حضرت مولانا علی میاں ندویؒ: یادوں کے جھروکے سے (آخری قسط)

محمد شاہد خان ندوی

حضرت مولانا کی شہرت ومقبولیت صرف علماء کے درمیان ہی نہیں تھی بلکہ عرب حکام وسلاطین سے بھی مو لانا کے اچھے روابط تھے، مو لانا وہاں بھی اپنے داعیانہ کردار کو نبھاتے اورانھیں بعثت نبوی کے مقاصد اور مسلمانوں کے مسائل سےآگاہ فرماتے اور ’الدین النصیحہ’ کے تقاضے حکمت کے ساتھ پورے کرتے، مو لانا کی باتوں کو حکام بڑی توجہ سے سنتے، مو لانا طلبہ سے بھی یہ بات کہتےکہ اگرآپ کےپاس علم ہےتوبادشاہ وقت بھی آپ کی بات سنے گا اور آپ کی توقیر پر مجبور ہوگا، دراصل مولانا حکمراں طبقہ اور عوام کے درمیان ایک پل کاکام کرتےتھے، ہندستان ایک جمہوری ملک ہے یہاں کی اکثریت ہندو آبادی پرمشتمل ہے لیکن یہاں کے بھی بڑے بڑے سیاسی رہنما مو لاناسے بغرض ملا قات تشریف لاتے، ملک کے وزراء اعظم، وزراء اعلی، گورنرس اور وزراء سبھی حضرت مو لانا کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ مو لانا ان لوگوں کو ملک کی سالمیت کے تئیں درپیش خطرات کی طرف متوجہ فرماتے، ہمارے طالبعلمی کے زمانہ میں جب دیو گوڑا صاحب ملک کے وزیر اعظم ہوئے اور حضرت مو لانا سے ملنے ندوہ تشریف لائے تو اسوقت حضرت مولانا نے ان سے براہ راست انگریزی زبان میں گفتگو کی تھی۔ اسکے دوسرے دن سارے اخبارات نے یہ سرخی لگائی تھی کہ مو لانا علی میاں ندوی نے بغیر کسی مترجم کے سہارے وزیراعظم سے انگریزی زبان میں گفتگو کی، مو لانا سیاسی رہنماؤں سے ملنے سے حتی الامکان گریز کرتے تھے، جب کوئی قومی یا ملی مسئلہ درپیش ہوتا تھا تبھی ملاقات کیلئے آمادہ ہوتے، مو لا نا نے کبھی کسی سیاسی جماعت کیلئے ووٹ کی اپیل نہیں کی، 1995 کی بات ہے حضرت مو لانا نے ڈاکٹر یوسف قرضاوی صاحب کو ندوہ میں مختلف موضوعات پر محاضرے کیلئے مدعو کیا تھا، عصر کے بعد ڈاکٹر یوسف قرضاوی صاحب کا کتب خانہ شبلی کے زیریں ہال میں محاضرہ ہوا، بعد نماز مغرب بھی پروگرام طے تھا اسی درمیان معروف سیاسی رہنما رام ولاس پاسوان صاحب کو خبر ہوگئی کہ مو لانا ندوہ میں تشریف رکھتے ہیں، عام طور سے سیاسی لوگ اس طرح کے مواقع کی تاک میں رہتے ہیں اور وہ اسکا سیاسی استعمال بڑی چابکدستی سے کرتے ہیں، مغرب کی نماز کا وقت ہورہا تھا جیسے ہی پروگرام ختم ہوا اور مو لا نا نماز کیلئے رخصت ہوئے، رام و لا س پاسوان صاحب کانفرنس ہال میں پہونچ گئے، ان کے آنے کی اطلاع پاکر مو لانا نے مغرب بعد کا پروگرام ملتوی کردیا اور کسی بہانہ سے پروگرام ہال تشریف نہیں لا ئے، اسکے بعد رام و لاس پاسوان صاحب نے طلبہ کے سامنے اپنی تقریر کی اور پھر رخصت ہوگئے،مو لانا کی عظمت کا سفر یہیں ختم نہیں ہوتا، بلکہ ان کا پر عزم سفر کئی جہتوں میں بڑی خوش اسلوبی سے بڑھ رہا تھا، حضرت مولانا کے غیر مسلم اسکالرس سے بھی اچھے تعلقات تھے، جب ملک کی فضا فرقہ واریت کے دھویں سے زہرآلو ہورہی تھی، جگہ جگہ فسادات ہورہے تھے اور مذہب کی بنیاد پر درندگی کا گھناؤنا کھیل کھیلاجا رہا تھا اسوقت حضرت مو لانا نے ‘ تحریک پیام انسانیت ‘شروع کی، مو لانا پیام انسانیت کے جلسوں میں ہندو اسکالرس کو بھی مدعو کرتے تاکہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا ہوسکے، پنڈت بشمبر ناتھ پانڈے وغیرہ کو ہمیں پیام انسانیت ہی کے جلسوں میں سننے کا موقعہ ملا۔

