سیاسی بیداری وقت کی اہم ضرورت

فیروز احمد

مسلمانان ہند کے دل ودماغ  اور روح کوزخمی کرنے  والا طلاق ثلاثہ بل آخر کار پارلیامنٹ میں مودی حکومت نے اپنی طاقت وحکومت  کے نشہ میں چور ہوکر  پاس کروالیا  اور غالب گمان ہے کہ اس بل کو  راجیہ سبھا سے بھی پاس کروا لے گی، کیونکہ کانگریس پارٹی کی نرم رویہ نے پارلیامنٹ میںاس بل کو پاس کرانے میں اہم رول ادا کیا ہے، اس سے یہ بات  صاف طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ  وہ  راجیہ سبھا میں بھی وہی رویہ اپنائے گی  جس سے بآسانی بل پاس ہوجائے گا۔ دراصل کانگریس  ایک طرف تو مسلمانوں کی  طرف توجہ ختم کرتی جارہی ہے وہیں دوسری طرف سوفٹ ہندوتو اپنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہے تاکہ اس کا ووٹ بینک غیر مسلموںمیں مزید مستحکم ہوتا جائے۔

اس بل کے پاس ہوتے وقت سب سے شرمناک پہلو جو سامنے آیا ہے وہ مسلم ممبران پارلیامنٹ کا  مرد مجاہد اسد الدین اویسی کا  شانہ بشانہ نہ کھڑا ہونا ہے، اولا تو ان ممبران کو اس بل کی سخت مخالفت کرنا چاہئے  تھا  یا کم از کم اس بل میں ترمیم کی گنجایش پیدا کرنا  تھا  اور اویسی صاحب کا  مکمل اور پر زور ساتھ دینا تھا۔ لیکن  اس مرد مجاہد کی اواز  دیگر  مسلم ممبران کی عدم توجہ اور بے ضمیری کی  وجہ سے صدا بصحرا ثابت ہوگئی۔ جس سے  پوری ملت اسلامیہ ہند یہ کی تاریخ میں ایک اور سیاہ دن کا اضافہ ہوگیا اور شریعت اسلامیہ  میں   صراحتا  مداخلت ہوگئی۔

جب سے  بی جے پی حکومت میں آئی ہے تب سے  ہندوستان میں مسلمانوں کو جا نی و  مالی نقصانات کا برابر سامنا کرنا پڑ رہا ہے اب حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مسلمانوں کے دین وشریعت پر براہ راست  بل پاس کرکے حملہ کرنا شروع کردیا ہے  اور معاملہ یہیں تک  محدود ہوتا نظر نہیں آرہا ہے  بلکہ اور بھی  کئی  خالص اسلامی ودینی مسائل میں مداخلت کرنا  شروع کر دیا ہے، جیسے مودی کا کل ہی  کا  بیان ہے کہ  حج کے لئے مسلم عورتیں بغیر محرم  کے مکہ مکرمہ کا سفر کر سکتی ہیں۔

ان تمام مسائل  کا مقابلہ  کرنے کے لئے مسلمانوں کو سب سے پہلے اپنے اپ کو متحد کرنا ہوگا  اور سیاسی طور پر  بیداری کا ثبوت  دینا ہوگا۔ کیونکہ اب تک مسلمانوں نے بی جے پی  کی مخالفت میں کانگریس اور  دیگر علاقائی پارٹیوں کا ساتھ دیا ہے، اب اس بل کے پاس ہونے سے یہ بات  روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ مسلمانوں کا ساتھ دینے  والا کوئی نہیں ہے حتی کہ جن پارٹیوں میں مسلم ممبران پارلیامنٹ ہیں  تو  وہ بھی اپنی پارٹی سے الگ ہوکر مسلم مسائل پر کھل کر ساتھ نہیں دیتے ہیں ،  ہونا تو یہ چاہیے تھا  کہ جو مسائل مسلم قوم سے  متعلق ہیں اس مسئلہ پر تو قوم کا ساتھ دینا تھا آخرانہیں لوگوںنے تو ان کو اپنے مسائل اٹھانے کے لئے  پارلیامنٹ تک بھیجا ہے۔

