سید قطب شہیدؒ: حیات و خدمات

آصف علی

ہمیں ان لوگوں پر تعجب ہے جو مظلوم کو ظالم سے معافی مانگنے پر ابھارتے ہيں قسم بخدا اگر معافی کے چند الفاظ مجھے پھانسی سے نجات بھی دے سکتے ہوں تو ميں تب بھی يہ الفاظ کہنے پر آمادہ نہ ہوں گا ميں اسی حال ميں اپنے رب کے سامنے پيش ہونا پسند کروں گا کہ وہ مجھ سے راضی ہو اور ميں اس سے راضی ہوں۔

عالم اسلام کے درخشندہ ستارے

 "انقلاب مصر کی عظیم شخصیت” سيد قطب شہيد، جس نے سرمايہ دارانہ اور جاگير دارانہ نظام کے خلاف تحرير کا وہ طوفان برپا کيا کہ جس نے مصر کے ساتھ ساتھ دنيا بھر ميں قائم استبدادی معاشروں ميں کھلبلی مچا دی۔ سيد قطب کی تحريروں کا مطالعہ کرنے سے يہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آپ اس امر پر يقين رکھتے تھے کہ اگر صدر اول کا اسلامی معاشرہ ايک جداگانہ نظام کے تحت ترقی اور نمو پا سکتا ہے تو آج بھی اسلامی معاشرے کو وجود ميں لانے کے ليے جاہلانہ معاشروں سے جدا رکھنا لازمی ہے۔ سيد قطب کا تعارف اس مضمون ميں بعد کی سطروں ميں آئے گا، تاہم ان کے نظريات کو جاننے کے ليے ہم ان پر لگنے والی فرد جرم کا جائزہ ليتے ہيں۔

"ہمارا دعوی ہے کہ مغرب ميں جمہوريت کا ديواليہ نکل چکا ہے، لہذا اب اس کے پاس ايسی اقدار نہيں رہيں کہ انسانيت کی خدمت ميں پيش کر سکے۔ مارکسزم کے بارے ميں بھی ان کی رائے يہ ہے کہ مشرقی کيمپ کا يہ نظريہ اب پسپا ہو رہا ہے۔ اس نظريے کی، انسانی فطرت اور اس کے تقاضوں کے ساتھ  کشمکش جاری ہے۔ ہم  يہ فيصلہ ديتے ہیں کہ انسانيت کو ايک نئی قيادت کی ضرورت ہے جو مادی تہذيب، يورپی ترقی کے مقام پر قائم اور بحال رکھتے ہوئے مزيد نشو نما دے سکے۔

ہم کہتے ہیں کہ يورپ کی علمی تحريک اپنا کردار ادا کر چکی ہے اور اب اس کے پاس کوئی سرمايہ حيات نہيں رہا۔ يہی حال وطنی اور قومی نظريات کا ہے۔ لہذا امت مسلمہ کے وجود کو بحال کيا جانا ناگزير ہے۔

ہم  يہ دعویٰ کرتے ہیں کہ دنيا جاہليت کے اندر غرق ہے۔ اس جاہليت نے اللہ کے اقتدار اور حاکميت پر غاصبانہ قبضہ کيا ہوا ہے۔ ہم قرآن کو عقيدے کا بنيادی ماخذ قرار ديتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم جاہلی معاشرے سے نجات حاصل کريں ۔

ہمارا بيان ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم بھی عرب قوميت کی تحريک برپا کرکے عربوں کو اپنے گرد جمع کر سکتے تھے، ليکن يہ درست نہيں تھا کہ انسان کو رومی و فارسی طاغوت کے چنگل سے نکال کر عرب طاغوت کے چنگل ميں پھنسا ديا جاتا- ہمارا بيان ہے کہ جس زمانے ميں محمدصلی اللہ علیہ وسلم دين اسلام لے کر آئے تھے، اس وقت عرب معاشرہ انتہائی بگاڑ کا شکار تھا۔ تقسيم دولت اور عدل و انصاف کا نظام تباہ ہو چکا تھا۔ محدود اقليت مال و دولت اور تجارت کی اجارہ دار بنی ہوئی تھی اور سودی کاروبار کے ذريعے اپنے سرمائے ميں مزيد اضافہ کر رہی تھی.

ہم لکھتے  ہیں  کہ جس جاہليت سے رسول خدا  کو سامنا تھا وہ کوئی مجرد معاشرہ نہ تھا، بلکہ ايک متحرک اور توانا معاشرہ تھا، جبکہ قوم معاشرے کے بزرگوں کے سامنے سرنگوں تھی۔ پس انسان کی پوری زندگی خدا کی جانب لوٹ جانی چاہيے۔ جاہلی معاشرے ميں سے ايک ايسا متحرک اور توانا معاشرہ ابھرنا چاہيے تھا جو جاہلی معاشرے سے الگ تھلگ اور مستقل ہو اور اس کی قيادت اس وقت رسول خدا  سے مخصوص تھی، تاہم آپ کے بعد ہر وہ قيادت اس معاشرے کا نظام سنبھال سکتی ہے جو انسانيت کو صرف اللہ کی الوہيت، حاکميت، اقتدار اور شريعت کے آستانے پر جھکائے۔ اسلامی تہذيب کبھی بھی محض عربی تہذيب يا قومی تہذيب نہ تھی بلکہ يہ ہميشہ سے اسلامی اور نظرياتی تہذيب ہے۔

ہماری يہ رائے ہے کہ وہ معاشرہ جس ميں اجتماعی زندگی رائے اور انتخاب کی آزادی پر استوار ہو، متمدن و مہذب معاشرہ ہوتا ہے، اور وہ معاشرہ جس کی تشکيل ميں لوگوں کی آزادی رائے کا دخل نہ ہو پسماندہ معاشرہ ہوتا ہے۔ جسے اسلامی اصطلاح ميں جاہلی معاشرہ کہا جاتا ہے۔”

يہ ہے وہ فرد جرم جو سيد قطب شہيد کی کتب سے کشيد کرکے ان پر لگائی گئی۔

قارئين کرام، آپ کی معلومات پر انحصار کرتے ہوئے ميں آپ کے اذہان کو اس امر کی جانب متوجہ کرنا چاہوں گا کہ عالم اسلام کی نشاة ثانيہ کے ليے اٹھنے والی ہر آواز اسی لب و لہجہ کی مالک تھی، اقبال کا کلام ہو يا سيد جمال الدين کے اقوال، شيخ شلتوت کی تقارير ہوں يا مولاناسیدابوالاعلی مودودی کے نظريات، ہميں ان تمام موارد ميں يہی فکر و نظر کار فرما نظر آتی ہے، جو اس بات کی غماز ہے کہ اسلام کی حقيقی تعليمات سے کسب فيض کرنے والے ابطال اسلامی دنيا کے کسی کونے کے باسی ہوں ان کا منہج اور نظريہ ايک ہی ہے۔