مو لانا ایک سچے محب وطن تھے، وہ ہندستان کی سالمیت کیلئے سیکولرزم کی حفاظت کو ضروری خیال کرتے تھے۔ تزک بابری کے حوالے سےوہ اکثرہمایوں کیلئے کی گئی وصیت بابری کا حوالہ دیتے،وطن پرستی کے ساتھ ساتھ مولانا قومی مسائل کیلئے بہت فکر مند رہا کرتےتھے، جب ادب کے نام پر اسلامی ادباء کو نظر انداز کرکے نام نہاد ادباء کو ایوارڈس سے نوازا جاتا اور ان کی عزت افزائی کی جاتی تو۔ مولانا بہت دکھی ہوتے اور شکوہ کناں ہوکر علامہ اقبال کے ان اشعار کو بڑے جوش کے ساتھ پڑھتےکہ:

اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ ہنر کیا
مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شررکیا
جس سے دل دریا میں تلاطم نہیں ہوتا اے قطرۂ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا
شاعرکی نواہوکہ مغنی کا نفس ہو جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا!
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں جو ضرب کلیمیؑ نہیں رکھتا وہ ہنرکیا

اسلامی ادب کو فروغ دینے اور اسلامی شعراء وادباء کی حوصلہ افزائی کے مقصد سے مو لانا نے ‘ رابطہ ادب اسلامی’ کی بنیاد ڈالی، مو لانا اصلاح نصاب کے بڑے حامی تھے بشرطیکہ اصلاح محض برائے اصلاح اور ناقدین کے ذوق کی تسکین کی خاطر صرف نہ ہو، ان کا مدعا ہمیشہ یہ تھا کہ اس اصلاح کا مقصد مدارس کے طلبا کے اندر اسلامی علوم میں رسوخ پیدا کرنا اور اسلامی طرز فکر کو پوری قوت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنا ہو، وہ چاہتے تھے کہ طلبہ میں اسلامی ثقافت سے نہ صرف یہ کہ گہری واقفیت ہو بلکہ وہ اسلام کی ابدیت اور اسلامی تہذیب کی حیویت پر مکمل یقین رکھتے ہوں، وہ مایوس کن حالات میں بھی یہ ماننے کو تیار نہ ہوں کہ اسلام اب اپنی معنویت کھو چکا ہے بلکہ مضبوط علمی د لائل کے ذریعہ وہ دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنے کا ہنر رکھتے ہوں کہ اسلام کا چشمۂ حیواں کبھی خشک نہیں ہوتا اور اس کا فیض ہمیشہ جاری رہتا ہے، اور اسی لئے نصاب میں چرند پرند اور حیوانات کی کہانیاں پڑھنےکے بجائے وہ چاہتے تھے کہ مسلم بچے انبیاء اور صلحاء کی کہانیاں پڑھیں، اس مقصد کے تحت حضرت مو لانا نے نئی نئی درسی کتابیں خود بھی لکھیں اور اپنے شاگردوں سے بھی لکھوائیں، مختارات، منثورات، قصص النبیین، الفقہ ا لمیسر، جزیرۃ العرب، تاریخ الا دب العربی بین عرض ونقد وغیرہ کتابیں اسی پروگرام کا حصہ ہیں۔  مو لانا تنظیموں میں مسلسل اصلاح کے قائل تھے اور ‘ قو انفسکم واہلیکم نارا’ کے تحت چاہتے تھے کہ اصلاح کا عمل پہلے اپنے گھر سے شروع ہو اور اس معاملے میں وہ عرب وعجم کے مزاج کو بتلاتے تھے، ایک دفعہ مو لانا مجلس میں فرمانے لگے کہ جب وہ پہلی بار مصر گئے اسوقت ‘ الاخوان ا لمسلمون’ پر پابندی عائد تھی اور ان کے پروگرام انڈر گراؤنڈ ہوا کرتے تھے، ماذا خسر کے حوالے سے مولانا کی شہرت مصر تک پہونچ چکی تھی اسوقت مرحوم حسن الہضیبی اخوان کے مرشد عام تھے، مو لانا کے اعزاز میں ان لوگوں نے ایک پروگرام رکھا اور مو لانا کوخطاب کی دعوت دی، مو لانا فرماتے ہیں کہ اسوقت میرے مزاج پر تبلیغی اثرات بہت زیادہ تھے، جب میں نے تقریر شروع کی تو میں نے اپنے گھر کی اصلاح، اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت، ذاتی زندگی میں نماز اور دوسرے فرائض کےاہتمام وغیرہ پر زور دیا، مو لانا نے فرمایا کہ جب میری تقریر ختم ہوئی اور اس پر تبصرے کیلئے حسن الہضیبی صاحب کھڑے ہوئے تو اسوقت وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ علی میاں تم ابھی ابھی مصر آئے ہو تم اخوان کے بارے میں کیا جانتے ہو ؟ لیکن انھوں نے یہ سب کہنے کے بجائے یہ تبصرہ فرمایا کہ ابھی ہمارے درمیان شیخ ابوالحسن خطاب فرما رہے تھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے ہمارے درمیان شیخ حسن البناموجود ہوں،مو لانا نے مزید فرمایا کہ اسکے برخلاف میں نے ایک بار اورنگ آباد میں تقریر کی اور انھیں موضوعات پر زور دیا تو کسی نے جاکر حضرت نظام الدین میں حضرت جی سے یہ شکایت درج کرائی کہ علی میاں تبلیغی جماعت کے مخالف ہوگئے ہیں اور پھر مولانا کو صفائی پیش کرنی پڑی۔

