سی اے اے، این آر سی اور تحریک شاہین باغ

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

سی اے اے اور این آر سی کے ذریعہ ہندوستانی مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دینے اور انہیں ملک بدر کرنے کی بڑی سازش تھی، یہ  قانون پاس بھی ہوگیا، جس کی رو سے مسلمانوں کو چھوڑ کر تمام مذاہب کے لوگوں کو ہندوستان میں شہریت دینے کا منصوبہ بنایا گیا تھا، اور وزیر داخلہ اس پر مصر تھے کہ گھس پیٹھیوں کو چن چن کر نکال باہر کریں گے، وہ بڑی تیزی سے اسے نافذ کرنا چاہتے تھے، قانون پر صدر جمہوریہ کے دستخط بھی ہو گیے، لیکن وہ جو کہا گیا ہے کہ ’’من درچہ خیالم فلک در چہ خیال‘‘ وزیر داخلہ کی ساری مہم کورونا نے ناکام کر دیا، اور یوپی وغٰرہ میں کام شروع ہونے کے باوجود پیش رفت نہیں ہو سکی۔

 اس قانون کے بننے سے بہت پہلے حضرت امیر شریعت سابع مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانیؒ نے کاغذات کی درستگی کی مہم چلوائی، امارت شرعیہ کے ذمہ داران وکارکنان کو بھی اس کام کے لیے لگایا، دورے کروائے، بعض اخبارات کے صحافی اور دانشوران اسے مسلمانوں کو ڈرانے سے تعبیر کر رہے تھے، لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ امیر شریعت سابع ؒ جو کچھ کہہ رہے تھے وہی صحیح تھا، بعد کے دنوں میں یہ معاملہ اس قدر سنگین ہو گیا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے طلبہ اور خواتین سڑکوں پر آگئیں، اور انہوں نے انتہائی اولو العزمی کا مظاہرہ کیا، ان خواتین سے تحریک پا کر پورے ہندوستان میں شاہین باغ بن گیا، حضرت امیر شریعت سابع ؒ کے حکم پر امارت شرعیہ کے ذمہ دار اور کارکنان نے بھی اس مہم میں حصہ لیا اور بہار، جھارکھنڈ اڈیشہ اور مغربی بنگال کے دورے کیے، اس کی تفصیل میری کتاب ’’سی اے اے، این آر سی اور این پی آرمسائل، مشکلات اور حل‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔

 11؍ دسمبر 2019ء کو یہ قانون پاس ہوا، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ اس کے خلاف آگے آئے تو ان پر ظلم وتشدد کا بازار گرم کیاکیا، ان کی حمایت میں جامعہ کے آس پاس کی خواتین احتجاج میں شریک ہوئیں، 15؍ دسمبر2019ء سے شاہین باغ تحریک کا آغاز ہوا، اور24؍ مارچ 2020کو کورونا وبا کے پھیلنے کا بہانہ کرکے پولیس نے طاقت دکھا کر اس تحریک کو سبو تاز کیا، حالاں کہ شاہین باغ کی خواتین نے دسمبر اور جنوری کی سردراتوں میں اپنی زندگی اور خاندان کو در پیش خطرات سے قطع نظر شاہین باغ کو آباد رکھ کر ایک تاریخ رقم کی، شاہین باغ احتجاج، مظاہرے اور تقریروں کے اعتبار سے ایک استعارہ اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی علامت بن گیا، ضرورت تھی کہ اس تاریخ کو آنے والی نسلوں کے لیے محفو ظ کر دیا جائے، تاکہ انہیں حوصلہ ملے کہ وقت آنے پر کیا مرد اور کیا خواتین، سب کو جم کر میدان میں آنا چاہیے اور ڈٹ جانا چاہیے، ایڈیٹر نگارشات مولانا عبد الرحمن قاسمی نے اس تاریخ کو بڑی محنت سے ’’سی اے اے، این آر سی اور تحریک شاہین باغ‘‘ کے نام سے جمع کر دیا ہے، مختلف اخبارات کے تراشے اور اس پر اپنا تجزیاتی مطالبہ بھی ان کا خوب ہے، کتاب کا انتساب انہوں نے سی اے اے، این آر سی مظاہرہ میں شہید نو جوانوں، پس دیوار زنداں، جاں باز جیالوں اور شاہین باغ تحریک کی شاہین صفت خواتین کے نام ہے، اس کتاب کے لیے اس سے بہتر انتساب دوسرا ہوہی نہیں سکتا تھا۔

