سید ابراہیم شہدؒ

جنید احمد نور

بہرائچ شہر خطہ اودھ کا قدیم علاقہ ہے۔ بہرائچ کو سید سالار مسعود غازیؒ  اور انکے جانثار ساتھیوں کی جائے شہادت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ جس کی برکت سے پورے ہندستان میں بہرائچ اپنا الگ مقام رکھتا ہے۔ بہرائچ  ہمیشہ شہداء اور   بزرگان دین  و علم دین سے فیضیاب ہوتا رہا ہے۔ بہرائچ ہی وہ جگہ ہے جو ہندستان میں زمانہ قدیم سے اسلام کی روشنی سے معمور ہے۔ یہ ہی وہ خطہ ہے جہاں بقول مفکر اسلام حضرت مولانا سید  ابو الحسن علی ندوی ؒ سابق صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ؍ سابق ناظم ندوۃ العلما  ٫      لکھنؤ   جو آپ نے 17تا18؍ اپریل 1982ء میں منعقد ہوئی پانچویں  صوبائی  دینی تعلیمی کانفرنس بہرائچ   میں خطبئہ صدارت میں کہی  تھیں جو ذیل میں ہے۔

’’انسانی فیصلہ کی طاقت  اور کرامت کی ایسی مثالیں ہیں، جن کا باور کرنا مشکل ہے، اس کی ایک شہادت آپ کا شہر(بہرائچ) پیش کرتا ہے کہ خدا کا ایک بندہ(سید سالار مسعود غازیؒ)غزنی افغانستان سے رفقا٫ کی ایک چھوٹی سی جماعت کے ساتھ اس ملک میں جو ایک تحتی برا عظم ہے، داخل ہوتا ہے، وہ توحید کا پیغام پہنچانے اور انسانوں کو انسانیت کا سبق سکھانے کے لئے سر ہتھیلی پر رکھ کر آئے، عقل کا فیصلہ صریحاً اس کے خلاف تھا، کوئی  آدمی صحیح الحواس ہونے کے ساتھ اس کی ہمت نہیں کر سکتا تھا کہ اتنے لمبے چوڑے ملک میں ساتھیو ں کی اتنی تھوڑی تعداد کے ساتھ قدم رکھے اور یہ اس وقت کی بات ہے، جب سفر اور ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل و حرکت کی یہ آسانیاں نہیں تھیں، لیکن وہ اس دور دراز مقام سے منزلوں پر منزلیں طے  کرتا  ہوا، راستہ میں اپنے سفر کی نشانیاں چھوڑتا ہوا اس خطہ میں آکر اپنے کام کو ختم کر دیتا ہے  یا اس سے اس کام کو ختم کر ا دیا جاتا ہے۔، آج وہ یہاں آسودۂ خاک ہے، ایک فر د کے فیصلہ کی طاقت کا یہ ایسا روشن ثبوت ہے جس کی مثال دور دور تک نہیں ملتی۔ ‘‘

