سیلاب کا سالانہ عذاب!

عالم نقوی

ہم اس عنوان سے ہر سال کچھ نہ کچھ ضرور لکھتے ہیں۔ شاید دل کی بھڑاس نکل جانے سے  کتھارسس ہو جاتی ہو  ورنہ، وہی ڈھاک کے تین پات اور نتیجہ کوئی  برآمد نہیں ہوتا۔سیلاب کبھی سماوی آفت ہوتا ہوگا اب تو   یہ فساد ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی  کے سوا اور کچھ نہیں۔

آج ہم ڈاکٹر تسلیم رحمانی کی ایک پوسٹ (سوشل میڈیا کی) اپنے قارئین کے ساتھ  شیئر کر رہے ہیں جو اس لائق ہے کہ دور دور تک پہنچے۔ قارئین جانتے ہیں کہ پورا شمال مشرقی بھارت، اور با لخصوص بہار، بنگال، آسام اور منی پور  کی ریاستیں گزشتہ ایک ماہ سے بد ترین سیلاب کی زد میں ہیں۔ ان میں بھی بہار کی  شاید حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔ مجموعی طور پر کئی کروڑ لوگ  متاثر ہیں اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔  مسلم تنظیمیں ریلیف کا کام ویسے بھی بہت اچھا کرتی ہیں سو اس بار بھی وہ سب سے آگے ہیں۔ پورنیہ، اَرَریہ اور کشن گنج اَضلاع میں مسلم پولیٹیکل کونسل آف انڈیا نے عارفہ چیریٹیبل ٹرسٹ اور سیمانچل میڈیا منچ کے تعاون سے گزشتہ ہفتے کے دوران سیلاب زدہ علاقوں میں قریب ایک ٹن ضروری دوائیں مفت تقسیم کی ہیں جن سے ڈائریا، پیچش اور فلو وغیرہ کے پانچ ہزار  سے زائد مریضوں کا علاج ممکن ہوسکا ہے۔

یہ تنظیمیں پورنیہ کے کمشنر اور کشن گنج کے ڈی ایم سے مل کر  علاقے کے برباد سیلاب زدگان کی باز آباد کاری کے لیے سرگرم ہیں۔ سیمانچل کہلانے والے بہار کے یہ تینوں اضلاع کم و بیش ہر سال کوسی ندی کے سیلاب سےلازماً متاثر ہوتے ہیں کسی سال کم کبھی زیادہ اور کبھی بہت زیادہ۔ اس لیے وہ  تیار بھی رہتے ہیں لیکن امسال یہ سیلاب’ بہت زیادہ ‘ُکی حد بھی پار کر چکا ہے۔ یہ ندی چین اور نیپال سے بہتی ہوئی سیمانچل (بہار ) میں داخل ہوتی ہے۔’گودی میڈیا ‘ تو یہ کہہ رہا ہے کہ نیپال کی حکومت نے اس بار بھی بغیر کسی پیشگی اطلاع یا انتباہ کے کوسی ڈیم پر بنے فلڈ گیٹ کھول دیے اور کئی فٹ اونچی پانی کی دیوار سیمانچل پر سے گزر گئی۔

ڈاکٹر تسلیم رحمانی کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ 1958 کے ہند نیپال کوسی پانی تقسیم معاہدے کی رو سے کوسی ڈیم کی دیکھ ریکھ کی ذمہ داری حکومت ہند کی ہے  کوسی بیراج (ڈیم۔ باندھ ) کے فلڈ گیٹس کی چابیاں نیپال نہیں ھکومت ہند کے متعلقہ ذمہ داروں کے پاس ہیں۔ نیپال کئی ہفتوں سے شدید باڑھ کی گرفت میں تھا اور وہ حکومت ہند کے متعلقہ حکام سے برابر یہ درخواست کر رہا تھا کہ وہ بیراج کے دروازے کھول کر نیپال کو تباہی سے بچانے میں مدد کریں لیکن بھارتی حکام ہمیشہ کی طرح کان میں تیل ڈالے بیٹھے تھے یہاں تک کہ نیپال نےدھمکی دی کہ اگراس کی بات نہ سنی گئی تو وہ بین الا قوامی فورم  میں  یہ معاملہ رکھے گا۔ ہماری وزیر خارجہ سشما سوراج نیپالی وزیر خارجہ  کرشن بہادر مہارا سے جو فی ا لوقت نیپال کے نائب وزیر اعظم بھی ہیں، مسلسل رابطے میں تھیں لیکن بھارتی  خارجہ، داخلہ، توانائی اور  آبپاشی وغیرہ کی وزارتوں کے  کام چور منسٹر  سکریٹری اور دیگر افسران ، نام نہاد ’پردھان سیوک ‘ مودی کی طرح  کام کرنے کے بجائے  صرف باتیں بنانے میں لگے رہے یہاں تک کہ کوسی ڈیم کے ٹوٹ جانے کا خطرہ پیدا ہوگیا اور پھر وہی ہوا جو کم و بیش ہر سال ہر باندھ کے ساتھ ہوتا ہے۔