مو لانا اپنی تقریروں اور گفتگو میں ہندستانی مسلمانوں کو درپیش خطرات سے آگاہ فرماتے، وہ کہتے تھے کہ اس ملک کو ایک دوسرا اسپین بنانے کی تیاری کی جاچکی ہے، ہمیں اس ملک کو بچانا ہے، مزید فرماتے کہ ہم اس ملک میں اپنے پورے ملی وجود اور تشخص اور اپنی زبان کے ساتھ جینا چاہتے ہیں، ہم اس ملک میں اپنے تہجد کی ایک رکعت سے بھی دست بردارہونےکو تیار نہیں ہیں، حضرت مو لانا علی میاں جیسے مربی روز روز جنم نہیں لیتے، ان کی شخصیت کی خاص بات یہ تھی کہ کثرت مشاغل کے باوجود انھوں نے اپنے علمی سفر کو آخری سانسوں تک جاری رکھااور اپنے دوسرے مشاغل کو علمی مشغلہ پر کبھی بھی حاوی نہیں ہونے دیا، ان کی شخصیت اتنی عظیم بن چکی تھی کہ وہ اپنے تعارف کیلئے کسی اور حوالہ کے محتاج نہ تھے بلکہ اداروں اور تنظیموں کا تعارف بلکہ بسا اوقات ملک عزیز ہندستان کا تعارف بھی ان کی ذات سے ہوتا تھا، وہ ایک اعتدال پسند انسان تھے، اخلاص و للہیت، تقوی وپرہیز گاری ان کی شرست میں تھی، وہ بیک وقت ایک داعی، ایک معلم، ایک منتظم، ایک تاریخ نویس،ایک تذکرہ نگار، ایک ادیب اور ایک عظیم مربی تھے، وہ اس دنیا سے رخصت تو ہوگئے لیکن اپنے پیچھے لاکھوں شاگروں اور چاہنے والوں کا لشکر چھوڑ گئے، ان کا جسد خاکی تو خاک کے پردہ میں چھپ گیا لیکن ان کی فکر اور ان کا کردار کبھی نہیں مرسکتا، وہ اپنے افکار وکردار کےساتھ ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے، زندگی کی پچاسی بہاریں دیکھ کر علم وفضل کا یہ سلطان ۳۱ دسمبر 1999 کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا اور اپنے پیچھے ایک ایسا لشکر چھوڑ گیا جو اسکے افکارونظریات کو لے کر دعوت واصلاح کے عملی میدانوں میں آگے بڑھ رہا ہے، وہ ہندستان میں دعوت واصلاح کی تاریخ کا ایک اہم باب ہیں۔  اللہ تعالی حضرت مولا نا کی لحد کو نور سے بھردے اور اعلی علیین میں جگہ نصیب فرما ئے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