سیدہ اطہر تبّسُم ناڈکرکی تصنیف ’گلستانِ تبّسُم‘ کا رسم اجراء

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

معروف قلم کارسیدہ اطہر تبّسم ناڈکرکے سماجی، اصلاحی وادبی مضامین کامجموعہ ’’گلستانِ تبّسُم‘‘ کی رسم اجراء آج یہاں کریمی لائبریری، انجمنِ اسلام اردو ریسرچ انسٹی چیوٹ ممبئی میں بدست محترمہ خیرالنساء سیداقبال صاحبہ (اُم تبسم منظورناڈکر)عمل میں لائی گئی۔ یہ اس انقلابی مصنفہ کی اولین تخلیق ہے جسے مکمل کرکے محض ایک برس میں منظرعام پرلانایقیناایک کرشمہ ہے۔ تفصیلات کے مطابق سیدہ اطہرتبّسُم ناڈکرکی تصنیف ’’گلستانِ تبّسُم‘‘کی رسم اجراء کے سلسلے میں یہاں کریمی لائبریری، انجمنِ اسلام اردو ریسرچ انسٹی چیوٹ ممبئی میں ایک پروقار تقریب زیرسرپرستی ڈاکٹرپروفیسر عبدالستاردلوی، ڈائریکٹر انجمن اسلام اُردوریسرچ انسٹی چیوٹ ممبئی منعقدہوئی۔ تقریب میں ملک بھرسے ادیبوں، ماہرینِ تعلیم، صحافیوں ومعززشہریوں کیساتھ ساتھ مختلف شعبہ حیات کی اہم شخصیات نے شرکت کی۔ تقریب زیراہتمام کرئیٹیو فوکس، فارسوفٹ انفوٹیک پرائیویٹ لمیٹڈ بااشتراک دانش ایجوکیشنل اینڈویلفیئرسوسائٹی منعقدہوئی۔ رسم اجرائی بدست محترمہ خیرالنساء سیداقبال صاحبہ(اُم تبسم منظورناڈکر)عمل میں لائی گئی۔

تقریب کی صدارت ڈاکٹرظہیرقاضی، صدر انجمن اسلام ممبئی نے کی۔ تقریب کاآغازکمال مانڈلیکرکے افتتاحی کلمات سے ہوا۔ اس موقع پراہم مہمانوں میں، سلام بن رزاق، اورڈاکٹر صاحب علی تھے، تقریب کی نظامت کے فرائض ڈاکٹرمزمل سرکھوت نے انجام دئیے۔ سیدہ اطہرتبّسُم ناڈکرکی اس اولین تصنیف ’’گلستانِ تبّسُم‘‘ پرتبصرہ محترمہ نگینہ ناز منصورساکھرکرنے کیاجبکہ کتاب پراپنے تاثرات اشفاق عمر، مالیگائوں نے پیش کئے۔ اس پروقار تقریب میں شرکت کرنے والے مہمانانِ خصوصی میں خورشید صدیقی سابق چیئرمین اُردواکیڈمی، ایف ایم سلیم، حیدرآباد، دائودچوگلے، جنرل سیکریٹری آئیڈل فائونڈیشن، دلدارپورکر(کوکن کی آواز)، ڈاکٹرخلیل صدیقی  لاتورقابل ذکرہیں ۔ تقریب میں رونق بخشنے والے خصوصی شرکامیں، مشیرانصاری، شفقت عثمانی، بشیر شیخ، عرفان شیخ، مسلم کبیر، رفیق دلوائی، افضل مرچنٹ، محسن یاسین، محمدصادق، ڈاکٹر عبداللہ فیصل اور جان محمد قابل ذکرہیں ۔ اپنے افتتاحی کلمات میں کمال مانڈلیکر نے اپنے خیالات کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ آج کادن تاریخی مرحلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوکن، رائے گڑھ کے ایک چھوٹے سے گائوں سے تعلق رکھنے والی سیدہ اطہرتبسم نانے ایک قلیل مدت میں صحافت کی دنیامیں اپنابلندمقام پایاہے۔ انہوں نے کہاکہ کوکن کی سرزمین زبان وادب کے اعتبادسے انتہائی زرخیزہے جس نے بڑے ادیب اوراُردوکے سپاہی دئیے ہیں ۔ اہلیانِ کوکن نے اردووہمیشہ زندہ رکھاہے۔