ولادت

سيد قطب کی ولادت مصر کے ضلع اسيوط کے قريہ موشا کے ايک ديندار گھرانے ميں ہوئی۔ آپ کے والد حاجی ابراہيم قطب زراعت پيشہ انسان تھے، جن کی ذات کے بارے ميں شہيد قطب اپنی کتاب "مشاہد القيامۃ فی القرآن” ميں لکھتے ہيں :” بابا! ميں اپنی اس کاوش کو آپ کی روح کی نذر کرتا ہوں ۔ ميں بچہ تھا کہ آپ نے ميرے احساس و وجدان پر يوم آخرت کا خوف نقش کر ديا۔ آپ نے کبھی ميری سرزنش نہيں کی بلکہ ميرے سامنے اس طرح زندگی گزاري کہ قيامت کی باز پرس کا احساس آپ کے وجود پر طاری رہتا تھا۔ آپ کے قلب و ضمير اور زبان پر ہر وقت خدا کا ذکر جاری رہتا۔ آپ برائيوں سے درگزر کرتے حالانکہ آپ ان کا جواب دينے کی طاقت رکھتے تھے۔ بسا اوقات آپ اپنی ضرورت کی اشيا دوسروں کو دے ديتے حالانکہ آپ کو خود ان کی شديد حاجت ہوتی تھی۔

ابتدائی پرورش

سيد قطب شہيد پر اپنی ابتدائی پرورش کا اس قدر اثر تھا کہ اپنی دوسري کتاب "التصوير الفنی فی القرآن” کا انتساب اپنی والدہ کو کرتے ہوئے کہتے ہيں:

” اے ماں ! تيري خواہش تھی کہ اللہ ميرے سينے کو کھول دے اور ميں قرآن حفظ کر لوں اور اللہ مجھے خوش الحانی سے نوازے۔ اے ماں ! تيرا ننھا بچہ تيرا جوان لخت جگر آج تيری تعليم و تربيت کی طويل محنت کا ثمرہ تيری خدمت ميں پيش کر رہا ہے۔ اس کاوش ميں اگرچہ حسن ترتيل کی کمی ہے، تاہم يہ کاوش حسن تاويل کی نعمت سے پر ہے‘‘۔

خاندانی پس منظر

سید قطب کا کنبہ ایک زمیندار گھرانہ تھااورآپ کے والد محترم کاشماراپنے خاندان اورعلاقہ کے بڑے بزرگوں میں ہوتاتھا۔جملہ سیاسی وسماجی و انتظامی مسائل میں آپ کے والدبزرگوار کی رائے کوایک طرح سے فیصلہ کن مقام حاصل تھا۔گویاقیادت کی صلاحیت سیدقطب کوخاندانی وراثت سے ہی ملی تھی۔آپ کے والد محترم کی ایک خاص بات ہفتہ وار مجالس ہیں جن میں اس وقت کے سیاسی وقومی معاملات کوقرآن کی روشنی میں سمجھاجاتاتھا۔اس طرح گویاقرآن فہمی بھی آپ کو اپنے باباجان کی طرف سے علمی وراثت میں ملی۔شاید اسی کے باعث لڑکپن سے ہی روایتی ملائیت کے خلاف ان کے اندر شدید نفرت کی آگ بھڑک اٹھی تھی،کیونکہ روایتی مذہبی تعلیم کے مدارس قرآن مجید کی انقلابی تعبیر سے بہت بعیدہوتے ہیں ،الا ماشااللہ۔وہ بچپن سے ہی کتب کے بہت شوقین تھے،اپنی جیب خرچ سے پیسے بچاتے ہوئے اپنے ہی گاؤں کے کتب فروش ’امصالح‘سے کتابیں خرید لیتے تھے اور بعض اوقات شوق مطالعہ انہیں ادھار پر بھی مجبور کر دیتاتھا۔بارہ سال کی عمرمیں ان کے پاس پچیس کتابوں کی لائبریری مرتب ہو چکی تھی،گویا امت مسلمہ کا یہ یکے از مشاہیر اپنی جسمانی عمر سے دوہری نوعیت کی ذہنی و فکری عمرکا حامل تھا۔اس چھوٹی عمر میں بھی لوگ ان سے اپنے سوالات کیاکرتے تھے اور بعض اوقات بڑی عمرکے لوگوں کی ایک مناسب تعدادان سے اجتماعی طورپرکسب فیض بھی کرتی تھی تاہم خواتین کوان کی اسکول کی چھٹی کا انتظارکرناپڑتاتھااور خواتین سے خطاب کے دوران ان پر شرم غالب رہتی تھی۔

تعلیم

سیدکی ابتدائی تعلیم گاؤں کےسادہ اورمحدودماحول میں ہوئی،انہوں نےاپنی والدہ محترمہ کی دلی آرزوکےمطابق بچپن میں قران مجیدحفظ کرلیااس زمانےمیں مصرکےدیندارگھرانوں میں حفظ قران کاعام رواج تھا،اورخاص طورپرجوخاندان اپنےبچوں کوازھرکی تعلیم دلانےکاشوق رکھتےتھےانہیں لازماًبچوں کو قران حفظ کراناپڑتاتھا.سیدکےوالدین اپنےاس ہونہاراوراقبال مند بچےکی اعلی تعلیم کےلیےبڑےمتفکرتھے،چنانچہ قدرت کی طرف سےایساا تفاق ہواکہ سیدکےوالدین گاؤں چھوڑکرقاہرہ کی نواحی بستی,حلوان,میں آبادہوئےاوریوں سید قاہرہ کےثانوی مدرسے٫٫تجھیزیہ دارالعلوم،،میں داخل ہوگئے.اس مدرسہ میں ان طلبہ کوداخل کیاجاتاتھاجویہاں سےفارغ ہوکر دارالعلوم(موجودہ قاہرہ یونیورسٹی )میں تکمیل تعلیم کرناچاہتےتھے.اس دورمیں جس طرح دینی،شرعی علوم کی اعلی تعلیم گاہ٫ازہر،یونیورسٹی تھی اسی طرح ,دارالعلوم,جدیدعلوم وفنون کااعلی تعلیمی ادارہ تھا.سیدنے٫تجھیزیہ دارالعلوم،سےفراغت حاصل کرتےہی 1929میں دارالعلوم قاہرہ میں داخلہ لےلیااور1933میں یہاں سے.B.A ایجوکیشن کی ڈگری حاصل کی اوراپنی خداداد ذہانت کی وجہ سےاسی کالج میں پروفیسرلگادیےگیے.(بحوالہ:جادہ ومنزل)

کچھ عرصےبعدانسپکٹرآف اسکولزکےعہدےپرفائزکیاگیا،1939میں وزارتعلیم کی طرف سےجدیدتربیت کےمطالعہ کےلیےامریکہ بھیجاگیا.وہاں آپ 1941تک رہےواپسی پراٹلی،سوئیزرلینڈ،اوربرطانیہ کادورہ کرتےہوئےمصرپہنچے.

