داستاں اپنی جو سنا دیتے
دستگیر نواز
داستاں اپنی جو سنا دیتے
تم پہ الزام ہی لگا دیتے
۔
اب کہاں ڈھونڈتے ہو تم ساغر
اپنی آنکھوں سے ہی پلا دیتے
۔
دور ہوجائے میری بے ہوشی
اپنے دامن کی گر ہوا دیتے
۔
زخمِ دل خود بہ خود ہی بھر جائیں
” اک ذرا آپ مسکرا دیتے”
۔
شدتِ غم میں کچھ کمی ہوتی
ہاتھ اٹھا کر جو تم دعا دیتے
۔
ہم سے ناراض کس لئے ہو تم
اس کا کچھ تو سبب بتادیتے
۔
چیخ پڑتی ہماری مجبوری
زخم اپنے اگر چھپا دیتے
۔
ضبط کرتے نواز ہم کب تک
بس چلا تو انہیں بھلادیتے
تبصرے بند ہیں۔