2008 میں کوسی باندھ کے ساتھ بھی ہو چکا تھا کہ  بغیر ضروری پیش بندانہ حفاظتی انتظام کیے اور بغیر  زیریں علاقے خالی کرائے اور  عوام کو ممکنہ خطروں سے  جنگی پیمانے پر با خبر کیے بغیر اور کسی بھی طرح کی پیشگی وارننگ دیے بغیر  کوسی باندھ کے فلڈ گیٹ کھول دیے گئے کہ نقصان تو عوام کا ہونا تھا  کسی نتیش اور کسی مودی یا کسی شاہ کی جیب یا گھر سے کچھ تھوڑی جانا تھا!  سو، سیمانچل میں پھر وہی ہوا جو  برسوں سے ہر سال  ملک کے کم و بیش ہر باندھ کے زیریں علاقوں میں ہوتا  آرہا  ہے اور جب تک یہ  سڑا گلا بد بو دار، عوام دشمن اور غریب دشمن نظام نہیں بدلے گا، اسی طرح ہوتا رہے گا۔ جبکہ ہر سال کی طرح امسال بھی حکومت اور بھاری تنخواہیں پانے والے نا اہل، کام چور اور صحیح معنوں میں دیش دروہی حکام اگر چاہتے تو وقت رہے جانی نقصان کو صفر اور مالی نقصان کو صرف غیر منقولہ جائداد تک محدود رکھ سکتے تھے!

بڑی مشکل سے اب جاکے حکومت نے قبول کیا ہے کہ سیمانچل میں ساڑھے چار سو افراد باڑھ میں ہلاک ہوئے ہیں لیکن یہ نہیں بتایا گیا  کہ ان معلومات کے ذرائع کیا ہیں ؟ کس سروے کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے اور وہ  سروے کب ہوا اور کن لوگوں نے اور کس طرح انجام دیا؟ اور یہ تو سب جانتے ہیں حکومت صرف لاشوں کی گنتی کرتی ہے، لا پتہ افراد جو کبھی واپس نہیں آتے وہ  کسی شمار  میں نہیں آتے !مقامی افراد اور ریلیف کا کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے صرف سیمانچل میں ہلاک شدگان کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہو سکتی ہے۔ اور ان  ہزاروں مویشیوں  کی تو کوئی گنتی ہی نہیں  جو اِس علاقے کے لوگوں کی روزی روٹی کا واحد ذریعہ ہوتے ہیں !سیکڑوں نہیں ہزاروں گھر اور جھونپڑے نیست و نابود ہو گئے ہیں اور ان کے مکین اس طرح کہ اب ان کے پاس نہ سر چھپا نے کے لیے  کوئی ٹھکانہ ہے نہ روزی کا کوئی وسیلہ !اور نتیش۔ مودی سرکار کہتی ہے کہ وہ فی گھر تین ہزار روپئے سے زیادہ معاوضہ نہیں دے سکتی ! ہزاروں ہیکٹئر کی زر خیز زمین کی مٹی اور دھان کی کھڑی فصلوں کو کئی فٹ بلند پانی کی دیوار چشم زدن میں کہاں بہا لے گئی کوئی نہیں جانتا !یعنی امسال کوئی فصل نہیں۔ صرف سیمانچل کے ایک کروڑ لوگ لفظاً اور معناً بھوکے پیاسے بے گھر بار اور بے یارو مددگار پڑے ہیں اور زمین پر کوئی ان کی سننے والا نہیں۔ آخر اس تباہی کا کون ذمہ دار ہے ؟ ظاہر ہے کہ حکومت اور متعلقہ سرکاری محکموں  کے بے حس اہل کار یعنی دوسرے لفظوں میں ریاستی حکومت  جس کے خلاف  سر دست فوری طور پر  قانونی چارہ جوئی کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔ قارئین سے درخواست ہے کہ  وہ سیلاب زدگان کی امداد کرنے والے سبھی فلاحی  اداروں،  ڈاکٹر تسلیم رحمانی اور ان کی پوری ٹیم  کو  اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں۔

ہاں ’ نتیش۔ مودی سرکار‘  نے  یہ کارنامہ  ضرور  انجام  دیا کہ سال ِگزشتہ کے سیلاب کے بعد جو معاوضہ اِس علاقے میں فی  گھر چھے ہزار روپئے دیا گیا تھا  اُسے ’بہ کمالِ مہربانی‘ گھٹا کر آدھا۔۔ صرف تین ہزار روپئے فی گھر کر دیا گیا !

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