کوکن کے نئے ابھرتے ستارے سامقام رکھنے والی سیدہ اطہرتبّسم ناڈکرنے سماجی خرافات پراپنے جذبات وتجربات کوبرملااظہارکرنے کیلئے قلم تھام لی او ر قلیل مدت میں انکاکارنامہ پورے ملک میں اپنالوہامنوانے لگا۔ انہوں نے کہاکہ کتاب دائمی خزانہ ہے جونسل درنسل سماج کی ترجمانی کرتاہے، انسان  دنیائے فانی سے کوچ کرجاتاہے لیکن جس نے کتاب کی صورت میں سرمایہ چھوڑ دیاوہ شخصیت صدیوں تک زندہ جاویدرہتی ہے اور تبسم ناڈکرکایہ تحفہ ’’گلستانِ تبّسُم‘‘رہتی دنیاتک سماجی اصلاح کرتارہے گا۔ اس موقع پر ڈاکٹر خلیل صدیقی نے بھی اپنے مختصرتاثرات میں ’’گلستان تبسم‘‘پرروشنی ڈالی اور اس تصنیف کومصنفہ کاسماج کیلئے عظیم تحفہ قرار دیا۔ اس موقع پر ایف ایم حسین نے کتاب پرتاثرات پیش کرتے ہوئے کہاکہ کتاب زندگی اور خیالوں کولمبی عمردینے کاکام کرتی ہے۔ ہم رہیں یانہ رہیں ہماری عمریں کتابوں کی بدولت صدیوں تک رہتی ہیں ۔ مشیرانصاری نے اپنے کلمات کاآغازشاعرانہ اندازمیں کرتے ہوئے کہاکہ اخلاقی درس وتدریس ماں کی کوکھ سے ملتی ہے اور یہی سلسلہ تبسم ناڈکرکے مضامین سے جاملتاہے۔ اُنہوں نے کہاکہ’’گلستانِِ تبّسُم‘‘ آنے والی نسلوں کیلئے ایک نایاب تحفہ ہے۔

اس موقع پر اشفاق عمرنے تاثرات پیش کرتے ہوئے کہاکہ اس یادیارتقریب کاحصہ بنناان کیلئے باعث افتخارہے ہی لیکن یہاں اپنے خیالات کااِظہار کرنے کاموقع دیناان کیلئے اوربھی زیادہ خوشی کامقام ہے۔ انہوں نے تبسم ناڈکرکی زبان انتہائی سادہ ہے جوعام قاری کواپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ ایک سال میں زیروسے شروع ہوکرآج دِلوں کی آوازبن جانے والی سیدہ اطہرتبسم ناڈکر کااندازِ بیان دِلوں کوچھوجانے والاہے۔ انہوں نے کہاکہ ان کی تصنیف میں قاری کواپناپن محسوس ہوتاہے۔ ان کی باتیں دِلوں کوچھوجاتی ہے زوران کی تحریروں کی یہی خصوصیات انہیں دن بدن مقبول بنارہی ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ان کے مضامین موضوع کابخوبی انتخاب کرکے مقصدکے گردگھومتے ہوئے مختصر لکھتی ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ان کے مضامین کی طوالت بھی قابل سراہناہے۔ مضامین طویل ہوں توقاری یاتوپڑھناشروع ہی نہیں کرتے یاپھرادھورہ چھوڑ دیتے ہیں، لیکن تبسم ناڈکرکے مضامین میں اس بات کاخاص خیال رکھاجاتاہے۔ موضوعات کاانتخاب بھی قابل ستائش رہتاہے، مضامین میں خیالات کاتکرار بھی نہیں دکھتا، اُنہوں نے کہاکہ سیدہ تبسم ناڈکرنے اپنے مضامین میں ہررشتے کے خیالات کابخوبی اظہارکیاہے اوران کے مضامین سماجی، اصلاحی مضامین ہیں جوہرلحاظ سے کسوٹی پراترنے والے ہوتے ہیں ۔

