شام کا مستقبل، روس اور امریکہ؟

احمدجاوید

شام کے تاریخی شہرتدمر میں خون ریزی جاری تھی ، داعش سےلڑائی کے دوران اس روسی افسر کی ہلاکت کی خبرآرہی تھی جویہاں دہشتگردوں کے ٹھکانوں پرحملوں کی رہنمائی کررہاتھا اورصوبہ حمص میں واقع اس شہر کےتاریخی مقامات کودھماکوں سے اڑایاجارہاتھا ۔عین اسی وقت ماسکو سےخبر آئی کہ روس اور امریکہ چاہتے ہیں کہ شام کا نیا آئین اگست تک تیار کرلیاجائے۔امریکہ کے وزیرخارجہ جان کیری روس کے صدر سے ملاقات کے بعدکہہ رہے تھے کہ دونوں ملک اس بات متفق ہیں کہ شام میں سیاسی حکومت کی منتقلی کے لیے روس کی حکومت اور باغیوں کے درمیان مذاکرات کا عمل تیز کیاجائے۔شام سے روسی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعدامریکی وزیر خارجہ ماسکومیں دس دن کے لیے خیمہ زن ہیں۔جان کیری اوران کے روسی ہم منصب سرگئی لاروف اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ہم نے عبوری سیاسی حکومت اور آئین کے مسودے کی تیاری کے لیے اپنے اہداف مقرر کر لیے ہیں اور ہم اسے اگست تک مکمل کر لیں گے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ شام کے صدر بشارالاسد کے مستقبل کے بارے میں ان کی کیا بات چیت ہوئی ہے؟ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ شام روس اور امریکہ کے اہداف کی بساط اور ان کے مفادات کی جنگ کا میدان ہےاور اس کے مستقبل کا فیصلہ شام کے لوگ نہیں ، یہی دونوں کریں گے۔ مشرق وسطی کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ اس خطہ کے ملکوں کی قسمت پچھلے سوڈیڑھ سو سال سے بیرونی طاقتیں طے کررہی ہیں۔یہاں کے عوام اور حکمراں اپنی قسمت کا فیصلہ خود کر نے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔یہ پہلی جنگ عظیم سے پہلے اور بعد کا زمانہ تھا جب یہاں برطانیہ اور اس کے حلیفوں نے یہ بساط بچھائی تھیں جس پرقتل و غارت کا بازار گرم ہے اور اس خطے کے حکمراں اور عوام شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کئے جارہے ہیں۔افسوس تو یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اپنے گریبان میں منھ ڈالنے کو تیار نہیں ہے۔

مہلک ترین امریکی جنگی آلات شام میں تباہی کے تازیانے برسانےکوایک ایسے ملک کے محاذ پر بالکل تیار کھڑے تھے کہ جہاں گزشتہ ڈھائی برس کی خانہ جنگی میں ایک لاکھ سے زائد شہری ہلاک، بے شمار زخمی اور معذور ہوچکے تھے، بیس لاکھ سے زائد افراد بے گھرتھے اور ان کے پیچھے ترقیاتی ڈھانچے کے ملبے باقی رہ گئے تھے۔اتنے میں اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے روس اس جنگ میں کودپڑا۔امریکہ کا ملک کونشا نہ بناکرکیاگیاحملہ یقیناً عراق پر مسلط کی گئی جنگ سے بھی زیادہ بڑا سانحہ ہوتا لیکن روس نے اس جنگ کا رخ بدل دیا۔ بیجنگ اور ماسکو روزِ اول سے ہی شام میں غیر ملکی سیاسی اور فوجی مداخلت کی مخالفت کررہے تھے، مسئلے کے سفارتی حل کی ضرورت پر زور دے رہے تھے لیکن صرف یہ تنہا ماسکو ہی نہیں جس کے سبب امریکا ہچکچایا۔ عراق اور افغانستان میں لڑی جانے والی جنگوں پر امریکی رائے عامہ خواہ کچھ بھی رہی ہو لیکن شام میں فوجی مہم جوئی کے وہ بھی سخت مخالف تھے، یہاں تک کہ کانگریس جو ایک دہائی قبل عراق پر حملے کی سخت حامی تھی، وہاں بھی شام پر حملے کی حمایت کا فقدان تھا۔ اب امریکہ اور روس میزپرشام کی قسمت طے کررہے ہیں اور باغیوں کے ساتھ صدر اسد کی حکومت کومذاکرات کی میز پر لاچکے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس میں کا میاب ہوںگے اور اگر شام میں سیاسی حکومت آبھی گئی تو کیا وہ ان زخموں کو بھرسکےگی جو اس خانہ جنگی نے دمشق ، حلب، حمص اورشام کے دوسرے شہروقریہ کو دئے ہیں؟شام کی خانہ جنگی کو سمجھنے کے لیے ان ذہنوں اور دماغوں کو سمجھنا ہوگا جنھوں نے اس ملک کوخاک و خون میں تڑپانے کی منصوبہ بندی کی تھی۔

