خود سے سوال کرتے ہیں ہربار کیا کریں

احمد علی برقیؔ اعظمی

کرتے نہیں وہ پیار کا اظہار کیا کریں

’’خود سے سوال کرتے ہیں ہربار کیا کریں‘‘

طرزِ عمل سے ان کے ہیں بیزار کیا کریں

ہوتے نہیں وہ خواب سے بیدار کیا کریں

آپس میں ہیں جو برسرِ پیکار کیا کریں

کھائیں نہ وقت کی وہ اگر مار کیا کریں

مہر و وفا ہیں قصۂ پارینہ اِن دنوں

ہیں مصلحت پسند سبھی یار کیا کریں

حق نمک کی فرض ہے اُن پر ادائیگی

غیروں کے ہیں جو حاشیہ بردار کیا کریں

افسانۂ حیات کا عنواں ہے خونچکاں

خونبار جب ہوں جُبہ و دستار کیا کریں

بازارِ شاعری میں ترنم کی دھوم ہے

فن کے نہ قدرداں ہوں تو فنکار کیا کریں

برقیؔ ستم ظریفیٗ حالات دیکھ کر

ایسے میں پڑھ کے صبح کا اخبار کیا کریں

غزل دیگر

کہنے کو ہیں وہ قافلہ سالار کیا کریں

سرپر سوار جن کے ہیں زردار کیا کریں

چینل امیرِ شہر کے گُن گا رہے ہیں سب

ایسا نہ گر کریں تو نمک خوار کیا کریں

عہدِ رواں میں آج صحافت ہے کاروبار

اب لوگ مسخ کرتے ہیں کردار کیا کریں

تلوار سے بھی تیز ہے ان کی زباں کی دھار

اب بحث ان کے سامنے بیکار کیا کریں

ساکت قلم ہے، گُنگ زباں، ذہن بدحواس

’’خود سے سوال کرتے ہیں ہر بار کیا کریں‘‘

خوددار ہیں جو ان کو ہے اپنی خودی عزیز

وردِ زباں ہے کلمۂ انکار کیا کریں

کس پر کریں یقیں، نہ کریں کس پہ اعتبار

برقیؔ ہرایک سمت ہیں عیار کیا کریں

تبصرے بند ہیں۔