اخوان المسلمین

امریکہ سےواپسی پرآپ نے٫٫تحریک اخوان المسلمون،،کاتفصیلی مطالعہ کیا. سيد قطب 1945ء ميں اخوان المسلمين ميں شامل ہوئے۔ حسن البنا شہيد کی شہادت اور اخوان کی مرکزي قيادت کی اسيری اخوان کے ليے ايک کٹھن دور تھا، تاہم صعوبتوں کا يہ سلسلہ فوجی حکومت کے قيام سے دوچند ہو گيا۔ اخوان عوام ميں تو بے حد مقبول تھی، تاہم حکومت اور اس کے حواريوں کو ايک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ 1952ء سے پہلے تک سيد قطب شہيد اخوان کے ايک عام کارکن تھے، تاہم 1952ء کے بعد آپ کو اخوان کی مجلس عاملہ کا رکن چنا گيا اور دعوت و تبليغ کا انچارج بنا ديا گيا۔ سيد قطب شہيد جريدة ٫الاخوان المسلمين، کے رئيس التحرير بھی رہے۔

جمال عبد الناصر اور انگريز حکومت کے مابين ہونے والے 1954ء کے معاہدے کی مخالفت کے سبب اس جريدے کے ساتھ ساتھ ٫اخوان المسلمين، پر پابندي عائد کر دي گئی اور مرکزي قيادت کو ايک مرتبہ پھر اسيري اور تختہ دار کا سامنا کرنا پڑا۔ گرفتار شدگان ميں سيد قطب بھی شامل تھے۔

سيد قطب کو پندرہ سال قيد با مشقت سنائی گئی، تاہم کچھ ہی عرصے بعد جمال عبدالناصر کا ايک نمائندہ قطب شہيد کے پاس معافی نامے کے ساتھ آيا، جس کے جواب ميں قطب شہيد نے کہا:” مجھے ان لوگوں پر تعجب ہے جو مظلوم کو ظالم سے معافی مانگنے پر ابھارتے ہيں ۔ قسم بخدا اگر معافی کے چند الفاظ مجھے پھانسی سے نجات بھی دے سکتے ہوں تو ميں تب بھی يہ الفاظ کہنے پر آمادہ نہ ہوں گا۔ ميں اسی حال ميں اپنے رب کے سامنے پيش ہونا پسند کروں گا کہ وہ مجھ سے راضی ہو اور ميں اس سے راضی ہوں ۔

زنداں میں جبروتشدد

جنوری اور فروری۱۹۶۶ء میں خصوصی عدالت کی کار روائی میں سیّد قطب اور ان کے رفقا کو زبردستی، اعتراف جرم کرانے کے لیے جبر و تشدد اور اعضا شکنی کا نشانہ بنایا گیا۔ تشدد کے ان واقعات کی تائید ’ایمنسٹی انٹر نیشنل‘ کی رپورٹ میں بھی شائع ہوئی تھی۔ اس تنظیم کو نہ اخوان سے کوئی دل چسپی تھی،اور نہ مصری حکومت سے کوئی دشمنی۔ ’’ایمنسٹی انٹر نیشنل بڑے افسوس سے اس امر کا اظہار کرتی ہے:

۱۔ ایک خصوصی قانون کے تحت مصر کے صدر کو یہ اختیارات حاصل ہیں کہ وہ سیاسی وجوہ کی بنا پر جس شخص کو چاہے، مقدمہ چلائے بغیر گرفتار کر سکتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ایک خاص عدالت کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، جس کے جج صدر خود نامزد کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ملزم کی قسمت کا فیصلہ صدر خود کرتا ہے۔

۲۔ فوجی جیلوں میں ملزموں پر بے تحاشا مظالم توڑے گئے، لیکن عدالت میں ان کا ذکر کرنے سے منع کر دیا گیا۔ اس مقدمے کے مشہور نظر بند سیّد قطب نے اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہا، تو عدالت نے یہ کہہ کر روک دیا: ’’تمام ملزمان جھوٹے ہیں ، ان کی کسی بات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا‘‘۔

۳۔ سیّد قطب اور دوسرے اخوانی نظر بندوں کو اپنی صفائی کے لیے وکیل مقرر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

۴۔ اس خاص عدالت کے سامنے ملزموں پر تشدد کا سوال ہوا، تو کارروائی بند کمرے میں ہونے لگی۔ اخباری نامہ نگاروں کو بھی اندر آنے کی اجازت نہ مل سکی۔

۵۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل بڑے افسوس سے یہ اعلان کرتی ہے کہ عدالتی کارروائی سے ان مظالم کی تصدیق ہوتی ہے جس کا اظہار نظر بندوں کی طرف سے کیا گیا۔ نیز مصر کے عدالتی نظام کی غیر جانب داری بھی مشکوک معلوم ہوتی ہے۔ یہ کارروائی اس اعتبار سے بھی غیر تسلی بخش ہے کہ سماعت کے وقت ملزم جسمانی اعتبار سے صحت مند نہیں تھے۔ بعض مقدمات میں تو ایک ملزم کو صرف دو منٹ کا وقت دیا گیا۔

یہ تمام حقائق مصری قانونِ انصاف کی غیر جانب داری کو مشکوک بنا رہے ہیں ۔ لازم ہے کہ حکومت ملزموں کے بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرے اور کھلے عام منصفانہ مقدمے کی کارروائی کا موقع دے۔

۹؍اپریل۱۹۶۶ء کو اس ٹربیونل نے صحافیوں کا داخلہ بھی کمرۂ سماعت میں روک دیا۔ کیونکہ سیّد قطب کے حوالے سے تشدد کی خبر دنیا بھر میں پھیل گئی تھی۔ جوں ہی کار روائی شروع ہوئی تو فوجی جج محمد فواد الدجوی غصّے میں سیّد قطب پر برس پڑے: ’’یہ سب جھوٹ ہے‘‘۔ ۱۲؍اپریل کو جب معالم فی الطریق (جادہ و منزل) زیر بحث لائی گئی، تو اس موقعے پر یہی جج مختلف جملے پڑھ کر آگے بڑھے، تو سیّد قطب نے وضاحت کے لیے کھڑے ہو کرجواب دینا چاہا۔ مگرجج نے انھیں بولنے کی اجازت نہ دی اور کہا: ’’ہر بات واضح ہے‘‘۔ دوسری بار سیّد قطب نے جواب دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا: ’’کیا میں جواب دے سکتا ہوں ؟‘‘ لیکن روزنامہ الاہرام کے مطابق جج نے بولنے کی اجازت دینے کے بجاے کہا: ’’یہ بات بھی سزا کی مستحق ہے‘‘۔ تیسری بار صفائی پیش کرنے کی کوشش میں سیّد قطب کی زبان سے بس اتنا جملہ ہی نکل پایا تھا کہ: ’’یہ سب میں نے نہیں کہا‘‘ تو جج صاحب انھیں وہیں ٹوک کر، بہتان تراشی اور طنزو استہزا پر مبنی جملوں کے ساتھ حملہ آور ہوگئے۔ سیّد قطب نے چوتھی بار کہا: ’’مجھے اپنی بات تو کہنے کی اجازت دی جائے‘‘، مگرجج نے اس بات کا جواب دینے کے بجاے محمد یوسف ہواش کو طلب کرنے کا آرڈر جاری کر دیا تو سیّدقطب نے پھر کہا: ’’ایک منٹ‘‘ لیکن جج نے بات کرنے سے روک دیا۔ (روزنامہ الاہرام، قاہرہ ۱۱۔۱۳؍اپریل۱۹۶۶ء)