تدمردنیا کے ان شہروں میں سے ایک ہے جس کو یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دے رکھاہے۔ داعش نے شامی فوج کو۲۱مئی ۲۰۱۵ءکو شکست دے کرملک کے وسطی صوبہ حمص پر قبضہ کیا تواس نے ایک فوٹیج جاری کر کے یہ اشارہ دیا کہ وہ یہاں تاریخی عمارتوں اورآثارقدیمہ کو تباہ نہیں کرے گی، صرف بتوں کو مسمار کیاجائے گا لیکن پھر اس کے بعد اس نے ۲۰۰۰ سال قدیم بعل کے مندر اوردوسری تاریخی عمارتوں کو دھماکوں سے اڑادیا۔اس نے محمدبن علی (ابن حنفیہ )اورمشہوربزرگ نذر ابو بہاء الدین کے مزارات کو دھماکوں سے اڑانا ضروری سمجھاجبکہ محمدبن علی کا مزار شہر سے چار کلو میٹر دور پہاڑی علاقے میں اور نذرابوبہاء الدین کا مزار تاریخی آثار سے ۵۰۰گزکے فاصلے پرواقع تھا۔داعش کے قبضے سے قبل اس شہر میں پہلی صدی عیسوی کے گرجاگھر اور رومی تھیٹر کے آثار موجود تھے۔ یہ وہ دیاروامصار ہیں جو حضرت عمر فاروق کے دور میں سلطنت اسلامیہ کا حصہ بنے، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح اور حضرت خالد بن ولید کی قیادت میں ان شہروں کو لشکر اسلام نے فتح کیا ۔سلطان نورالدین زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے عظیم سلاطین کی سلطنتوں کا مرکزی حصے یہی دیارو امصار تھے لیکن اسلام کی ڈیڑھ ہزار سال کی تاریخ میں آثاروقدیمہ کے ساتھ اس وحشت و بربریت کا مظاہرہ کبھی کسی مسلم حکمراں نےنہیں کیا۔اسکی مثال اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ میںاس سے قبل صرف بیسویں صدی کے اوائل میں حجازمقدس پرسعودی حکومت کےقبضہ کے بعددیکھنے ملا تھایااکیسویں صدی کی دہلیزپر طالبان دورحکومت میں افغانستان کے بامیان میں دیکھنے کو ملا اوراب داعش کے ہاتھوں شام میں دیکھنے کو مل رہاہے۔