اس موقع پرمسرورشاہ جہانپوری نے اپنے خیالات کااظہارکرتے ہوئے گلستانِ تبسم کوانقلابی تصنیف قرار دیا۔ اُنہوں نے سماجی برائیوں ومسائل پراپنی ایک نظم پڑھ کربھی دادِتحسین حاصل کی۔ دائود چوہدری نے اس موقع پربولتے ہوئے کہاکہ وہ خود کوکن کے رہنے والے ہیں، تبسم کوکن کی بیٹی ہیں، ماضی میں کوکن نے عظیم قلمکار، ادیپ وشعاردئیے ہیں لیکن دورِ جدیدمیں ایسی کوئی شخصیت نہیں تھی تاہم تبسم ناڈکرنے ایک انقلابی قلمکارکااپناکردارمنظرعام پرلاتے ہوئے کوکن کاسرفخرسے بلندکیاہے۔ کوکن کی بیٹی آج میدان میں آگئی ہے جوانتہائی حوصلہ افزاہے۔ ان کے مضامین میں ماں کاکردار، بیٹی کاکردار، بیوی کاکردار، بھائی کاکدار، بھائی کاکردار اورخاوندکے کردار کی بھرپورعکاسی کی جاتی ہے۔ اس موقع پرمعروف قلمکاروافسانہ نگار نگینہ ناز ساکھرکرنے ’’گلستانِ تبسم‘‘پرتبصرہ پیش کرتے ہوئے سیدہ اطہرتبسم ناڈکرکی اولین تصنیف کوسماج میں انقلاب لانے والاخزانہ قرار دیااورانہیں اپنی نیک خواہشات سے نوازا۔ اس موقع پرسیدہ اطہرتبّسُم ناڈکرنے اپنے خیالات کاا ظہارکرتے ہوئے اپنے مرحوم والدکویادکرتے ہوئے نہ صرف خودبھی آبدیدہ ہوگئیں بلکہ شرکامحفل کوبھی جذباتی کردیا۔ اُنہوں نے کہاکہ میرے دل میں ایسے جذبات تھے کہ میں ایساکچھ کروں کہ مجھے یاد رکھاجائے۔ ان کاکہناتھاکہ وہ ایک اعلیٰ اورمعززگھرانے سے تعلق رکھتی ہیں، اَبّا پروفیسر اورماں ٹیچرتھیں اورعلم ورثے میں بھی خوب ملا۔ اُنہوں نے کہا’’اَبّاکی کمی آج محسوس ہورہی ہے وہ آج یہاں ہوتے تو وہ سب سے زیادہ خوش ہوتے‘‘۔ انہوں نے کہاکہ تعلیم اور لکھنے کا ذوق شروع ہی تھا، لیکن تعلیم کے بعد گھریلوذمہ داریوں میں ایسی اُلجھ گئی کہ اپنے دِل کے اس جذبے کودفنائے رکھالیکن سال2016میں پہلی مرتبہ تعلیم، بچے اورماں باپ پرایک مضمون روزنامہ انقلاب میں شائع ہواوہ دِن ان کیلئے تاریخ سازتھا، جس خوشی کولفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتا۔

