یومِ عرفہ کی فضیلت

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

اللہ تبارک وتعالیٰ نے امت محمدیہ کو بے شمار خصوصیات سے نوازا؛من جملہ ان میں ایک یہ بھی ہے کہ اپنے خصوصی فضل وکرم اورنوازش و عطاء سے نیکی وطاعت کے لیے کچھ خاص اوقات مقرَر فرما دیے؛جن میں اعمالِ صالحہ کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور باری تعالیٰ کی رحمتِ کاملہ بطورِ خاص متوجہ ہوتی ہے تاکہ لوگ اس میں زیادہ سے زیادہ نیک عمل کر کے اپنے رب کا قرب حاصل کر سکیں خوش قسمت،نیک بخت اور سعادت مند ہیں وہ لوگ جو ایسے لمحات واوقات کی قدر کر کے ان سے صحیح فائدہ اٹھاتے ہیں اور لاپرواہی،سستی اورکوتاہی کے بجائے خوب محنت کرکےاپنی آخرت کے لیئے زاد راه جمع کرتے ہیں الله تعالی کی یہ سنت ہے کہ اس نے اپنی مخلوق میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اسی طرح کچھ مہینوں کوکچھ مہینوں پرکچھ دنوں کو کچھ دنوں پر کچھ راتوں کو کچھ راتوں پر اور کچھ وقتوں کو کچھ وقتوں پرشرف اور بزرگی عطا فرمائی ہے رب العالمین کی جانب سے نیکیوں کے یہ خصوصی لمحات اس لئے عطا کیئے گئے تاکہ اس کے بندے نیکیوں کے اس موسم کو غنیمت جانیں اور کم وقت میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرکے اجر عظیم حاصل کرلیں ان اشرف واعلیٰ اوقات میں عشره ذی الحجہ بھی شامل ہے قرآن اور سنت رسول میں ذی الحجہ کے پہلے دس ایام اور ان میں بھی یوم عرفہ کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے؛لہذا ایک عقل مند انسان کے لیئے ضروری ہے کہ ان دنوں کو ضائع نہ کرے اور اپنے لیئے آخرت کی زاد راه تیار کرے اس سفر کے لیئے سامان جمع کرے جو انتہائی طویل ترین اور سخت ترین اور مشکل ترین ہے ایسا سفر جس پر سب کو جانا ہے چاہے کوئی اس کی تیاری کرے یا نہ کرے۔

یوم عرفہ ، اللہ تعالی کی پہچان اور شناخت کا دن ہے جس میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اپنی عبادت اوراطاعت کی دعوت دی ہے اور اپنے بندوں کے لئے اپنے احسان وکرم اور جود و سخا کے دسترخوان بچھا دیئے ہیں ،یہ دن اللہ تعالی کی پہچان، معرفت اور محبت کا مظہر ہے۔

9/ذو الحجہ کا دن اس اعتبارسے بھی نہایت مبارک ہے کہ اس میں حج کا سب سے بڑا رکن ”وقوف عرفہ“ ادا ہوتا ہے، اور اس دن بے شمار لوگوں کی بخشش اور مغفرت کی جاتی ہے؛مگر اللہ تعالیٰ نے اس دن کی برکات سے غیر حاجیوں کو بھی محروم نہیں فرمایا: اس دن روزے کی عظیم الشان فضیلت مقرر کر کے سب کو اس دن کی فضیلت سے اپنی شان کے مطابق مستفید ہونے کا موقع عنایت فرمایا۔

عرفہ کی وجہ تسمیہ :

 عرفہ ایک مخصوص جگہ کا نام ہے اور یہ زمان کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، بایں طور کہ نویں ذی الحجہ کو عرفہ کا دن کہتے ہیں لیکن عرفات جمع کے لفظ کے ساتھ صرف اس مخصوص جگہ کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہ جمع اطراف و جوانب کے اعتبار سے ہے۔ عرفات، مکہ مکرمہ سے تقریباً ساڑھے پندرہ میل (۲۰-۲۵کلو میٹر) کے فاصلے پر ہے، یہ ایک وسیع میدان ہے جو اپنی تینوں جانب سے پہاڑیوں میں گھرا ہوا ہے، اس کے درمیان میں شمالی جانب جبلِ رحمت ہے۔