 کتاب پر مقدمہ مشہور صحافی، انقلاب کے گروپ ایڈیٹر جناب ودود ساجد، تاثرات  جناب ڈاکٹر ظفر الاسلام خان، تقریظ مفتی محمد نوشاد نوری قاسمی، اور پیش لفظ خود مؤلف کا ہے، ودود ساجد نے لکھا ہے کہ ’’یہ کتاب ایک ایسی فلم ہے جو آپ کو احتجاج کے دنوں کے مناظر کو یک جا کرکے دکھاتی ہے، اس کتاب میں سبھی کچھ ہے، ’’ڈاکٹر ظفر الاسلام خان سابق چیرمین دہلی قلیتی کمیشن نے اپنے تاثرات میں لکھا ہے کہ ’’شاہین باغ پر اب تک متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، یہ کتاب اس میں ایک عمدہ اضافہ ہے‘‘۔ مفتی محمد نوشاد نوری قاسمی کی رائے ہے کہ ’’اہوں نے (مؤلف) شاہین باغ کے تذکرے کو زندہ رکھنے اور اس کے اجالوں کو تاریخ کے دریچے میں محفوظ کرنے کی کامیاب سعی کی ہے، انہوں نے شاہین باغ سے متعلق تمام اخباری بیانات اور رپورٹ کو اس کتاب میں جمع کر دیا ہے۔‘‘

248 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں 169 ذیلی عناوین کے تحت سی اے اے، این آر سی کی تاریخ، این آر سی کا مقصد، شاہین باغ کا تاریخی پس منظر، شہید ہوئے اور گرفتار ہونے والوں کے سوانحی خاکے وغیرہ کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے، تالیف کا کام کبھی کبھی تصنیف سے زیادہ توجہ چاہتا ہے، مجھے خوشی ہے کہ مولانا عبد الرحمن قاسمی نے سلیقہ سے تالیف کا کام کیا ہے، پروف ریڈنگ پر بھی اچھی محنت کی ہے، حروف بھی جلی ہیں، کمزور نگاہ والوں کو مطالعہ کے لیے  چشمہ لگانے کی ضرورت نہیں محسوس ہوگی اور بغیر سر درد کے وہ اس کے مندرجات سے مستفیض ہو سکیں گے، سرورق سادہ مگر خوب ہے، شاہین باغ اور جامعہ ملیہ کے طلبہ پر جو ظلم کی کالی گھٹا چھائی تھی اس کو ذہن ودماغ میں محفوظ رکھنے کے لیے سیاہ، شہادت کی یاد دلانے کے لیے خونی رنگ اور انڈیا کو سرسوں والے پیلے رنگ میں لکھا گیا ہے، یہ سارے رنگ بھی علامتی ہیں اور اگر آپ نے ذہن رسا پایا ہے تو اس کی معنویت سے انکار نہیں کر سکتے۔

 کتاب مرکزی پبلی کیشن دہلی سے چھپی ہے، تقسیم کار میں نگارشات ڈاٹ کام اور ملنے کے پتے میں چار پتے درج ہیں، دہلی سے لینا ہو تو ملی پبلیکشنرابو الفضل انکلیو نئی دہلی، دیو بند میں ہوں تو مکتبہ زمزم اور مکتہ نعیمیہ اور بہار میں ہوں تو مکتبہ محمودیہ بشن پورا، مغربی چمپارن سے حاصل کر سکتے ہیں، مصنف کے ای میل اور وہاٹس ایپ سے رابطہ کرنا آسان ہے، وہاٹس ایپ نمبر ہے8791519573اور ای میل qasmiabdulrahman7@gmail.com ہے۔ مفت والی روایت سے احتراز کیجئے۔ 250روپے دیجئے اور کتاب حاصل کر لیجئے۔

تبصرے بند ہیں۔