اخوان کے ان اکابرملزموں کی پیروی کرنے والا کوئی وکیل اس نام نہاد عدالت میں موجود نہیں تھا۔ ’فرانسیسی نیشنل بار ایسوسی ایشن‘ کے سابق صدر ولیم تھروپ اور ممتاز قانون دان اے جے ایم ونڈال اور مراکش کے دو سابق وزراے قانون اور متعدد نامور وکلا نے مقدمے کی پیروی کے لیے اجازت چاہی، جسے اس عدالت نے مسترد کر دیا۔ سوڈان سے وکلا رضاکارانہ طور پر قاہرہ پہنچے اور قاہرہ ایسوسی ایشن سے رجسٹریشن حاصل کر کے جونہی عدالت پہنچے، تو انھیں پولیس نے تشدد کرکے عدالت کے احاطے سے بھگا دیا اور فوراً مصر چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔

سید تختہ دارپر

اسی ’ترقی پسند‘ ،’روشن خیال‘، اور قوم پرست فوجی عدالت نے ۲۲؍اگست ۱۹۶۶ء کو سیّد قطب، محمدیوسف ہواش اور عبدالفتاح اسماعیل کے لیے سزاے موت کا حکم سنا دیا۔  یہ فیصلہ سنتے ہی سیّدقطب نے بڑے باوقار انداز سے ججوں کو مخاطب کرکے فرمایا:

مجھے پہلے سے اس بات کا علم تھا کہ اس مرتبہ حکومت میرے سر کی طالب ہے۔ مجھے نہ اس پر افسوس ہے اور نہ اپنی موت کا رنج، بلکہ میں خوش ہوں کہ اپنے مقصد کے لیے جان دے رہا ہوں ۔ اس بات کا فیصلہ تو آنے والا مؤرخ ہی کرے گا کہ ہم راہ راست پر تھے یا کہ حکومت؟

سیّد مودودی: اسی روز لاہور سے سیّد مودودی نے حسب ذیل بیان جاری فرمایا:

قاہرہ کی تازہ اطلاعات سے معلوم ہوا ہے کہ وہاں اخوان المسلمون کے خلاف عدالتی کارروائی کا جو ڈراما ہو رہا تھا، اس کے نتیجے میں عالمِ اسلامی کے نہایت ممتاز مفکر، عالم اور صاحبِ قلم سیّد قطب اور چھے دوسرے اصحاب کے لیے سزاے موت کا فیصلہ کیا گیا ہے، اور باقی ۲۸؍اشخاص کو طویل قید کی سزائیں دی گئی ہیں ، جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ اس سے پہلے ۱۹۵۴ء میں صدر ناصر کی حکومت دنیاے اسلام کی ایک نہایت قیمتی شخصیت سید عبدالقادر عودہ کو اپنی سیاسی اغراض پر قربان کر چکی ہے، جن کی کتاب اسلامی قانونِ تعزیرات کو آج تمام اہل علم خراجِ تحسین ادا کر رہے ہیں۔ اب پھر ایک دوسری قیمتی شخصیت کو انھی اغراض کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے، جس کی کتاب اسلام میں عدل اجتماعی اور جس کی تفسیر فی ظلال القرآن اسلامی لٹریچر میں ہمیشہ یاد گار رہنے والی چیزیں ہیں ۔ درحقیقت یہ ہماری انتہائی بدقسمتی ہے کہ مصر کے حکمران ایسے نازک وقت میں ، جب کہ اسرائیل کے جارحانہ اقدامات عرب اور اہلِ عرب کے خلاف روز بروز ترقی پر ہیں ، اپنی ساری طاقت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صرف کیے جا رہے ہیں۔ اس وقت ضرورت ہے کہ دنیاے اسلام کے ہر گوشے سے ان حکمرانوں پر اس روش سے باز آجانے کے لیے اخلاقی دباؤ ڈالا جائے۔ جس عدالتی کارروائی کو انھوں نے اخوان پر یہ ظلم ڈھانے کے لیے بہانہ بنایا ہے، اس کو ایمنسٹی انٹر نیشنل پوری طرح بے نقاب کر چکی ہے، اور صدر ناصر کے سوا کوئی شخص بھی یہ باور نہ کرے گا کہ اس نام نہاد عدالت میں فی الواقع یہ مظلوم لوگ مجرم ثابت ہوئے ہیں۔

پھر ۲۶؍اگست کو مولانا مودودی نے مصری صدر کے نام یہ اپیل ارسال کی:

’’سیّد قطب دنیاے اسلام کا مشترک سرمایہ ہیں ۔ خدارا، اس قیمتی مسلمان کی زندگی کو ختم نہ کیجیے‘‘۔

۲۶؍اگست ہی کو نومسلمہ مریم جمیلہ نے مصری صدر ناصرکے نام برقی خط بھیجا:

’’آپ کے پاکستانی بھائی، سیّد قطب اور دوسرے اخوانی رہنماؤں کو سزاے موت سناے جانے کے فیصلے پر گہرے دکھ کا اظہار اور شدید احتجاج کرتے ہیں ۔ خدانخواستہ، آپ کے ہاتھوں ان کی موت دنیاے عرب ہی نہیں بلکہ دنیاے اسلام کے لیے ایک ناقابلِ تلافی علمی اور تہذیبی نقصان ہوگا۔ اگر آپ نے اس سزا پر نظر ثانی نہ کی، تو اللہ تعالیٰ آپ کے اس جرم کو کبھی معاف نہیں کرے گا‘‘۔

پوری دنیا سے سیّدقطب کی رہائی کے لیے اپیلیں شروع ہو گئیں ، البتہ پاکستان اور ہندستان میں مضبوط مذہبی تعلیمی روایت رکھنے والے مکتب فکر کے چند حضرات نے ناصر کے اقدامات کی تائید کی۔ یہ ناصر حکومت کی خوش قسمتی تھی کہ اسے دنیابھر کی کمیونسٹ پراپیگنڈا مشینری کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اس غوغا آرائی نے ناصر کو ہیرو بنائے رکھا، حالانکہ وہ اپنی قوم اور مسلمانوں کے لیے دہشت، ظلم، ذلت اور شکست خوردگی کی علامت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

