے، سانس دھنکی سی چل رہی ہے

سہمی سہمی نگاہیں، منزل کی جستجو میں بھٹک رہی ہیں

بجھا بجھا یہ مسافر، سگریٹ ہونٹ پہ رکھنے سے ڈر رہا ہے

ایک کش کی سکت نہیں بچی ہے، مچل رہا ہے، تڑپ رہا ہے

دل کی دھڑکنوں سے اب موت کا گیت اٹھ رہا ہے

وہ چل رہا ہے بڑھ رہا ہے، ٹھہر ٹھہرکے پلٹ رہا ہے

جیسے کسی کی اس کو آرزو ہو، اور تکمیل آرزو ہی بقا ہو

یاسیت سے بھری فضا میں، خشک ہوتے سکڑتے لبوں پر

ابھی ابھی اک آتشیں شعلہ لپک کر بجھا ہے

اس کو ایک نئی راہ مل گئی ہے، اور دھواں فضا میں تحلیل ہورہا ہے!

تبصرے بند ہیں۔