سوال صرف یہ نہیں ہے کہ ان دہشت گردوں کا فکری قارورہ کن عناصر سے ملتاہے اور ان کی پیٹھ پر کن طاقتوں کا ہاتھ ہے،سوال تو یہ ہے کہ کیا شام میں ایک بار پھرامن لوٹے گا؟کیا وہ لاکھوں افراد جو بے گھر ہوگئے ہیں، انھیں دوبارہ اپنے وطن واپس ہونے کا موقع ملے گا؟ یہاں اب تک دہشت گردی سے لڑنے کے نام پر امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب اور اس کے مغربی حواری جو کوششیں کر رہے تھےاور روس جو کچھ کررہاہے یقیناً اس میں بڑا فرق ہے۔ شام میں اب جنگ بندی کا اثر دکھائی بھی دے رہا ہے۔ اس لڑائی کی ابتداء میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں جو کچھ بھی کہا گیا ہو لیکن ملک کے مختلف حصوں میں تشدد میں کمی آئی ہے۔ان حالات میں امریکہ اور روس، جن کی دشمنی کا میدان کئی برس سے شام تھا‘ اب ایک موقف کے حامی نظرآ رہے ہیں۔برطانوی وزارتِ دفاع میں مشرقِ وسطی کے مشیر لیفٹننٹ جنرل سر سائمن میال کا کہنا ہے کہ یہ بات پریشان کن ہے کہ فیصلے روس کر رہا ہے۔دراصل صدر اسد کی جانب سے روس کا جنگ بندی کا اعلان کرنا اس لیے پریشان کن ہےکہ دنیا کےجس حصے میں فیصلے امریکہ کرتا رہا ہےروس کررہاہےلیکن یہ روس اور امریکہ دونوں کے مفاد میں ہےاوردونوں ہی طاقتوں نے اس معاہدے پر سخت محنت کی ہیں ۔

نام نہاد دولتِ اسلامیہ سے متعلق امریکی پالیسی سے نمٹنے والے محکمہ خارجہ کی سابق سینیئر افسر کیرن وان ہپل کا کہنا ہے کہ ابھی تک روس اور امریکہ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں کیونکہ روس سیاسی عمل کا احترام کرتا ہے اور بمباری کو روکنے اور اس عمل کو سنجیدگی سے لینے میں صدر اسد پر دباؤ ڈالتا ہے۔واشنگٹن صدر اسد کی حکومت اور اس کے محالفین کے درمیان سیاسی مذاکرات میں پیش رفت کو اہم سمجھتا ہےورنہ ترکی اور سعودی عرب اپنے حامی گروپوں کی حمایت میں جنگ میں کودنے کوتیار تھے۔امریکہ نے کھلے عام تسلیم کر لیا ہے کہ فی الحال صدر اسد اقتدار میں رہ سکتے ہیں اور یہ بھی واضح ہے کہ انہوں نے میونخ معاہدے کے لیے اپنے اتحادیوں پر خاصا دباو ڈالا ہے۔جاننے والے جانتے ہیں کہ جب شام اور روس کی حمایت والی اتحادی افواج فروری کے اوائل میں شمالی حلب کی سمت پیش قدمی کر رہی تھیں اس وقت ترکی اور سعودی عرب اپنے حامی گروپوں کی حمایت میں جنگ میں کودنے کی تیاری کر رہے تھے لیکن سفارتی حلقوں میں اب اس اندیشے کا اظہار بھی کیا جارہاہے کہ شام کی تقسیم اس بحران کے حل میں پلان بی کی حیثیت رکھتاہے۔واشنگٹن میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صدر اسد کو اقتدار سے ہٹانے کے بجائے شدت پسندوں کے عملی گڑھ رقہ کی جانب پیش قدمی کرنا امریکہ کی قومی سلامتی کے مفاد میں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ کے پالیسی سازوں کی سوچ بھی یہی ہیں یاوقت کی کوکھ میں کچھ اور کھچڑی پک رہی ہے، دیکھناہے کہ اگست تک یہ اونٹ کیا کروٹ لیتاہے جس کی کوئی کل سیدھی نہیں، عضوعضومیں ٹیڑھ اور پیچیدگی ہی پیچیدگی ہے؟

تبصرے بند ہیں۔