آج  پورے ہندوستان میں میرے مضامین شائع ہوتے ہیں ۔ اُنہوں نے کہاکہ آپ لوگوں کی دعا اور ساتھ میرے لئے اہم ہے۔ میرامقصد ہے میں قوم کیلئے کچھ کرجائوں اورمیں میرے نام کی طرح ہرکسی کی زبان پرتبسم بکھیرتی جائوں ۔ اس موقع پرتقریب کوآگے بڑھاتے ہوئے مہمانوں کااستقبال گلدستہ عقیدت پیش کرتے ہوئے کیاگیا۔ اس موقع پرمعززمہمانان تقریب نے اپنے بیش قیمتی خیالات سے شرکاکونوازا۔

اس موقع پرسلام دین رزاق نے اپنے خطا ب میں کہاکہ وہ سب سے پہلے منتظمین کاشکریہ اداکرتے ہیں جنہوں نے شرکت کاموقع اور تاثرات کاموقع دیا، محترمہ کومبارکبادہ دیا۔ اُنہوں نے کہا’’دوستو آج ہمارامعاشرہ ایک ہولناک دور سے گذررہاہے اور ہم تشویشناک مستقبل کے منتظرہیں، آج اخبارات دیکھوتو لوٹ مار، عصمت دری کے واقعات کی شہ سرخیوں سے بھرے ملتے ہیں ۔ ایسے میں ’’گلستانِ تبسم‘‘ راہ نجات ہیں، تبسم صاحبہ ایک اچھی منجھی ہوئی مصنفہ ہیں ‘‘۔ انہوں نے کت۔ کتاب کی خوبیاں بیان کرے تے ہوئے کہاکہ زبان عام فہم، سلیس اور آسان ہے، جسے بچہ بوڑھا۔ جوان مرد عورت سبھی مستفیدہوسکتے ہیں ۔ ان کاکہناتھا’’زبان بڑاخزانہ ہے، سانچہ مضبوط ہوتوچیزبھی اچھی ہوتی ہے، میں مدرس رہ چکاہوں جانتاہوں انکی زبان کس قدر معیاری اور دل ودماغ میں اترجاتی ہیں‘‘۔

انہوں نے کہاکہ کفائت لفظی کامظاہرہ کیاجاتاہے، لفظوں کومقصدیت تک محدودرکھتے ہوئے مختصر مضامین لکھتی ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ سیدہ اطہرتبسم ناڈکر ہاپنے مضامین میں چھوٹے سے پرزے میں دریاسمیٹنے کاہنرجانتی ہیں ۔ ان میں قوم کیلئے درددل ہے محبت سے مضامین میں بیان کیاہے، بچوں کیلئے یہ کتاب اہم ہے بچے بہت مستفید ہوسکتے ہیں، والدین بچوں کویہ کتاب تحفہ میں دیں ۔ اہم مضامین کاذکرہوئے اُنہوں نے چندمضامین پراپنے خیالات رکھے۔ خاص طورپراُنہوں نے ایک خاص مضمون ’’یہ دل آخر دل ہی توہے‘‘کاذکرکیا۔ انہوں نے کہاکہ یہ مضمون بہت خوبصورت ہے، ایسالکھنے کیلئے سینے میں خوبصورت دل ہوناضروری ہے یقیناان کے سینے میں خوبصورت دل ہے۔ انہوں کہاکہ اس مضمون میں بتایاگیاہے کہ الگ الگ رشتوں میں محبت کیسے قائم کی جائے۔ دل سے سب کچھ ممکن ہے۔ پوری کائنات اس دل میں سموئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ بچوں کی تربیت کیلئے والدین کی فکر ان کے مضامین میں پنہاں ہے۔ سلام بن رزاق نے کہاکہ ہمیں احترام اخلاق بچوں کوسناناسمجھاناچاہئے، آج کی نسل میں بزرگوں کیلئے احترام نہیں ہے۔ بچے آج بیزاری کاشکارہیں، اخلاق کافقدان ہے، آج گلستان تبسم ’’ہرگھر میں ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ نادانستگی میں کسی کادل دکھے لیکن ہرگزدانستہ طور پرکسی کادل نہیں دکھائیں انشااللہ زندگی کامیاب ہوگی۔