آخری ملاقات

سیّد قطب کی سب سے چھوٹی بہن حمیدہ قطب، اپنے بڑے بھائی کی شہادت سے ایک رات پہلے کی رُوداد بیان کرتی ہیں :
۲۸؍اگست۱۹۶۶ء کی رات، جب کہ میں جیل ہی میں تھی، جیلر صفوت نے مجھے طلب کیا اور کہا: ’’یہ دیکھو تمھارے بھائی کی موت کا آرڈر، اسے کل پھانسی دے دی جائے گی۔ حکومت چاہتی ہے کہ تمھارا بھائی سیّد ہماری بات کا جواب ’ہاں ‘ میں دے۔ اگر وہ جواب ’ہاں ‘ میں نہیں دے گا تو صرف تم اپنا بھائی نہیں ضائع کر دو گی، بلکہ ہم اور مصر بھی اسے کھو دیں گے۔ ہم نہیں چاہتے کہ اسے پھانسی دی جائے، ہم اسے بچانا چاہتے ہیں ۔ اسے سمجھانے اور بچانے میں صرف تم ہماری مدد کر سکتی ہو۔ تم سیّد سے یہ بات لکھوا دو: ’’ہماری تحریک کا تعلق کسی نامعلوم گروپ سے ہے‘‘۔

میں نے کہا: ’’یہ آپ کو بھی معلوم ہے اور مجھے بھی ،اور خود ناصر کو بھی معلوم ہے کہ اخوان کا تعلق کسی ملکی یا غیر ملکی ناپسندیدہ گروپ سے نہیں ہے، تو پھر میں یہ بات کیوں اپنے بھائی سے کہوں ؟‘‘

جیلر نے کہا: ’’تم ٹھیک کہتی ہو، ہمیں معلوم ہے کہ تمھارا تعلق کسی ایسے ناپسندیدہ گروہ سے نہیں ہے اور آپ اچھے لوگ ہیں ، لیکن سیّد کو بچانے کے لیے ہمیں اس تحریر کی ضرورت ہے‘‘۔

میں نے کہا: ’’اس بات پر بھائی کا جواب مجھے معلوم ہے، لیکن اگر آپ چاہتے ہیں تو میں ان تک یہ بات پہنچا دیتی ہوں ‘‘۔
جیلر نے عملے سے کہا: ’’اسے سیّد قطب کے پاس لے چلیں ‘‘۔

میں نے جیلر اور عملے کی موجودگی ہی میں بھائی تک پیغام پہنچایا۔

بھائی سیّد نے میرے چہرے کی طرف اس طرح دیکھا کہ گویا پوچھ رہے ہوں : ’’کیا تم بھی یہی چاہتی ہو یا یہ چاہتے ہیں ؟‘‘

میں نے اشارے سے ان کو بتایا: ’’یہ چاہتے ہیں ‘‘۔

پھر بھائی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’خدا کی قسم! اگر یہ بات سچی ہوتی تو میں لکھ دیتا اور دنیا کی کوئی طاقت مجھے یہ کہنے اور لکھنے سے نہ روک پاتی، لیکن چونکہ یہ بات ہے ہی سراسر جھوٹ، اس لیے میں کسی صورت میں جھوٹ نہیں بولوں گا‘‘۔

جیلر صفوت نے سیّد بھائی سے کہا: ’’اچھا، تو پھر آپ کی یہی راے ہے؟‘‘

سیّد بھائی نے کہا: ’’ہاں ، یہی ہے‘‘۔

جیلر مجھے یہ کہہ کر چلا گیا: ’’اپنے بھائی کے پاس تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ لو‘‘۔

اب ہم دونوں بہن بھائی اکیلے تھے، اور یہ ہماری آخری ملاقات تھی۔ میں نے بھائی کو بتایا کہ: ’’اس نے مجھے طلب کرکے کیا آرڈر دکھائے، اور کیا بات کی، اور میں نے کیا جواب دیا‘‘۔

سیّد بھائی نے ساری بات سننے کے بعد براہ راست مجھ سے پوچھا: ’’کیا تمھیں یہ بات پسند ہے کہ میں وہ بات لکھ دوں جو یہ چاہتے ہیں ؟‘‘

میں نے بھائی کو ایمان اور دکھ سے لبریز ایک حرفی جواب دیا: ’’نہیں ‘‘۔

پھر سیّد بھائی نے کہا: ’’زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے، یہ لوگ میری زندگی کا فیصلہ نہیں کرسکتے، یہ نہ میری زندگی میں کمی کر سکتے ہیں اور نہ اضافہ، مجھے وہی منظور ہے جو اللہ کو منظور ہے‘‘۔

شہادت کے لمحے

اب یہاں پر مصری جیل خانہ جات پولیس کے دو اہل کار بھائیوں کی یادداشت پیش کی جا رہی ہے، کہ جب وہ ۲۹؍اگست۱۹۶۶ء کے روز سیّد قطب کی پھانسی کے وقت موقعے پر موجود تھے۔ یہ روایت محمد عبدالعزیز المسند نے تحریر کی ہے:

’’جس چیز نے ہماری زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا، وہ یہ مناظر تھے‘‘۔

ہم ہر رات فوجی جیل [قاہرہ] میں بوڑھے اور جوان قیدی وصول کرتے تھے۔ ان کے بارے میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ: ’’یہ یہودیوں کے ساتھی، بڑے خطر ناک اور غدار ہیں ، ان سے تمام راز اگلوانے ضروری ہیں ، اور یہ کام صرف تشدد ہی سے کیا جا سکتا ہے‘‘۔
ان قیدیوں کو ہم جیل جانے میں کوڑوں اور چھڑیوں سے اتنا مارتے کہ ان کے جسموں کی رنگت تبدیل ہو جاتی۔ یہ کام کرتے وقت ہمیں اس بات کا پورا یقین تھا کہ ہم ایک مقدس قومی ذمہ داری ادا کررہے ہیں ، لیکن دوسری طرف ہم نے ہمیشہ یہ بھی دیکھا کہ وہ ’غدار‘ راتوں میں مسلسل اللہ کو پکارتے تھے اور سختی سے نمازوں کی پابندی کرتے تھے۔

ان میں سے کچھ تو بدترین تشدد اور وحشی کتوں کے جبڑوں میں نوچے جانے کے سبب موت کے گھاٹ اتر گئے، لیکن حیرت ناک منظر یہ تھا کہ وہ پھر بھی مسکراتے اور مسلسل اللہ کا نام لیتے رہے۔ یہ دیکھ کر ہم کبھی کبھار اس شک میں پڑ جاتے کہ ہمیں حکام بالا نے جو بتایا ہے، وہ درست ہے یا نہیں ۔ کیونکہ یہ بات ناقابلِ یقین تھی کہ: ’’اتنے پختہ ایمان اوریقین رکھنے والے یہ لوگ ملک کے غدار اور یہودی دشمنوں کے ساتھی ہو سکتے ہیں ‘‘۔ میں نے اور میرے بھائی نے فوجی حکام کا یہ رویہ دیکھ کر طے کیا کہ ہم ممکن حد تک ان قیدیوں کو تکلیف پہنچانے سے گریز کریں گے۔

