سیاست میں اللہ والیوں کا کیا کام؟

احساس نایاب

چند دنوں سے  اخبار، ٹیلیویزں،  شوشئل میڈیا پہ کچھ ایسی خبریں گھوم رہی ہیں جنکو دیکھنے کے بعد ذہں میں بار بار ایک ہی سوال آرہا ہے کہ سیاست میں اللہ والئیوں کا کیا کام ؟

اور شاید یہ سوال کسی ایک یا دو انسانوں کے گرد نہین بلکہ ہندوستاں کے ہر اس شخص کے ذہں میں ہے جو ملک و ملت کے لئے فکرمند ہیں کیونکہ اسلام میں عورت کو کبھی بھی خلافت یا سیاست کی اجازت نہیں دی گئی ,, اگر عورتوں کا سیاست یا خلافت میں آنا درست ہوتا تو سب سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ عملاً آکر اشارہ دیتے جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ تو علم کا سمندر تھے یہاں تک کے صحابہ کسی بھی مثلہ پہ آپ رضی اللہ عنہ سے رائے مشورہ کیا کرتے تھے۔ اسلام میں عورتوں کی خلافت کی اجازت نہ ہونے کی بات ( حضرت سلیماں علیہ وسلام اور بلقیس کے واقعے سے ثابت ہوتی ہے )

جب قرآنِ شریف میں بلقیس کی خلافت کو ہی اللہ اور اللہ کے نبئیوں نے ناپسند کیا تو آجکے دور میں عورتوں کا سیاست میں آنا کیسے درست ہوگا ؟؟؟ وہ بھی خود کو عالمہ کہنے والی عورت۔

جی ہاں نوہیرہ شیخ جو خود کو عالمہ کہتی ہیں تو وہ  کیوں اور کس مقصد سے سیاست کے دلدل میں آئی ہیں اگر نئیت خدمتِ خلق کی ہے تب بھی خدمتِ خلق کرنے کے اور بھی کئی راستے ہیں، جس چیز کی اسلام میں اجازت نہیں ہے اُسکو کرنا کیسے صحیح ہوگا ؟

چاہے تو پڑوسی ممالک کو ہی دیکھ لیں پاکستاں اور بنگلہ دیش میں عورت کو سامنے رکھ کر پورا سپورٹ دیا گیا اور جہان پہ عورت کو مرد کے آگے رکھا گیا وہ قومیں زوال پزیر ہوگئی،

وہیں امریکہ کو دیکھینگے تو وہان پہ کبھی کسی عورت کو پریسیڈینٹ نہیں بنایا گیا، تعجب کی بات تو یہ ہے کہ غیر ممالک، غیر مذاہب کے لوگ قرآں پہ عمل کرکے کامیاب ہورہے ہیں اور ہم مسلماں  ناسمجھی حماقت سے خود کا ہی نقصاں کررہے ہین

مانا نوہیرا شیخ عالمہ ، عورت ہوتے ہوئے بھی ایک کامیاب تاجرہ ہیں، اپنی تجارت شرعی دائرے میں رہکر کررہی ہیں , اگر وہ اتنے کامیاب، دیندار، اللہ والی ہیں تو سیاست میں اپنے قدم جما کر کیا حاصل کرنا چاہتی ہیں , کیونکہ سیاست کیا ہے، اس بات سے تو ساری دنیا واقف ہے , اور سیاست شرعی احکامات کے بنا تو چلتی نہیں۔ اگر ایک پل کے لئے  ایسا ممکں ہوتا تو آج ہمارے شرعی معملوں میں جبراً مداخلت کرکے ان میں ردوبدل کرنے کی کوشش نہین کی جاتی۔

اس لئے یہ عالمہ تاجرہ تک کی بات تو سمجھ آتی ہے لیکں سیاستداں ہونے کی بات سمجھ کے باہر ہے وہ بھی ایسی سیاسی جماعت سے رُجو ہوکر جو مسلمانوں کی کھلی دشمں ہے , ایسے لوگوں سے نوہیرہ شیخ کا میل جول کسی بھی سمجھدار انساں کو ہضم نہ ہونے والی بات ہے۔

اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرماں ہمیشہ ذہں نشیں کرلیں ۔ (جو آپ کے دشمنوں کے ساتھ بیٹھا ہو وہ کبھی آپکا دوست نہیں ہوسکتا)۔

نوہیرہ شیخ کے بارے میں تو اور بھی بہت کچھ سنا ہے  ,,, خیر یہ انکی ذاتی زندگی ہے کسی کو اس سے کیا ,,, مگر جہاں بات ہمارے ملک و ملت پہ آئے تو کوئی بھی برداشت نہیں کرسکتا کیونکہ  حالئہ حکومت کی وجہ سے 4 سالون میں ملک جن حالات سے  جوج رہا ہے اسکا سب سے زیادہ اثر مسلمانوں پہ پڑا ہے اور اس حقیقت سے تو ساری دنیا واقف ہے۔ اور چند ذمیدار لوگ ان بگڑتے ہوئے حالات کو قابو میں لاکر بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ آئے دں بیباکی سے حکومت کو آئنہ دکھاتے ہوئے عوام کو سیاستدانوں کی سازشوں سے روبرو کروارہے ہیں۔ وہ بھی بنا کسی مفاد کے انہین تو بس اپنے ملک اور اپنی قوم کی پرواہ ہے۔ نہ کے کسی بھی قسم کی تجارت کا شوق نہ گاڑی بنگلوں کی آرائش نہ عالیشاں زندگی گذارنے کی چاہت نہ ہی کسی کی واہ واہی۔ یہ تو سیدھی سادھی زندگی گذارتے ہوئے حالاتِ حاضرہ پہ غور و فکر کر اپنے پیشے سے جڑی ذمیداریوں کو بخوبی نبھانا چاہتے ہیں اور انکا فرض بھی بنتا ہے کہ ملک میں آنے والے گھوٹالوں اور خطروں سے عوام کو وقت رہتے آگاہ کریں کیونکہ کچھ ہی دں پہلے ہندوستاں میں جسطرح کے گھوٹالے سامنے آرہے ہیں اسکا سیدھا اثر غریبوں اور متوسط سطح کے گھرانوں پہ پڑ رہا ہے جو فکریہ بات ہے۔ اور یہاں پہ بھی ذرا غور کریں کہ ان گھوٹالوں کا اثر  کبھی کسی دولتمند تاجر یا تاجرہ پہ نہیں پڑا وہ تو دنیا کو چکماء دیکر اپنا اُلو سیدھا کرتے ہیں میٹھی میٹھی باتیں کر بڑے فائدوں کی آس دلاکر غریبوں کو لوٹ رہے ہیں اور بھولی بھالی عوام انکے جھانسے میں آکر اپنی زندگی بھر کی جمع پونچی گنواہ کر راستے میں آجاتی ہے۔