 عرفات کی وجہِ تسمیہ کے متعلق بہت سے اقوال ہیں ؛جن میں سے تین کوعلماء کرام نے بہ طور خاص بیان فرمایا ہے :

1۔ حضرت ابراہیم  کو آٹھ ذی الحجہ کی رات خواب میں نظر آیا کہ وہ اپنے بیٹے کوذبح کر رہے ہیں ، تو ان کو اس خواب کے اللہ تعالی کی طرف سے ہونے یا نہ ہونےمیں کچھ تردد ہوا،پھرنوذی الحجہ کو دوبارہ یہی خواب نظرآیا تو ان کو یقین ہو گیا کہ یہ خواب اللہ تعالی کی طرف سےہی ہے،چونکہ حضرت ابراہیم ؑکویہ معرفت اور یقین نوذی الحجہ کو حاصل ہوا تھا، اسی وجہ سے نو ذی الحجہ کو ’’یومِ عرفہ‘‘ کہتے ہیں ۔

 2۔نو ذی الحجہ کو حضرت جبرائیل نے حضرت ابراہیم ؑکوتمام مناسکِ حج سکھلائے تھے،و وہ اس دوران ان سے پوچھتے؛ عرفتَ؟یعنی جو تعلیم میں نے دی ہے، کیا تم نے اسے جان لیا؟ حضرت ابراہیم ؑ جواب میں کہتے؛ عرفتُ، ہاں میں نے جان لیا۔آ خر کار دونوں کے سوال وجواب میں اس کلمے کا استعمال اس جگہ کی وجہ تسمیہ بن گیا۔

3۔حضرت ا دم ؑاور حضرت حوا ؓ جنت سے اتر کر اس دنیا میں آئے تو وہ دونوں سب سے پہلے اسی جگہ ملے، اس تعارف کی مناسبت سے اس کا نام عرفہ پڑ گیا اور یہ جگہ عرفات کہلائی۔

جس دن کی اللہ تعالی نے قسم اٹھائی ہے:

عظیم الشان اورمرتبہ والی ذات عظیم الشان چيز ہی کی قسم اٹھاتی ہے اوریہی وہ یوم المشہود ہے جو اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کہا ہے ( وشاهد ومشهود . البروج 3) قسم ہے اُس دن کی جو حاضر ہوتا ہے اور اُس کی کہ جس کے پاس حاضر ہوتے ہیں . روایات میں آیا کہ "شاہد” جمعہ کا دن ہے اور "مشہود” عرفہ کا دن اس کے علاوہ شاہد ومشہود کی تفسیر میں اقوال بہت ہیں ۔ لیکن اوفق بالروایات یہی قول ہے۔ واللہ اعلم ۔

حضرت ابوہریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : یوم موعود قیامت کا دن اور یوم مشہود عرفہ کا دن اورشاھد جمعہ کا دن ہے۔(رواه الترمذي)

اسی طرح حضرت ابو ازبیرؓ نے حضرت جابر سے روایت کیا ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والفجر ولیال عشر کے متعلق فرمایاہے:یہ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہے اور فرمایا کہ وتر سے مراد یومِ عرفہ اور شفع سے مراد یومِ نحر(یعنی دسویں ذی الحجہ) ہے۔(شعب الایمان)

شیطان کی ‍ ذلت وخواری  کا دن:

 حضرت طلحہ بن عبید اللہ بن کریز کہتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ایسا کوئی دن نہیں ، جس میں شیطان اتنا زیادہ ذلیل و خوار ، حقیر اور غیظ سے پُر دیکھا گیا ہو جتنا وہ عرفہ کے دن ہوتا ہے، جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہوتی ہوئی رحمت اور اس کی طرف سے بڑے بڑے گناہوں کی معافی دیکھتا ہے۔(شعب الایمان)