اس موقع پر ڈاکٹرصاحب علی نے اپنے خیالات کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ اردوزبان وادب کوایک ادیبہ مل گئی ہیں وہ تبسم ناڈکرہیں ۔ اس کتاب میں ہرطرح کے مضامین ہیں ۔ کتاب کوآپ پڑھیں گے اس میں پورامعاشرہ ہے۔ کتاب تصنیف کے ہرپہلوپرکھرااترتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ سرسید صاحب نے مضامین کاسلسلہ شروع کیاہے۔ سرسیدکہاکرتے تھے مضمون کااسلوب ایساہو جواپنے دل سے بات نکلے وہ ہوبہوپڑھنے والے کے دل میں اترجائے۔ گلستان تبسم میں یہ صفت موجود ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہرکسی تک پیغام پہنچانیکی اپنے مضامین میں کوشش کی گئی ہے۔ کوئی محقق جب آسان سادہ اور عام بول چال کی زبان کتاب کاسٹائل ہے ‘محقق اپنی ریسرچ میں اس کتاب کو سرفہرست رکھے گا۔ اس موقع پرسوپنیل نے اپنے خیالات کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ یہ ایک یادگارلمحہ ہے ایک یادگارتقریب ہے۔ سماج سدھار کے جذبے کے تحت سیدہ اطہرتبسم ناڈکرنے جس رفتار سے لکھنا شروع کیا وہ پورے ہندوستان میں اپنا مقام بنابیٹھیں، چھاگئیں ۔ زندگی نے انکوجوجوتجربے دئے ان پرطباع آزمائی کی۔ ایک سال میں فرش سے عرش تک پہنچنے کاارادہ کیا۔ ان کواہل خانہ کاساتھ ملاجومثالی ہے۔

اس موقع پر ڈائریکٹرانجمن اسلام، اُردوریسرچ انسٹی چیوٹ ممبئی ڈاکٹر پروفیسرعبدالستاردلوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ایک مقصدکیلئے لکھی گئی کتاب کے اعتراف میں ہم آج تبسم صاحبہ کی حوصلہ افزائی کیلئے یہاں اکٹھے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں تعلیم سے زیادہ تربیت کی ضرورت ہے۔ یہ کتاب ہرکسی کے پاس ہونی چاہئے۔ عام انسان ان کے پیش نظر ہے عام آدمی تک پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ مراٹھاشعراء نے بھی اردومیں لکھا۔ تبسم صاحبہ نے اپنی تخلیق کاہندی ترجمہ دستیاب کراتے ہوئے دائرہ وسیع کیاہے۔ انہوں نے کہاکہ کوکن اردوکاگہوارہ رہاہے۔ ہمیں اردوکوآگے بڑھاناچاہئے۔ کوکن والوں کااردوکیساتھ رشتہ ہے۔ کوئی زبان کم نہیں ہوتی تمام زبانیں ایک بنسری سے نکلے سرہیں ۔ خواتین اپنے گھروں کوسماج کوروشن کریں ۔ انہوں نے کہاکہ بچوں کی خدمت ہی قوم کی خدمت ہے، بچے قوم کامستقبل بنتے ہیں انکی جتنی بہترتعلیم وتربیت ہومستقبل اور معاشرہ اتنابہتربنتاہے۔ انہوں نے کہاکہ چھوٹے چھوٹے مواضعات پرخوبصورت انداز میں مضامین لکھنایقیناًتبسم صاحبہ کی خدمات قابل دادہیں ۔ ان کاکہناتھا’’ہمیں ان کے مضامین پرتوجہ دینی چاہئے اپنے بچوں کوپڑھانے چاہئے، مبارک باد تبسم۔ ۔ ۔ ‘‘۔

