سی سی آئی ایم الیکشن اور طب یونانی کا زوال

ڈاکٹر خالد اختر علیگ

سی سی آئی ایم یامرکزی کونسل برائے ہندوستانی طب حکومت ہند کی وزارت آیوش کے تحت ایک خودمختار ادارہ ہے، جس کو۱۹۷۰ءمیں پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے تحت قائم کیا گیا تھا،پہلے یہ وزارت صحت و خاندانی بہبود کے تحت تھا لیکن ۲۰۱۴ءمیں جب بی جے پی کی حکومت بنی تو اس نے ہندوستانی طبی نظام جس میں آیوروید، یوگا،یونانی، سدّھا، سوارگپااور ہومیوپیتھی شامل ہیں،جن کو ترقی دینے کے لئے ایک علیحدہ وزارت قائم کی جس کا مخفف AYUSHہے، آیوش وزارت کے قیام کے بعد یہ ادارہ خود بخود اس میں شامل ہوگیا۔ سی سی آئی ایم کا کام ہندوستانی طبوں یا پیتھی کی تعلیم کے لئے طبی تعلیمی اداروں اور اس سے وابستہ تربیتی اسپتالوں کی معیاربندی اور نگرانی کرنا،نئے طبی کالجوں کے قیام کو منظوری دینا،ان کی سیٹوں کا تعین کرنااورمنظور شدہ کورسز کے نصاب کو تیار کرناہے۔ کونسل کے بیشتر ذمہ دارسیدھے انتخابات سے یا پھر نامزد گی کے ذریعہ آتے ہیں، جس میں صدر،نائب صدر، اور کونسل کی ایگزیکیٹیو کمیٹی کے ممبران شامل ہیں۔ ایگزیکیٹیو کمیٹی کے کچھ اراکین یونیورسٹیز میں قائم آیوروید، یونانی اور سدّھا کی فیکلٹی سے نامزد کئے جاتے ہیں تو کچھ اراکین ملک کی مختلف ریاستوں سے صوبائی ہندوستانی طبی بورڈ میں رجسٹرڈ معالجین کے ذریعہ منتخب کئے جاتے ہیں، اس وقت اترپردیش سے یونانی کوٹہ کے تحت دو سیٹوں کے لئے انتخابات ہو رہے  ہیں جس کے لئے سات امیدوار میدان میں ہیں، جو کہ جنگی پیمانے پر اپنی مہم چلا رہے ہیں اور عجیب وغریب وعدے بھی کر رہے ہیں مثلاً ایمسAIIMS کی طرز پر یونانی ادارہ قائم کروانااور آیوش معالجین کو ایلوپیتھی پریکٹس کرنے کی اجازت دلواناوغیرہ یہ دونوں ایسے وعدے ہیں جن کا کونسل سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ پارلیمان کا ایشو ہیں جس کے لئے مقننہ میں موجود عوامی نمائندے ہی کوئی فیصلہ لے سکتے ہیں۔ جہاں تک ان اراکین کے فرائض کی بات ہے وہ صرف اتنی ہے کہ طبی اداروں اور اس کے نصاب کی بہتری کے لئے کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں جس کے لئے موزوں تجاویز پیش کرنا۔ اگر اس الیکشن کے امیدواروں کے بارے میں بات کی جائے تو ان میں سے چند غیر معروف چہروں کو چھوڑ کر بیشتر ایسے لوگ ہیں جو سابقہ اراکین کی حمایت سے میدان میں اترے ہیں اورطبی تعلیمی تجارت کے بادشاہ ہیں جن کے اپنے طبی کالج ہیں اور جہاں پر لاکھوں روپئے ڈونیشن اور فیس کے نام پر وصولے جارہے ہیں۔

