شاخِ وحشت پہ برگ و بار نہیں

افتخار راغبؔ

شاخِ وحشت پہ برگ و بار نہیں

غم نہیں کوئی غم گسار نہیں

تجھ سے کیا دشمنی کا خوف مجھے

دوستوں میں ترا شمار نہیں

مہرباں گر نہیں نگاہِ کرم

کوئی موسم ہو سازگار نہیں

اک اشارے پہ دوڑ آؤں گا

زخم بھرنے کا انتظار نہیں

مجھ کو جتنی تھی اُن سے ہاں کی آس

اُن کے لب پر تھی اُتنی بار نہیں

کس کو اپنا جہاں نہیں محبوب

کس کو اپنی زمیں سے پیار نہیں

میں تو دل کی لگی کا مارا ہوں

دل لگی وجہِ انتشار نہیں

تیری باتوں میں کھو گئے ہیں ہم

اپنی آنکھوں پہ اعتبار نہیں

اب بھی دل کے لغت میں سب کچھ ہے

صرف اک حرفِ اختیار نہیں

میں محبت کا ہوں نمائندہ

بغض و نفرت مرا شعار نہیں

رُخ پہ ہر دم طمانیت کا عکس

شیشۂ قلب پر غبار نہیں

دیکھ کر آنکھ کیوں نہ بھر آئے

چشمِ بے کس ہے آبشار نہیں

حکم کس نے دیا تھا یہ بھی دیکھ

کس طرح کہتا خاکسار نہیں

جل رہا ہے حروف سے کاغذ

لکھ رہا ہوں کہ بے قرار نہیں

تیری آنکھوں سے ہے عیاں کچھ اور

توٗ زباں سے کہے ہزار نہیں

موند لیتے ہو آنکھ کیوں راغبؔ

کیا حقیقت سے یہ فرار نہیں

تبصرے بند ہیں۔