اس موقع پراپنے صدارتی خطاب میں صدرانجمن اسلام ممبئی ڈاکٹرظہیرقاضی نے کہاکہ ’’گلستان تبسم ‘‘آج کے ماحول اور حالات کودیکھ کربہت اہم کتاب ہے، کوئی بھی موضوع اس میں چھوڑانہیں ہے۔ کتاب معیاری ہے۔ سیدہ اطہرتبسم ناڈکرنے اپنے خیالات رکھتے ہوئے مرحوم والدکاذکرکیاجومعیاری ومثالی بیٹی کاثبوت دیا۔ انہوں نے تبسم ناڈکرسے مخاطب ہوتے ہوئے کہا’’آپ یقیناًمشعل راہ ہیں، میاں بیوی کی جوڑی ہوتوایسی ہو، سماج کوآپ نے کتاب کے ذریعے پیغام دیا۔ ایک اچھی بیوی ہیں، اچھی ماں ہیں، اچھی بیٹی ہیں اور ایک اچھی ساس ہیں، آپ ایک مکمل خاتون ہیں ۔ ہرشعبہ حیات پرآپ نے لکھا‘‘۔ انہوں نے کہاکہ اندازبیان قابل ذکرہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ کتاب منظرعام پرلانے میں انجمن اسلام کابھی رول ہے۔ انہوں نے کہاکہ کتاب میں فلاسفی سے زیادہ عملی تقاضوں کااحاطہ کیاگیاہے۔ انجمن اسلام آپکوبھرپورتعاون ہمیشہ پیش کرتی رہے گی۔

انہوں نے کہاکہ اردوہماری زبان ہے ہماری تہذیب کی شناخت ہے۔ اردوکے فروغ کیلئے کام کرنا چاہئے۔ انجمن اسلام اردوکیلئے بہترین خدمات انجام دے رہی ہے۔ اردوکے معیاری ادارے ہیں ۔ حکومت کواردوپڑھنے والوں کی صلاحیتوں کااعتراف ہے۔ انہوں نے کہاکہ اردوپڑھنے والے بچوں کے حوصلے بلند ہیں ۔ انہوں نے کہا’’ اس محفل سے اردوکے فروغ کیلئے اچھاپیغام جاناچاہئے۔ اردوکتاب کے اجرامیں اتنے لوگ مبارک‘‘۔ تقریب کااختتام منظورناڈکرکی جانب سے شکریہ کی تحریک کیساتھ ہوا۔ واضح رہے کہ محترمہ سیدہ اطہرتبّسُم ناڈکرکے سماجی، اصلاحی وادبی مضامین ملک بھرکے مؤقراُردواخبارات میں شائع ہوتے ہیں جنہیں محبانِ اُردوبڑے شوق سے پڑھتے ہیں ۔

محترمہ تبّسُم ناڈکرکے مضامین سماج کودرپیش تازہ ترین صورتحال پربہترین نمائندگی کرتے ہیں ۔ ملک میں صنفِ نازک کودرپیش چلینجوں کاسامناکرنے کے اہل بنانے والے ان کے کالم کاخواتین بڑی بے صبری سے انتظار کرتی ہیں اور منظرعام پرآنے پردلچسپی سے پڑھتی اورمستفیدہوتی ہیں ۔ چونکہ اخبارات میں ہرکسی تک ان کے تمام مضامین پہنچ پانایاہرکسی کیلئے پڑھ پاناممکن نہیں، ایسے میں ان کے مضامین کے مجموعے کامنظرعام پرآنا۔ اس تقریب کے انعقاد کیلئے تشکیل کردہ کمیٹی میں پروفیسر معروف بشیر، مصدر ملاجی، حسین میاں خطیب اور دلاور چوگلے شامل تھے۔ تقریب کے الداعیان میں اخلاق ناگوٹھنے، منظوراشرف ناڈکر، عمرمنظور ناڈکر، عمران منظورناڈکراور اِرم ناڈکرشیخ شامل تھے۔

تبصرے بند ہیں۔