حضرت سید سالار مسعود غازی ؒ کے استاد گرامی حضرت سید ابراہیم شہید ؒ     بارہ ہزاری بھی انہیں خدا کے نیک بندوں میں شمار تھے جو سالار موصوف کے ساتھ اس ملک میں داخل ہوئے تھے۔ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسی بہرائچ کی سرزمین پر اسودہ خواب ہوئے۔ عباس  خاں   شیروانی  بحوالہ ’’مرآۃ مسعودی‘‘  لکھتے ہیں کہ  بقول ’’مرآۃ مسودی‘‘   کے جب سلطان محمود غزنوی نے 1016ء مطابق407ھ  (صحیح 1018ء مطابق      409ھ)میں جب قنوج پر حملہ کیا تو سپہ سالار مسعود غازی اپنی والدہ ماجدہ  کے پاس اجمیر میں رہتے تھے۔ قنوج سے واپسی کے بعدمحمود غزنوی نے سالار ساہو کو لاہور پہنچ کر واپس کر دیا اور وہ اجمیر آگئے۔ سپہ سالار مسعود غازی کی عمر قریب ساڑھے چار سال کے ہوئی تو سید ابراہیم  بارہ ہزاری کی استادی میں ان کی تعلیم کی بسم اللہ ہوئی۔ چونکہ ذہین  اور طباع  تھے۔ اس لئے دس سال کی عمر میں خاصی ترقی کر لی۔ محمود اس وقت خراسان کی مہموں میں مصروف تھا۔ اس مصروفیت کو دیکھ کر دامن کوہ کی رعایا نے محمود کے گورنر ملک چھجو کو دق کر نا شروع کیا انھوں نے محمود سے شکایت کی۔ اس پر سالار ساہوکا تبادلہ اجمیر سے کاہلیر کو کر دیا گیا کہ وہاں کا  انتظام کریں۔ سالار ساہو       اپنے اکلوتے بیٹے کو اور بی بی سترمعلیٰ کو اجمیر چھوڑ کر  کاہلیر چلے گئے۔ جب سپہ سالار کا  کاہلیر  پر تسلط ہوگیا  اور محمود غزنوی نے مستقل طور پر ان کو وہاں رہنے کا حکم دے دیا تو  سالار ساہو نےبی بی سترمعلیٰ اور سپہ سالا ر مسعود کو بھی کاہلیر  میں طلب  کیا۔ سلطان محمود خود تو آپ سے محبت کرتا تھا لیکن اس کا بیٹا مسعود غزنوی اور وزیر احمد بن حسن میمندی اس محبت سے خوش نہ تھے۔  جس کی وجہ سے سید سالار مسعود غازی ؒنے پایئہ تخت میں قیام کرنا  مناسب نہ سمجھا اور 1027ء مطابق418ھ     کے اواخر میں سلطنت کی طرف سے علاحد گی اختیار کر لی اور سلطان محمود سے اجازت لیکر کلمہ حق کی اشاعت کے لئے غزنی سے ہندوستان کی طرف سفر شروع کیا۔ مختلف مقامات ملتان، اوجھ، اجودھن، دہلی، میرٹھ، گڑھ مکتیشور، سنبھل، قنوج، گوپا مئو، کانپور، بلگرام، ملاواں (ہردوئی)، سترکھ، کڑا مانکپور، ڈلمئوپہونچے۔ ان مقامات میں بعض جگہ  راجاؤں  نے مقابلہ کیا لیکن فتح یابی کا سہرا آپ کے ہی سر رہا۔ فتح حاصل کرتے ہوئے آپ سترکھ ضلع بارہ بنکی تک آ گئے۔ یہیں پر آپ کے والد سید سالار ساہو ؒ کی وفات ہوئی۔ آپ  کے والد کا مقبرہ سترکھ میں موجود ہے اور مرجع خلق ہے۔ ان سب مہم میں سید ابراہیم آپ کے ساتھ تھے۔

سید ابراہیم  کو سلطان محمود غزنوی کی فوج میں  بارہ ہزاری منسب ملا ہوا  تھا اور آپ سالار مسعود غازی ؒ کے والد محترم سالار ساہو کے ساتھ رہتے  تھے۔ سالار ساہو نے سالار مسعود کی جب عمر  چار سال کی ہوئی تب آپ کے پاس ہی تعلیم کے لئے حاضر کیا اور جہاں آپ کی رسم  بسم اللہ ہوئی اور آپ نے سالار مسعود غازیؒ کو آپ نے مکمل دینی اور فوجی تعلیم دی۔ (آئینہ مسعودی  صفحہ 39)