کچھ ہی مدت بعد قید خانے کے اس حصے سے تبدیل کرکے ہماری ڈیوٹی ایک ایسی کوٹھڑی پر لگائی گئی، جس کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ:

’’اس میں سب سے خطر ناک قیدی اور ان تمام مجرموں کا سرغنہ قید ہے، جس کا نام سیّد قطب ہے‘‘۔

اس قیدی کی کوٹھڑی پرتعینات ہوئے، تو ہم نے دیکھا کہ اب تک اس شخص پر اتنا تشدد کیا جا چکا تھا کہ اس کے لیے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا تک مشکل تھا۔

اسی نگرانی کے دوران میں ایک رات اس خطر ناک قیدی کی پھانسی کے احکامات موصول ہوئے، اور احکامات آنے کے تھوڑی ہی دیر بعد اس شخص کے پاس ایک سرکاری مولوی صاحب کو لایا گیا، جنھوں نے اس قیدی سے کہا: ’’اپنے گناہوں کی توبہ کرلو‘‘۔ جواب میں قیدی نے کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالا، بس ایک گہری نگاہ سے ان مولوی صاحب کا چہرہ دیکھا، اور منہ دوسری طرف پھیر لیا۔
اگلی صبح سرکاری احکامات کے مطابق ہم دونوں اس قیدی کے ہاتھ باندھ کر، کوٹھڑی سے باہر ایک بندگاڑی میں لے گئے۔ اس گاڑی میں دو قیدی پہلے سے موجود تھے۔ کچھ ہی لمحوں بعد یہ گاڑی پھانسی گھاٹ کی طرف روانہ ہوگئی۔ ہمارے پیچھے کچھ مصری فوجی گاڑیاں تھیں ، جو قیدیوں کو غالباً فرار ہونے سے باز رکھنے کے لیے ساتھ ساتھ آ رہی تھیں (حالانکہ ہم جیل کی چاردیواری کے اندر ہی تھے)۔ اس فوجی قافلے میں شامل ہر سپاہی نے ذاتی پستول کے ساتھ اپنی اپنی پوزیشن سنبھال رکھی تھی۔

جلّاد ان قیدیوں کو پھانسی دینے کے لیے تیاریاں مکمل کر چکے تھے۔ مخصوص پھانسی گھاٹ کے تختے پر کھڑا کرکے، دوسرے دو ساتھیوں کے ساتھ اس خاص شخص کی آنکھیں کالی پٹیوں سے باندھی اور گردن میں رسا ڈال دیا گیا۔ ایک چاق و چوبند جلّاد، اس شخص اور اس کے دو ساتھیوں کے قدموں تلے تختے کو گرانے کے احکامات کا منتظر تھا۔ اس حکم کے لیے بطور علامت، ایک کالے جھنڈے کو لہرایا جانا تھا۔

ہم صاف لفظوں میں سن رہے تھے کہ وہ تینوں قیدی تختۂ دار پر بلندآواز میں ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں سے جنت میں ملنے کی خوش خبری کا تبادلہ کر رہے تھے۔ اور بار بار کہہ رہے تھے: اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد[اللہ عظیم ہے اور تمام تعریفیں اس کے لیے ہیں ]۔

ان دردناک اور سانس روک دینے والے لمحات میں ہم نے ایک فوجی گاڑی کو بڑی تیزی سے اپنی طرف آتے دیکھا۔ جوں ہی ہمارے قریب پہنچ کر گاڑی کا دروازہ کھلا، تو اس میں سے ایک اعلیٰ فوجی افسر نمودار ہوا، جس نے بلند آواز میں ، جلّاد کو فوراً پیچھے ہٹنے کو کہا۔

وہ افسر تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے سیّد کی طرف بڑھا اور اس کی گردن سے رسا ہٹانے اورآنکھوں سے پٹی کھولنے کا حکم دیا۔ پھر کپکپاتی آواز میں سیّد سے یوں مخاطب ہوا: ’’میرے بھائی سیّد، میں تمھارے پاس رحم دل صدر [جمال ناصر]کی طرف سے زندگی کا تحفہ لایا ہوں ۔ صرف ایک جملہ تمھیں اور تمھارے دوستوں کو موت سے بچا سکتا ہے‘‘۔

اس نے سیّد کے جواب کا انتظار کیے بغیر ایک کاپی کھولی اور کہا:

’میرے بھائی، تم صرف یہ جملہ لکھ دو، ’میں نے غلطی کی تھی اور میں معافی مانگتا ہوں ۔‘

سیّد کے چہرے پر ایک ناقابل بیان مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ افسر کی طرف دیکھا اور حیران کن طور پر، مطمئن لہجے میں افسر سے مخاطب ہو کر کہا:

’’نہیں ، کبھی نہیں ۔ میں اس عارضی زندگی کو، ہمیشہ کی زندگی پر ترجیح نہیں دے سکتا‘‘۔

فوجی افسر نے مایوسی بھرے لہجے میں کہا: ’’سیّد، اس کا مطلب صرف موت ہے‘‘۔

سیّد نے جواب دیا: ’’اللہ کے راستے میں موت کو خوش آمدید، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد‘‘۔

یہ جواب سیّد کے عقیدے کی پختگی ظاہر کرتا تھا۔ اس سے زیادہ مکالمے کو جاری رکھنا ناممکن تھا۔ افسر نے جلاد کو پھانسی لگانے کے لیے پکارتے ہوئے اشارا کیا۔ اس آخری لمحے میں ان کی زبانوں سے جو جملہ نکلا، وہ ہم کبھی نہیں بھول سکتے: لا اِلٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ۔

اورپلک جھپکنے سے پہلے سیّد قطب اور ان کے دونوں ساتھیوں کے جسم، لٹکتے رسّوں پر جھول گئے۔

انا للّٰہ و انا الیہ راجعون

شہادت پر سیّد مودودی کا کرب

[چودھری غلام جیلانی روایت کرتے ہیں ]’’ریڈیو پاکستان سے سیّد قطب کی شہادت کی خبر سنتے ہی میں بے چین ہو کر، دکھی دل کے ساتھ مولانا مودودی کے گھر اور جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر۵۔ اے ذیلدار پارک اچھرہ کی طرف چل پڑا۔ راستے میں مولانا گلزار احمد مظاہری بھی ساتھ ہو لیے۔ مولانا نے ہمیں معمول کے خلاف اپنے دفتر میں داخل ہوتے دیکھا: میں اور مولانا گلزار احمد ایک جانب کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ مولانا کے چہرے سے شگفتگی غائب تھی۔

