سیرت رسول ﷺ میں انسانی مسائل کا حل

مجتبیٰ فاروق

اکیسویں صدی کے اس عالمی گائوں میں آج انسان گوناگوں مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ ایک طرف استعماری قوتوں ، سیاسی چال بازوں اور مکاروں نے دنیا کو پنجۂ استبداد میں رکھا ہے وہیں سرمایہ دار طبقہ اور ایمز این شینز نے دنیا کی اسّی فیصد آبادی پر اپنی چودھراہٹ قائم کر رکھی ہے۔ یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ دور ظلمات کا دور ہے۔ ہر طرف قتل وغارت گری لاقانونیت، مطلق العنانیت، خود غرضی اور مفاد پرستی کا بازار گرم ہے۔ معاشرتی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے، خاندانی نظام بری طرح سے بکھر چکا ہے، اخلاقی اقدار کا جنازہ کب کا نکل چکا ہے، انسان کو اپنی تہذیب وشائستگی اور تشخص اپنانے سے محروم کیا جا رہا ہے اور اسے تہذیبی تصادم کی جنگ میں ٹھونس دیا جا رہا ہے۔ عریانیت، فحاشی، بدکاری اور ننگا ناچ کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا جا رہا ہے، حقوق انسانی کی دھجیاں اڑا دی جا رہی ہے۔ انسان کو نیست ونابود کرنے کے لیے کیماوی ہتھیار کو استحصال میں لایا جا رہا ہے۔ طاقتور ممالک کمزور ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر کے انتشار اور فساد کو بڑھاوا دے رہے ہی، فسطائیت اپنے عروج پر ہے، گو جہاں بھی نظر دوڑائی جائے تو ظہر الفساد فی البر والبحر کا سماں نہ چاہتے ہوئے بھی دیکھنا پڑ رہا ہے۔ آخر انسان کو ظلم وبربریت اور اس بحر ظلمات کے دور میں نوع انسانیت کو کون نجات دلا سکتا ہے۔

دنیائے انسانیت کو آج ایک بار پھر اس عظیم اور مقدس ذات کی طرف رجوع کرنے کی اشد ضرورت ہے جنہوں نے آج سے 1400 سال پہلے سسکتی بلکتی انسانیت کو ضلالت وجہالت، کفر وشرک اور بت پرستی، فحاشی وعریانیت اور اسی قبیل کی بے شمار برائیوں سے نجات دلایا۔ جب تک دنیائے انسانیت یا امت مسلمہ نبی پاکﷺ کی سیرت اور آپؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا تھی۔ اس وقت تک ان کی عظمت، معیار اور شان وشوکت ضرب المثل تھی لیکن جوں ہی امت مسلمہ نے نبی پاکﷺ کی تعلیمات سے منہ موڑا اسی وقت سے ذلت وپستی کے شکار ہو گئے۔ نبی مکرمﷺ کو دنیائے انسانیت کے لیے رحمت للعالمین کی حیثیت سے مبعوث فرمایا گیا۔ ان کی سیرت پاک نوع انسانیت کے لیے عالمگیر نمونہ ہے۔ نبی رحمتﷺ نہ صرف پوری انسانیت کا نجات دہندہ بلکہ دین ودنیا کی کامیابی کا حقیقی ضامن بھی ہے۔ انہوں نے دنیا کو امن وسلامتی اور احترام انسانیت کا درس دیا ہے۔ آپﷺ نے جو صالح فکر اور اخلاق عالیہ کے جو اصول مقرر کئے ہیں وہ دنیا کے ہر طبقہ اور قوم کے لیے نمونہ ہے۔ آپ ﷺ نے دنیا کو عالمگیر پیغام  دیا ۔ اعلیٰ اخلاقی قدروں  اور انسانی حقوق کو بحال کر کے دنیائے انسانیت کو انسانیت نوازی کا عظیم درس دیا ۔ علم و حکمت ، تہذیب و تمدن اور اور انسانی تشخص کو وقار بخشا ۔ آپ ﷺ نے انسانی معاشروں کو اخلاقیات سے مزین کیا ۔ ضرورت اس بات کی ہے ہے کہ آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کا بھر پور مطالعہ کیا جائے تاکہ ہم نہ صرف اپنی انفرادہی زندگی کو سنوار سکیں  بلکہ اپنے معاشرے کو بھی سدھار سکیں ۔ اس تعلق سے کرم آرم اسٹرانگ  کی یہ بات کافی اہمیت کی حامل ہے کہ :

  ” And there can be no better place to start this essential process than with a more acurate knowledge of the life of the prophet Muhmmad whose special genius and wisdom can illuminated these dark and frithening times ” (Karen Aramstrong ,Muhmmad : Prophet for our Time .p:7)

اس بنیادی اور اہم کا م کو بہتر طور پر انجام دینے کے لیے پیغمبر اسلام کی سیرت کا صحیح مطالعہ کیا جائے جس میں حکمت اور صلاحیت موجود ہے جس سے ہدایت حاصل کی جاسکتی ہے ۔

 غرض کہ اللہ کے رسول ﷺ کی سیرت پاک میں ہی اکیسویں صدی کے سلگتے ہوئے مسائل کا حل موجود ہے۔مسلمان جب تک اپنی زندگی کو سیرت طیبہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہیں کریں گے، ان کا ایمان معتبر نہیں ہوگا ۔اس بات کی دلیل قرآن پاک کی یہ آیت ہے :

 فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُونَ حَتَّیَ یُحَکِّمُوکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُواْ فِیْ أَنفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْْتَ وَیُسَلِّمُواْ تَسْلِیْما۔ (النساء : 65 )

 اے محمد ﷺ، تمہارے رب کی قسم یہ کھبی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں ، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر وہ اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں ۔

نبی کریم ﷺکی سیرت اور آپ کی دعوت پر ایمان فرض ہے اور اسی کے نتیجے میں دنیوی اور آخروی کامیابیوں کی راہیں کھلتی ہیں ۔آپﷺ کی سیرت اور اور دعوت کو نظر انداز کرنا یا اس سے تجاہل برتنا آگ کے گھڑھے میں کودنے کے مترادف ہے۔

 آئیے! آج سے ہم عہد کریں کہ نبی پاکﷺ کے لائے ہوئے دین اور آپﷺ کی سیرت پاک پر عمل کریں گے تاکہ ہم اپنے مسائل اور دوسروں کے مسائل بھی حل کر سکیں ۔

1 تبصرہ
  1. محمداحمد کہتے ہیں

    اچھی تحریر ھے مگر مختصریے

تبصرے بند ہیں۔