 بہرائچ کی پہلی دو جنگوں میں  سالار مسعود  غازی ؒ  نے  کامیابی حاصل کی جس کے کچھ ماہ بعد آخری اور فیصلہ کن تیسرے جنگ ہوئی۔ 13رجب 424 ھ کو صبح کے وقت مخالفین کا لشکر اس فوجی دستہ کے سر پر آپہونچا جو آگے بھیجا گیا تھا۔ لڑائی شروع  ہوگئی اور سپہ سالار مسعود غازی کے پاس خبر بھی   پہونچی تو وہ خود بھی اپنی فوج کے ہمراہ چلے اور سورج کنڈ پر ٹھہرے۔ اس کے بعد پوری فوجوں میں لڑائی شروع ہو گئی۔ پورا دن ختم ہو گیا لیکن فیصلہ نہ ہوسکا۔ دوسرے دن صبح پھر لڑائی شروع ہو گئی۔ مخالف فوج کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ دوپہر تک دوتہائی مسلمان شہید ہوگئے تھے۔ جن میں سالار سیف الدین بھی تھے۔ یہ حضرت سالار مسعود غازی ؒکے دست راست تھے۔ ہر مشورہ میں شریک رہتے تھے۔

سپہ سالار مسعود غازیؒ کے حکم سے  جملہ شہدا کو سورجکنڈ میں دفن کےلیے ڈال دیا گیا۔ خود سپہ سالار مسعود غازیؒ نے سب جنازوں کی نماز پڑھائی تھی۔ عصر کا وقت  ہو گیا تھا لڑائی جاری تھی۔ ایک تیر 14 ؍رجب 424ھ   مطابق15؍ جون 1033ء   کو حضرت سید سالار مسعود غازی ؒکے گلے میں لگا جس سے وہ کلمہ پڑھتے ہوئے شہید ہوگئے۔ سکندر دیوانہ جو ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے تھے اور چند لوگ جوموجود تھے۔ انھوں نے مہوئے کےایک  درخت کےنیچےآپ کوقبلہ رخ کر کے لٹا دیا۔ اور جو چند لوگ تھے۔ وہ شام تک لڑتے رہے۔ یہاں تک کی سب شہید ہوگئے۔ رات ہو گئی اور لڑائی رک گئی۔ کچھ لوگ بچ گئے تھے جو زخمی تھے وہ بہرائچ پہونچے اور امیر سید ابراہیم ؒ  کو جنہیں  سالار مسعود غازیؒ    کیمپ میں چھوڑ گئے تھےاس واقعہ کی  اطلاع دی۔ دوسرے دن  صبح امیر سید ابراہیم میدان جنگ میں گئے اور سب سے پہلے حضرت سید سالار مسعود غازی کو دفن کیا اور پھر دیگر شہدا کو۔ عباس احمد شیروانی نے لکھا ہے کہ امیر سید ابراہیم ؒنے سالار مسعود غازیؒ کی شہادت ہونے کے دوسرے روز15؍ رجب    424ھ کو میدان جنگ میں گئے اور سب سے پہلے سپہ سالار مسعود غازیؒ کو دفن کیا اور پھر دیگر شہداکو۔ سہر دیو (سہیل  دیو) کو خبر ہوئی کہ کچھ مسلمان باقی رہ گئے ہیں تو اس نے پھر دھاوا کیا۔ پھر لڑتے لڑتے  سہر دیو  مارا گیا اور بعد میں امیر سید ابراہیم شہیدؒ ہوئے۔

حضرت سید ابراہیم شہید ؒ  کی شہادت 15؍ رجب  424ھ کو ہوئی۔ آپ  کوسیدسالار مسعود غازیؒ   کا استاد ہونے کا شرف حاصل ہے آپ کا مزار مبارک محلہ اکبر پورہ میں واقع ہے۔ اور مرجع خلق ہے۔

حوالہ جات

 ۱۔ حیات مسعودی

  ۲۔ آئینہ مسعودی

۳۔ بہرائچ ایک تاریخٰ شہر

تبصرے بند ہیں۔