مولانا گلزاراحمد مظاہری نے کہا: ’’مولانا، شہداے اخوان کی تعزیت آپ سے نہ کی جائے تو اور کس سے کی جائے؟‘‘

مجھے یاد آیا، ایک بار مولانا نے شگفتہ انداز میں فرمایا تھا: ’’مجھ میں ایک بہت بڑا عیب ہے، اور وہ یہ کہ میرا چہرہ میری داخلی کیفیت کو ظاہر نہیں ہونے دیتا‘‘۔۔۔ لیکن آج یہ پہلا موقع تھا کہ دل کا حزن اور طبیعت کا ملال مولانا کے چہرے اور آواز سے مترشح تھا۔
مولانا نے فرمایا: ’’اللہ جب کسی کو محبوب رکھتا ہے تو اسے اِسی راہ سے اپنے پاس بلاتا ہے‘‘۔

مجھے یکا یک ایسا محسوس ہوا کہ گویا مولانا کے الفاظ ان کے آنسوؤں میں بھیگ رہے ہیں ۔ کمرے میں سناٹا سا طاری تھا۔ پنکھا چل رہا تھا، لیکن روح کی انگیٹھی گویا دہکنے لگی تھی۔ ایسا دکھائی دے رہا تھا، جیسے مولانا نے آج اپنے پاسبانِ فکر کو رخصت دے دی تھی، اور اب وہاں فقط ایک بندۂ مومن کا دل تھا، جو اپنے ہمراہی کے غم میں ڈوب رہا تھا۔

قدرے توقف کے بعد مولانا مودودی نے فرمایا:

میرا توکل سے برا حال ہو رہا ہے۔ آج صبح [۲۹؍اگست۱۹۶۶ء] جب میں ناشتہ کرکے اپنے دفتر میں کام کرنے کے لیے آیا، تو مجھے اچانک ایسا محسوس ہوا گویا مجھ پر depression [افسردگی]سا طاری ہو رہا ہے۔ میں نے اخبار اٹھا کر پڑھنا چاہا، لیکن میرا دماغ، میری نگاہوں کا ساتھ نہ دے رہا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ مجھ پر یہ کیفیت کیوں طاری ہے؟ ذہن منتشر تھا اور کوشش کے باوجود کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ میں نے روشنی گل کر دی اور بستر پر لیٹ گیا۔ دوپہر کے قریب اٹھا، تو بھی کیفیت میں وہی اضمحلال رچا ہوا تھا۔ اتنے میں [بیٹے] محمدفاروق نے آکر اطلاع دی کہ ریڈیو سے اعلان ہوا ہے کہ سیّد قطب اور ان کے دو ساتھیوں کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ تب میں سمجھا کہ مجھ پر یہ depression کیوں طاری تھا۔ جس وقت مجھے محسوس ہوا کہ میرا دل اچانک بیٹھ رہا ہے، تو غالباً وہ وہی وقت تھا ، جب سیّد قطب کو تختۂ دار پر لٹکایا جا رہا ہوگا۔

یہاں پہنچ کر مولانا مودودی کی آواز شدتِ جذبات سے بالکل رُندھ گئی۔ ہم خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ مولانا نے اچانک میز پر پڑے کاغذات کی جانب ہاتھ بڑھا دیا، اور ہم سمجھ گئے کہ مولانا اس موضوع پر کچھ زیادہ بول کر اپنے صبر کا پیمانہ لبریز نہیں کرنا چاہتے اور زندگی کی مہلت کو اسی خالق کی راہ میں صرف کرنے کو مطلوب سمجھتے ہیں ‘‘۔
۲۹؍اگست، سہ پہر ریڈیو پر سیّد قطب اور ان کے دوساتھیوں کو پھانسی دیے جانے کی خبر سن کر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اخبارات کو یہ بیان دیا:

آج صدر ناصر نے سیّد قطب اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دے کر پوری دنیاے اسلام کے دل میں زخم ڈال دیے ہیں ، اور اسلامی تاریخ میں اپنے لیے ایک ایسی جگہ پیدا کر لی ہے، جو کسی کے لیے باعثِ عزت نہیں ہو سکتی۔ مصری حکومت کے سارے پراپیگنڈے کے باوجود آج کوئی شخص بھی یہ باور کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ العدالۃ الاجتماعیہ فی الاسلام (اسلام اور عدلِ اجتماعی) کا مصنّف واقعی سزاے موت کا مستحق مجرم تھا۔ اس فعل پر دشمنانِ اسلام تو ضرور خوش ہوں گے، مگر کوئی مسلمان اس پر ہرگز خوش نہیں ہو سکتا۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان شہیدوں کی قربانیاں قبول فرمائے، اور مصر کی سرزمین کو زیادہ عرصے تک عدل و انصاف کی نعمت سے محروم نہ رکھے۔

*یاد رہے، خود سیّد قطب، مولانا مودودی کے علمی و فکری اثاثے کے دل و جان سے قدر دان تھے۔ انھوں نے فی ظلال القرآن میں متعدد مقامات پر اس کا والہانہ اعتراف کیا ہے۔ یہاں پر صرف دو اقتباس دیے جاتے ہیں :

* ان قیمتی اور دقیق مباحث کو سمجھنے کے لیے مسلم العظیم سید ابوالاعلیٰ مودودی کی ان تحریروں کی طرف رجوع کیا جائے، جو سود، اسلام اور جدید معاشی نظاموں کے بارے میں لکھی گئی ہیں ۔

*اسلام میں جہاد کی حقیقت اور دین اسلام کی حقیقت کو بیان کرنے میں ہماری مدد وہ مختصر مگر گراں قدر پمفلٹ کرتا ہے، جس کو ہمارے لیے مسلم العظیم سید ابوالاعلیٰ مودودی، امیر جماعت اسلامی پاکستان نے مہیا کیا ہے۔ اس کا عنوان ہے: جہاد فی سبیل اللہ۔ ضروری ہے کہ ہم اس کے چند طویل اقتباسات یہاں نقل کریں ، کیونکہ تحریک اسلامی کی تعمیر کے اس اہم اور دور رس نتائج کے حامل موضوع سے وہ قاری نظر نہیں بچا سکتا، جو اس موضوع کو واضح اور صحیح طور پر سمجھنا چاہتا ہو۔
اخوان المسلمون کے رہنماؤں کو جب موت کی سزائیں سنائی گئیں ، تو پورا عالم اسلام غم و اندوہ کی تصویر بن کر تھرا اٹھا، یہ اس کا پہلا رد عمل تھا۔ دوسرا رد عمل یہ تھاکہ وہ سراپا احتجاج بن گیا۔ اور آخر وقت تک میں مصر کے ارباب اختیار کو اس ہولناک گناہ کے ارتکاب سے روکنے کی کوشش کی، مگر مشیت الٰہی کو یہ منظور نہ تھا۔ جن نفوسِ قدسیہ کی قسمت میں اللہ تعالیٰ نے شہادت کی سعادت لکھ دی تھی، وہ عالم اسلام کے احتجاج کی بنا پر اس سعادت سے کیوں کر محروم کیے جا سکتے تھے؟ اور جن کے لیے عذاب الٰہی کانوشتہ لکھا جا چکا تھا، وہ اس نوشتے کی پاداش سے کیونکر بچ سکتے ہیں ۔