دین اسلام کی تکمیل اورنعتموں کے اتمام کادن:

صحیحین میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک یہودی نے حضرت عمربن خطابؓ سے کہا، اے امیر المومنین! تم ایک آیت قرآن مجید میں پڑھتے ہو اگر وہ آیت ہم یہودیوں پرنازل ہوتی توہم اس دن کو عید کا دن بناتے۔ حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے، وہ کون سی آیت ہے؟

اس نے کہا:

’’الیوم أکملت لکم دینکم وأتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الإسلام دینا۔‘‘

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے:

ہمیں اس دن اور جگہ کا بھی علم ہے، جب یہ آیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی وہ جمعہ کا دن تھا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ میں تھے ۔

اور حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ یہ آیت (الیوم اکملت) جمعہ اورعرفہ والے دن نازل ہوئی، اور یہ دونوں ہمارے لیے عید کے دن ہیں ۔

اولاد آدم سےلیےگئےعہد میثاق کادن:

ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی ذریت سے عرفہ میں میثاق لیا اورآدم علیہ السلام کی پشت سے ساری ذریت نکال کرذروں کی مانند اپنے سامنے پھیلا دی اوران سے آمنے سامنے بات کرتے ہوۓ فرمایا : کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں ؟ ہم سب گواہ بنتے ہیں ، تا کہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ تم تو اس سےمحض بے خبرتھے یا یوں کہو کہ پہلے پہلے شرک توہمارے بڑوں نے کیا اورہم توان کے بعد ان کی نسل میں ہوۓ توکیا ان غلط راہ والوں کے فعل پرتو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا ؟ الاعراف ( 172، 173 ) (مسند احمد)

گناہوں کی بخشش اور آگ سے نجات  کادن:

صحیح مسلم میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی یوم عرفہ سے زیادہ کسی اوردن اپنے بندوں کوآگ سے آزادی نہیں دیتا اوربلاشبہ اللہ تعالی ان کے قریب ہوتا ہے اور پھر فرشتوں کےسامنے ان سے فخرکرکے فرماتا ہے یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ (مسلم)

عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی یوم عرفہ کی شام فرشتوں سے میدان عرفات میں وقوف کرنے والوں کےساتھ فخرکرتے ہوۓ کہتے ہیں میرے ان بندوں کودیکھو میرے پاس گردوغبار سے اٹے ہوۓ آۓ ہیں (.رواه الطبراني)

اجابت  دعاء کا بہترین دن :

حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد (حضرت شعیب) سے اور وہ اپنے دادا (حضرت عبداللہ بن عمرو) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: سب سے بہتر دعا عرفہ کے دن کی ہے (خواہ وہ میدان عرفات میں مانگی جائے یا کسی بھی جگہ ) اور ان کلمات میں جو میں نے یا مجھ سے پہلے انبیاءنے بطور دعا پڑھے ہیں سب سے بہتر یہ کلمات ہیں لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شئ قدیر ۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو یکتا و تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کے لئے بادشاہت ہے اور اسی کے لئے تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

اس روایت سے معلوم ہواکہ یہ دن  دعاء کے لیے سب سے بہتر ہے ؛جس کی بناء پر اللہ تعالی اس دن دعاء کو رد نہیں فرماتا۔

عرفے کے روزے کی فضیلت :

حضرت مسروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:سال بھر میں مجھے کوئی روزہ عرفہ کے دن سے زیادہ محبوب نہیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

اس حدیث میں نو ذو الحجہ کے دن کے روزے کی بیش بہا فضیلت بیان کی گئی ہے۔ایک روایت میں حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے عرفہ (یعنی 9ذلحجہ ) کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا ،رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:(9ذوالحجہ کا روزہ رکھنا) ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہے۔(مسلم ،مسند احمد)

تبصرے بند ہیں۔