 لیکں اللہ سے ہماری دعا ہے کہ ہیرا گولڈ، ہیروں کی چمک دکھاکر کسی کے ہاتھ نہ جلائے اور نہ ہی بی جے پی جیسی سیاسی جماعت کے سیاستدانون کے ساتھ مل کر ہندوستاں  میں سیاسی زہر گھولے جیسے طلاق کا معملہ اچھالنے والی چند عورتوں نے مسلم خواتیں میں انتشار پیدا کر کے کئی گھر تقسیم کئیے پورے ہندوستاں میں ہنگامہ برپا کرتے ہوئے شریعت کا مذاق بنانے کی کوشش کی اور افسوس ایک حد تک کامیاب ہوکر آج بھاجپہ کی گود میں کھیلنے والی گُڑیا بنکے رہگئ ہیں اور سنا ہے کہ ان میں سے کسی ایک کو یوگی نے وقف بورڈ کی رکن بناکر 3 طلاق پہ مسلمانون میں انتشار پیدا کر یوپی چناؤ میں جیت حاصل کرلی ہے ,, ان عورتوں کی اس حماقت , بیوقوفی , کمظرفی کی سزا لاکھوں مسلم خواتیں اور کئی گھرانے چکارہے ہیں ,,,, فلحال  بھاچپہ کا ایجنڈہ تو یہی ہے  ,, ( زن , زر، زیور )  جیسے فتنے کو بھاجپہ اپنی سیاسی منصوبہ بندی میں شامل کر کے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار بناکر استعمال کررہے ہیں اور انکا اگلا مہرہ نوہیرہ شیخ ہیں، ویسے تو نوہیرہ شیخ سیاست میں آنے کا مقصد خواتیں کے لئے لڑنا بتاتی ہیں ,, پر یاد رہے 3 طلاق معملے میں بھی مسلم خواتیں کی فلاح بہبودگی ہی بتائی گئی تھی۔ اور اس فلاح کا ہرجانہ آج تک ہماری مسلم باپردہ خواتیں راستوں پہ احتجاج کر چکارہی ہیں۔ اسلئے ہم مسلمانوں خاص کر مسلم خواتیں کو کسی بھی سیاسی رہنماء سے ہمدردی کی کوئی ضرورت نہیں جو مسلم نوجوانون کے قاتلوں سے ملے ہوئے ہیں۔  انکے ساتھ سیلفی لیتے ہوئے گل پوشی کرواتے ہوں , چاہے وہ عالمہ ہوں فاضلہ ہوں یا ہیرا گولڈ گروپ کی نوہیرا شیخ کیوں نہ ہوں۔

اتنا سب کچھ ہونے کے بعد سب کچھ صاف صاف دیکھتے سمجھتے مسلم خواتیں اتنی بیوقوف نہیں ہیں جو انکی سازشیں بھانپ نہ سکیں۔ مسلم خواتیں حقیقت جاں چکی ہیں کہ فلحال نوہیرا شیخ۔ بی جے پی کا نیا مہرہ ہیں جسے استعمال کر کرناٹک میں خواتیں کے نام پر مسلم ووٹ تقسیم کئیے جاسکیں۔ اور اسکا پورا فائدہ بی جے پی خود اٹھائیگی اور اس منصوبے کو پورا کرنے کے لئے بی جے پی آر ایس ایس کڑورون عربوں پیسہ پانی کی طرح بہاکر عوام کو فائدے کی آس دلواکر اپنی طرف یعنی نئی سیاستداں نوہیرا شیخ کی طرف جھکانے کی پوری کوشش کریگی اور اسکے بدلے بیشک نوہیرا گروپ کو تجارتی فوائد مراعات دی جائیگی اور کچھ مرد جو آر ایس ایس کی مسلم شاخ، مسلم راشٹریہ منچ سے جڑے ہوئے لوگ ہین وہ نوہیرہ شیخ کے آگے  پیچھے گھومتے ہوئے انکی واہ واہی کر مسلم ووٹس کو تقسیم کرنے میں اپنا اہم کردار پیش کرینگے۔ پر یہان پہ بھی افسوس چند منافقوں کی وجہ سے بی جے پی اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیگی اور اسکا سب سے بڑا نقصاں مسلمانوں کا ہی ہوگا اور اللہ نہ کریں کرناٹک کی حالت یوپی بہار جیسی ہوجائے اور اللہ نہ کریں ہماری کم عقلی کی قیمت ہماری عورتوں , بچوں اور آنے والی نسلوں کو چکانی پڑے اور ہمارے نوجواں جنید،نجیب ،  افرزل کی طرح۔

اسلئے اب اپنی قوم کے دانشوران , معززین کرناٹک کی دانشمندی کاامتحان ہے کہ وہ بکھرتے ہیں یا وقت رہتے ایک جُٹ ہوکر قوم کی صحیح رہنمائی کرتے ہوئے اس آفت کو دفعہ کرتے ہیں۔

نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو

تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