"شاعر کا خط خدا کے نام”

سید محمد عطاءالحق صوفی

المدد مالک میرے، ہوں ایک مشکل میں پھنسا

پیروی کس کی کروں،ہوں کشمکش میں مبتلا

ہے بنا کوئی بریلی، تو ہے کوئی مودودی

کوئی ہے اہلحدیث، تو ہے دیوبندی کوئی

ان میں سے ہر ایک کا دعوٰی یہی ہے ربّنا

راہِ حق میں دوسرا کوئ نہیں میرے سِوا

المدد مالک میرے، ہوں ایک مشکل میں پھنسا

پیروی کس کی کروں، ہوں کشمکش میں مبتلا

کوئی کہتا ہے رسول اللہ ہیں مختار کُل

غیب دانی پر کوئ کرتا ہے انکے شوروغل

کوئی کہتا ہے حضرت غیب سے تھے بےخبر

تھے رسول الللہ بھی مانند ھم سب کے بشر

المدد مالک میرے، ہوں ایک مشکل میں پھنسا

پیروی کس کی کروں، ہوں کشمکش میں مبتلا

فاتحہ خوانی پہ جھگڑا، قیام کرنے پر کہیں

اور بلند آواز سے آمین کہنے پر کہیں

کوئی کہتا ہے کرنا قیام ناجائز نہیں

کوئی کہتا ہے کے ناجائز ہے فائز نہیں

المدد مالک میرے، ہوں ایک مشکل میں پھنسا

پیروی کس کی کروں، ہوں کشمکش میں مبتلا

مسجدوں میں لڑتے ہیں، لڑتے ہیں رستے میں کہیں

محفلِ میلاد میں لڑتے ہیں، جلسے میں کہیں

چائے خانوں میں، ہوٹلوں میں، پان کی دکان میں

لڑتے ہیں ٹولے محلّے میں، کبھی کھلیان میں

المدد مالک میرے، ہوں ایک مشکل میں پھنسا

پیروی کس کی کروں، ہوں کشمکش میں مبتلا

سجدے کرنا قبر پر جائز ہے کہتا ہے کوئی

کوئی کہتا ہے یہ تو شرک ہے اے مدّعی

قبر پر چادر چڑھاتا ہے روا کہتا ہے ایک

دوسرا کہتا ہے یہ جائز نہیں بدعت ہے دیکھ

المدد مالک میرے، ہوں ایک مشکل میں پھنسا

پیروی کس کی کروں، ہوں کشمکش میں مبتلا

کوئی کہتا ہے، نہ جب تک چاند آۓ نظر

روزہ رکھنا حرام ہے ریڈیو کی خبر پر

کوئی کہتا ہے خبر ہے ریڈیو کی معتبر

روزہ رکھیں لوگ سن کر چاند ہونے کی خبر

المدد مالک میرے، ہوں ایک مشکل میں پھنسا

پیروی کس کی کروں، ہوں کشمکش میں مبتلا

کوئی کہتا ہے ہمارا دعویٰ ناجائز نہیں

کوئی کہتا ہے یہ دعویٰ ہے غلط، جائز نہیں

اس کشاکش کے نتیجے میں اے مالک بے نیاز

ہوتی ہر سال عیدالفطر کی دو دن نماز

المدد مالک میرے، ہوں ایک مشکل میں پھنسا

پیروی کس کی کروں، ہوں کشمکش میں مبتلا

ہر جماعت کا دعویٰ یہ کے ہیں ہم حق پرست

ایک ہم کو چھوڑ کر باقی ہیں سب باطل پرست

ان میں سے ہر ایک ایسی پیش کرتا ہے دلیل

کوئی کیا سمجھے، سمجھ سکتا نہیں کوئی وکیل

المدد مالک میرے، ہوں ایک مشکل میں پھنسا

پیروی کس کی کروں، ہوں کشمکش میں مبتلا

عالم عالم کو کہے غدار کافر الاماں

کفر کعبہ سے جو اُٹھے تو مسلمانی کہاں

عالموں کی عقل پر ماتم کروں، سر پیٹ لوں

دل میں آتا ہے، گلا اُن عالموں کا گھونٹ دوں

المدد مالک میرے، ہوں ایک مشکل میں پھنسا

پیروی کس کی کروں، ہوں کشمکش میں مبتلا

پوری ملّت آج اس جھگڑے میں ہے بالکل پھنسی

بڑھتی جاتی ہے مسلمانوں کے اندر دشمنی

کیا کرے ناچیز، آخر کیا نہیں، توُ ہی بتا

پیروی کس کی کرے صوفی، ہے اُلجھن میں پھنسا

المدد مالک میرے، ہوں ایک مشکل میں پھنسا

پیروی کس کی کروں، ہوں کشمکش میں مبتلا

( یہ نظم میرے بڑے نانا محترم جناب سید محمد عطاءالحق صوفی رحمۃ اللہ علیہ نے 1970 کے آس پاس کہی تھی۔ آج کہ اس دور میں بالکل صحیح ثابت ہو رہی ہے۔ خالد حسین)

تبصرے بند ہیں۔