        دودہائیوں سے معالجین ایسے لوگوں کو منتخب کرتے آرہے ہیں جو طب کی تجارت کررہے ہیں۔ دو دہائیوں کے اندر ایسے طبی کالج کثرت سے وجود میں آئے جوچھوٹی چھوٹی عمارتوں میں قائم ہیں جہاں نہ تو پورا انفرا سٹرکچر موجود ہے اور نہ ہی مستقل اساتذہ،تعلیم و عملی تربیت کی مشق کا مناسب نظم ناپید ہے، بیشتر کالجوں میں اساتذہ بھی کرائے کے ہوتے ہیں، اور اس سے منسلک اسپتالوں میں موجود مریض بھی دہاڑی پرلائے جاتے ہیں،جو کہ آیوش کالجوں کو کنٹرول کرنے والے ادارے سی سی آئی ایم کے معائنہ کرنے والی ٹیم کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، شاید ہی کبھی کوئی مریض ان کی او پی ڈی میں آتا ہو اور کبھی کسی مریض کو بھرتی کیا گیا ہو،طلبہ جو خطیر رقم دے کر ان کالجوں میں داخلہ لیتے ہیں علمی اور عملی طور پر صفر ہوتے ہیں لیکن ڈاکٹر کہلانے کے شوق کو پورا کرنے کے لئے کسی پرائیویٹ اسپتال میں بنیادی باتیں سیکھنے کے لئے اپنا وقت لگا دیتے ہیں۔ لیکن وہ طب کے رموز سے نا آشنا رہتے ہیں،ان کالجوں میں سارا ڈیٹا جعلی اندراجات سے پر ہوتا ہے لیکن بھلا ہو ان معائنہ کرنے والی ٹیم کا کہ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ان کالجوں میں نہ صرف گریجویٹ بلکہ کچھ جگہوں پر پوسٹ گریجویٹ سطح کی تعلیم دینے کی منظوری دے کر چلے جاتے ہیں۔ ان اداروں میں گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کے طلبہ اپنے گھر بیٹھے ہی ڈگری حاصل کر لیتے ہیں۔ مستزاد تو یہ ہے کہ سرکاری اور نمایاں نام رکھنے والے ادارے مثلاً اجمل خاں طبیہ کالج،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،نظامیہ طبیہ کالج، حیدرآباد جہاں تعلیم کا باضابطہ نظام اور عملی تربیت کے پورے مواقع ہوں،جہاں اساتذہ کی بھی کوئی کمی نہ ہو اپنی پوسٹ گریجویٹ کورس کی ہی نہیں بلکہ گریجویٹ کورسوں کی نشست کو بھی بچانے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ اتر پردیش کے دو قدیم سرکاری طبی ادارے تکمیل الطب طبیہ کالج،لکھنؤاور گورنمنٹ طبیہ کالج الہ آباد جن کے قیام کو ایک صدی ہونے کو ہے پوسٹ گریجویٹ تعلیم کے منظور ی چند ماہ قبل ہی مل پائی ہے۔ ایک بھی پرائیویٹ طبیہ کالج اس معیار کا نہیں ہے کہ اسے کوئی مقام مل سکے۔ پرائیوٹ کالجوں کے ایسے طلبہ جو نہ تو علمی اور نہ ہی عملی تعلیم حاصل کرپاتے ہیں کیا وہ مریضوں کے ساتھ انصاف کر سکتے ہیں؟

 آزادی کے بعد آیورید کی طرح یونانی کو بھی پورے مواقع فراہم کئے گئے لیکن یونانی سکڑتی جارہی ہے اور آیوروید نے اپنا نام پوری دنیا میں پھیلا دیا ہے، اور اسے عالمی پیمانے پر متبادل طب سمجھا جانے لگا ہے۔ آیوروید سے وابستہ افراد اپنی پیتھی کے لئے مخلص رہے ہیں اور انہوں نے ہر سطح پر اس کے فروغ کا اہتمام کیا لیکن یونانی صرف ایک صدری پیتھی بن کر رہ گئی۔ نئی نسل تو یونانی نام کی کسی پیتھی سے ہی نابلد ہے۔ رہی سہی کسر پرائیویٹ طبیہ کالجوں کے فارغین نے پوری کردی ہے جو کہ یونانی کی ابجد سے ہی واقف نہیں ہیں۔ آزادی کے بعد سے ہم یونانی میں کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکے ہیں۔ اس کی سیدھی وجہ یہ ہے کہ یونانی کونمائندگی کے لئے جو افراد میسر آئے انہوں نے طب کے فروغ کے بجائے اپنے فروغ پر زیادہ زور دیا۔

جہاں تک سی سی آئی ایم کے اراکین کے انتخاب کا معاملہ ہے یہ انتخاب کم اور لوٹ مار زیادہ ہے،اس انتخاب میں بیلیٹ پیپر رجسٹرڈ معالجین کے پتہ پر رجسٹرڈ ڈاک کے ذریعہ بھیجے جاتے ہیں امیدواروں کے نمائندے ان بیلیٹ پیپر کو معالجین سے مختلف حیلہ بہانے بناکر حاصل کر لیتے ہیں اور پھر خود سے اپنی مرضی کے مطابق امیدوار کو نشان زد کرکے الیکشن آفیسر کے دفتر میں جمع کراتے ہیں۔ گاؤں کے پردھان کے انتخاب میں بھی ووٹر کو اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوتا ہے لیکن یہاں یہ حق بھی سلب کر لیا جاتاہے۔ جب یہ صورتحال ہو تو آپ خود ہی اندازہ لگایئے کہ وہ جیتنے کے بعد کس طرح کے کارنامے انجام دیتے ہونگے۔

طب یونانی کا درد رکھنے والے معالجین کے لئے ابھی بھی موقع ہے کہ اپنے اندر موجود کالی بھیڑوں کو پہچانیں اور ان کو ایسے پالیسی ساز اداروں سے دور رکھیں جہاں پر طب یونانی کی ترقی کے لئے بہتر اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ اگر ابھی بھی نہیں جاگے تو یہ طب کب تاریخ کا حصہ بن جائے خبر ہی نہیں ہوگی۔ اتر پریش میں قومی آیوش مشن کی سرگرمیاں عروج پر ہیں جس کے لئے ہر پرائمری اور کمیونٹی صحت مراکز پر وال پینٹنگ کرائی جارہی ہے اور آیوش طب آپ کے دوار جیسے بینر لگاکر صرف اور صرف آیوروید کو فروغ دیا جارہاہے، کیا یہ واقعہ ہماری آنکھ کھولنے کے لئے کافی نہیں ہے۔

1 تبصرہ
  1. شبیر احمد خان کہتے ہیں

    حقیقت کی عکاس تحریر

    یقیناً یہ طب یونانی کا المیہ ہی ہے کہ اسے جو افراد میسر آئے انہوں نے طب کو فروغ دینے کے بجائے اور وہ سب کچھ کیا جو انکے حصول جاہ و حشمت ودولت میں ممد و معاون ہو –

تبصرے بند ہیں۔