    اس موقع پر وہ لوگ کہاں گئے جو  اویسی کو بی جے پی اور ار ایس ایس کا ایجنٹ کہتے نہیں تھکتے تھے  انہیں بھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا  پڑیگا کہ کون  مسلمانوں کا سچا وفا دار ہے،  بعض لوگ جو سیاست کو شجر ممنوعہ گردانتے ہیں اب انہیں بھی سوچنا ہوگا کہ اگر اویسی  جیسے کچھ اور بے باک نڈر مرد مجاہد ممبران پارلیامنٹ میں ہوتے تو آج کچھ اور ہی نقشہ نظر آتا اور مسلمانوں کو ایسی ذلت و رسوائی کا دن نہ  دیکھنا پڑتا۔

ایک مسلما ن کا  مکمل عقیدہ  ہے کہ اسلام ایک  ایسا ضابطہ حیات ہے جو  انسان کے ہر مسائل پر محیط ہے  خواہ وہ مسئلہ  دینی ہو یا سیاسی  عائلی ہو  یا معاشی۔ کیا ایسے حالات میں ہم سیاسی سوجھ بوجھ کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتے یا وہی پرانی بات دہراتے رہیںگے  یہ سیاسی مسئلہ ہے  ہم مسلمانوں کو اس میں ملوث  نہیںہونا چاہیے۔ اگر اس طرح کی سوچ رکھتے رہیں   گے تو  وہ دن  دور نہیں جب ہم  مسلمانوں کو شریعت  پر چلنے کی اجازت نہ ہوگی  ۔  آج حکومت نے طلاق ثلاثہ پر پابندی لگائی ہے کل تعدد ازدواج اور پھردھیرے دھیرے  نماز و  روزہ پر پابندی لگا دے گی۔

ویسے بھی ار ایس ایس کا  علانیہ ایجنڈا ہے کہ مسلمانوں کو اس ملک میں رہنا ہوگا تو اس سے سارے حقوق  چھینا جائے گا نہ اسے ووٹ دینے کا حق ہوگا اور نہ اسے اپنی شریعت کے مطابق چلنا ہوگا کیونکہ ہندوستان میں رہنے والے سب ہندو ہیں۔ اگر جینا ہے تو ہندو بن کر رہنا پڑیگا  جس کا عملی جامہ پہنانے میں یہ لوگ  انتھک کوشش کر رہے ہیں خواہ  وہ  ہندوستان کی قدیم تاریخ بدل کر ہو یا پورے تعلیمی نظام کو بھگوا  رنگ میں رنگ کر ہو یا مسلمانوں کو  زد و کوب اور وحشیانہ ظلم و بربریت، ڈر اور خوف پیدا کرکے ہو۔ اور اس سے بڑھ کر ہندوستان کے ہر اہم عہدے  پربھگوا ذہنیت کے حامل افراد کی تعیناتی ہو  جس کا اثر اب دیکھنے کو ملنے لگا ہے کہ  اب  جہاں بھی جائیں گے اپ کو انصاف ملنا مشکل ہوجائے گا۔

اس لئے وقت کی  اہم ضرورت ہے کہ ہم سیاسی طور پر مستحکم ہوجائیں اور اپسی اتحاد  پیدا کرتے ہوئے جو پارٹی ہمارے دین وایمان اور شریعت  کی حفاظت کے  لئے کمر بستہ ہو  اور جو ہماری جان ومال عزت وآبرو کی حفاظت کے لئے  ہر وقت تیار ہو  اور دشمنوں کے  اپنی فہم و فراست سے دانت کھٹی کر دے ، کیوں نہ ہم کھلم کھلا  ان کی حمایت کریں اور  دل وجان سے  ان  کا  ساتھ دیں، وہ سارے طریقے اپنائے جائیں جس سے  ہماری تعداد پارلیامنٹ اور  راجیہ سبھا میں  بڑھتی جائے  تاکہ پھر ہمیں  یہ سیاہ  دن  دیکھنا نہ پڑے۔

اللہ ہم مسلمانوں کو صحیح سوجھ بوجھ عطا کرے اور دشمنوں کے شر کے محفوظ رکھے آمین۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