سیّد قطب اور ان کے ساتھیوں کے لیے یقیناًموت کا ایک دن مقرر تھا۔ ان کی زندگی کے ساغر کے لبریز ہو کر چھلک جانے کی ایک ساعت متعین تھی، اس میں نہ تقدیم ہو سکتی تھی، نہ تاخیر۔ ان خادمان حق نے اپنی زندگیاں دینِ حق کی خدمت میں بسر کی تھیں اور وقت آگیا تھا کہ ان کے حسنِ عمل کو قبولیت حاصل ہو: قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلَّا مَا کَتَبَ لَنَا(التوبہ۹:۵۱) ’’ان سے کہو، ہمیں ہرگز کوئی(بُرائی یا بھلائی) نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے شہادت لکھ رکھی تھی۔ لہٰذا، بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر عالم آخرت کا سفر اختیار کرنے کے بجاے وہ شہادت کا تاج سر پر رکھے، رحمت کے فرشتوں کے دوشِ سعادت پر سوار ہو کر اپنے پروردگار کے جوارِ رحمت میں چلے گئے۔ اس اعتبار سے سیّد قطب نہایت خوش قسمت تھے۔

سیّد قطب کی شہادت پر اہلِ حق اس لیے غم زدہ نہیں ہوئے تھے کہ وہ موت کی آغوش میں چلے گئے، موت کی آغوش میں تو ہر شخص کو جو پیدا ہوا ہے، جانا ہے۔ افسوس اور غم اس پرہوا کہ اسلام اور عالمِ اسلام ان کی خدمات سے محروم ہوگیا۔ افسوس ان کی موت کا نہیں ، افسوس عالم اسلام کی بے بسی کا ہوا۔ یہ شہیدانِ حق خوش نصیب تھے۔ بدنصیب تو وہ تھے جو اپنے زعم میں یہ سمجھ رہے تھے کہ انھوں نے اپنے اقتدار کی راہ سے چند کانٹوں کو ہٹادیا ہے۔ کیا خوب کہا تھا، آل فرعون کے ایک آدمی نے، جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا کہ:

اے میری قوم کے برسراقتدار لوگو، آج تمھیں ملک میں اقتدار حاصل ہے اور تم جو چاہو کر سکتے ہو، مگر یہ تو بتاؤ کہ خدا کے عذاب سے تمھیں کون بچائے گا، جب کہ وہ آئے گا۔

سیّد قطب اور ان کے رفقا پر تشدد اور ظلم کے پہاڑ توڑنے والے اور انھیں پھانسی کے پھندوں پر لٹکانے والے ذلت کی زندگی جئے اور ذلت کی موت مرے۔

اس بندۂ مومن کی یہ صدا ہزاروں برس سے مسلسل فضاے بسیط میں گونج رہی ہے۔ یہ صدا ہر اس موقعے پر نشۂ اقتدار میں بدمست ان لوگوں کو جھنجھوڑتی ہے، جو اس چند روزہ زندگی کے مزے کی خاطر خدا کے دین کی طرف بلانے والوں کو اپنی راہ سے ہٹانے کے لیے اپنے اقتدار کی اندھی، بہری اور حیوانی طاقت سے کام لیتے ہیں۔

سیدشہیدکی تصانیف

سیدشہیدکی کئی اصناف ادب میں تخلیقات ہیں .آپ نےتفسیرمیں ایک منفرداسلوب کی حامل٫٫فی ظلال القران،،لکھی.اسی طرح آپ کی ایک گراں قدرتصنیف٫٫التصویرالفنی فی القران،،اعجازقران کےموضوع پرممتازومنفردہے.اسی طرح دورجدیدمیں اسلام اورمسلمانوں کےحوالےسےآپ نےجوکچھ لکھااس میں بھی آپ کااسلوب چودہویں کےچاندکی طرح روشن ہے،آپ کی تمام تخلیقات میں ادب کی چاشنی اوررعنائی اپنےعروج پرہے،الفاظ کاحسن،تراکیب،استعارےاورتشبیہات میں ایسی ہم آہنگی اورگہرائی ہےکہ انسان اس بحرمیں غواصی کرکےاس کےتمام موتیوں کوسمیٹ نہیں سکتامگرہربات مدلل ہے.جہاں عقلی دلائل کی ضرورت ہےوہاں عقلی استدلال اوراستنباط اپنےعروج پرہے.آپ معالم فی الطریق(جادہ ومنزل)کوپڑھیں یادیگرتصانیف،ہرجگہ یہ رنگ بکھرےپڑےہیں .

سیدکی تمام تصانیف کی تعداد22ہے.

1-فی ظلال القران     (قران کےزیرسایہ)

2-العدالۃ الاجتماعیہ فی الاسلام(اسلام کاعدل اجتماعی)

3-مشاھدۃ القیامہ فی القران (قران میں قیامت کےمناظر)

4-التصویرالفنی فی القران(قران کےفنی پہلو)

5-معرکۃ الاسلام والراسمالیہ(اسلام اورسرمایہ داری کی کشمکش)

6-السلام العالمی والاسلام (عالمی امن اوراسلام)

7-دراسات اسلامیہ   (اسلامی مقالات)

8-النقدالادبی.اصول مناھجہ (ادبی تنقیدکےاصول ومناہج)

9-نقدکتاب.مستقبل الثقافۃ (مستقبل الثقافہ پرتنقیدی نظر)

10-کتب وشخصیات  (کتابیں اورشخصیتیں )

11-مجتمع اسلامی   (اسلامی معاشرہ کےخدوخال)

12-امریکۃ التی رایت  (امریکہ، جسےمیں نےدیکھا)

13-اشواک (کانٹے)

14-طفل من القریۃ  (گاؤں کابچہ)

15-المدینۃ المسحورۃ  (سحرزدہ شہر)

16-الاطیاف الاربعہ (چاروں بہن بھائیوں کےافکاروتخیلات کامجموعہ)

17-القصص الدینیہ  (انبیاکےقصے)

18-قافلہ الرقیق  (مجموعہ اشعار)

19-حلم الفجر  (مجموعہ اشعار)

20-الشاطی المجہول  (مجموعہ اشعار)

21-مھمۃ الشاعر فی الحیاۃ (زندگی کےاندرشاعرکااصل وظیفہ)

22-معالم فی الطریق  (جادہ ومنزل)

تبصرے بند ہیں۔