سہ روزہ قومی سمینار ’اردو کا داستانی ادب‘ کا افتتاح

ڈاکٹر خالد مبشر

اس دور کا ایک اہم المیہ یہ بھی ہے کہ کلاسیکی متون خصوصاً داستانیں دستیاب نہیں ہیں۔ ہمارے یہاں چند ہی ایسے لوگ ہیں جنھوں نے داستانوں کا مطالعہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ داستانوں سے متعلق زیادہ تر گفتگو اور تحریریں بہت زیادہ بامعنی نہیں ہوتیں ۔ لہٰذا کرنے کا کام یہ ہے کہ داستانیں شائع کی جائیں اور لائبریریوں میں فراہم کرائی جائیں اور اس پر یونیورسٹیوں میں تحقیق و تنقید کی فضا ہموار کی جائے۔ ان خیالات کا اظہارشعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، یو جی سی، ڈی آرایس، فیزIII کے زیر اہتمام سہ روزہ قومی سمینار ’’اردو کا داستانی ادب‘‘ کے افتتاحی جلسے میں صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے سید شاہد مہدی نے کیا۔

داستان گوئی اور داستانوں کی قرأت کے کلچر کی بازیافت زبان وا دب ہی نہیں قومی زندگی کے لیے ناگزیر ہے: سید شاہدمہدی

مہمان اعزازی پروفیسر شمیم حنفی نے کہا کہ کسی بھی قوم کی پہچان اس کا کلاسیکی ادب ہوتا ہے۔ داستان کو قدیم نقطۂ نظر کے بجائے اپنے عہد کے ایڈیم سے ہم آہنگ کر کے پڑھا جائے۔کہانی محض خیالی اور ہوائی باتیں نہیں ہوتیں بلکہ کہانی زندگی کی علامت ہیں ۔جس دن کہانی کی موت ہوجائے گی اس دن زندگی کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں ناول اور افسانے کے جتنے بڑے نام ہیں ان سب نے اظہار و بیان کی تمام قوتیں داستانوں سے حاصل کیں ۔کلیدی خطبہ دیتے ہوئے پروفیسر انیس اشفاق نے کہا کہ ہماری داستانیں الفاظ، زبان، بیان، اسلوب اور محاورہ و ضرب الامثال ہی نہیں بلکہ نثری بیانیہ کے تمام ترروشن امکانات اپنے اندر رکھتی ہیں ۔داستانوں کی ایک اہم خصوصیت کہانی، پلاٹ، مکالمہ، زندگی کی ہماہمی اور تہذیب کی نیرنگیوں کو حل کر کے ایک توانا تخلیق وجود میں لانابھی ہے۔

کہانی کی موت زندگی کا خاتمہ ہے: پروفیسر شمیم حنفی

استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے صدر شعبہ پروفیسر شہپر رسول نے کہا کہ داستانوں کو عموماً قصۂ پارینہ تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کی عصری معنویت و افادیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ نظامت کے فرائض ڈی آر ایس فیز III کے کوآرڈی نیٹر پروفیسر وہاج الدین علوی نے انجام دیتے ہوئے کہا کہ داستانی تلمیحات اور لفظیات سے ہمارا جدید شعر و ادب آج تک مملو نظر آتا ہے۔پروگرام کا آغاز ڈاکٹر شاہنواز فیاض کی تلاوت اور اختتام ڈاکٹر ندیم احمد کے اظہار تشکر پر ہوا۔

داستانی بیانیہ سے رشتہ کٹ جانے کے سبب زبان اپنی قوتوں سے محروم ہوگئی ہے: پروفیسر انیس اشفاق

اس موقع پر پروفیسر عتیق اللہ، پروفیسر خالد محمود، پروفیسر شہناز انجم، پروفیسر نسیم احمد، پروفیسر نزہت کاظمی، ڈاکٹر فوزان احمد، پروفیسر قمر الہدیٰ فریدی، پروفیسر ظفر احمد صدیقی، ڈاکٹر رحمن مصور، ڈاکٹررضا حیدر، ڈاکٹر عبدالنصیب، ڈاکٹر علاء الدین، ایم آر قاسمی، ڈاکٹر شکیل اختر، پروفیسر شہزاد انجم، پروفیسر احمد محفوظ، پروفیسر عبدالرشید، ڈاکٹر خالد جاوید، ڈاکٹر عمران احمد عندلیب، ڈاکٹر سرور الہدیٰ، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر ابوالکلام عارف، ڈاکٹر شاداب تبسم، ڈاکٹرمحمد آدم، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر سلطانہ واحدی، ڈاکٹر نعمان قیصر، ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی، ڈاکٹر محضر رضا، ڈاکٹر شاہدہ فاطمہ، ڈاکٹر فیضان شاہد، ڈاکٹر نوشاد منظر، امتیاز احمد، محمد عارف، عرفان احمد، صدف پرویزاور امیتاز حسین کے علاوہ بڑی تعداد میں ریسرچ اسکالرس اور طلبا و طالبات موجود تھے۔

تصویر میں دائیں سے بائیں : 
پروفیسر وہاج الدین علوی، پروفیسر انیس اشفاق، جناب سید شاہد مہدی، پروفیسر شمیم حنفی، پروفیسر شہپر رسول

تبصرے بند ہیں۔