کسی قوم کو تباہ اس کے دشمن نہیں کرتے

احمدجاوید

775662_446239138815762_324030784_o

اس دن میری آنکھیں دیر سے کھلی تھیں کہ رات دیرتک لکھتارہا تھا۔ ’ورلڈ صوفی فورم‘ کے لیے مقالہ لکھنے کا دباؤ تھا،مارچ کے تیسرے ہفتے میں دنیا کے درجنوں ملکوں سے صوفیا اور اسکالرزنئی دہلی بلائے جارہے ہیں ۔اس وقت اس کے موضوع اورمقاصد پر ملک کے میڈیا میں گرمام بحث چل رہی ہے۔اردو کے اخبارات بالخصوص دہلی کے اخباروں اور سوشل میڈیامیں الزامات اور رد الزامات کا سلسلہ دراز ہے،بڑے سنجیدہ قسم کے علماو’مفکرین‘ رائے دے رہے ہیں۔کوئی اس کے پس پشت سیاسی محرکات بتارہا ہے، کسی کواس میںمنتظمین کی ’طالع آزمائی‘ نظرآرہی ہے، کسی کو اس انٹرنیشنل صوفی کانفرنس میں کسی خاص شخصیت کی شرکت پراعتراض ہے ، کسی کا خیال ہے کہ اس تین دن کے اجلاس وتقریبات سے مسلمانوں میں فرقہ بندی کو ہوادی جائے گی اور کسی کا اصرار ہے کہ منتظمین دنیا بھر سے سینکڑوں اسکالرز اورمندوبین کو اکیسویں صدی میں تصوف کی اہمیت اور عالمی بحرانوں کے حل میں تعلیمات صوفیا کی معنویت پر غوروفکر کے لیے بلارہے ہیں، وہ مسلمانوں اورغیرمسلموں سب کو اس پر غوروفکرکی دعوت دیناچاہتے ہیں کہ آج دنیا جن مصیبتوں میں گرفتارہے ان کا حل کیا ہے؟ان کے مقاصد جہالت سے لڑنا، جان لیواغربت و افلاس کو مٹانا، بدتہذیبی ، انتہا پسندی اور تشدد کا خاتمہ ہے ۔وہ انسداد دہشت گردی کے لیے صحیح اسلام کو ایکشن میں لاناچاہتے ہیں، دنیا کے نیک اور شریف لوگوں کو جگانا اور گوشہ عافیت سے نکالنا چاہتے ہیں تا کہ رذیلوں اورشریروں کی جماعتیں دنیا کوجہنم نہ بنائے،ان کی نگاہ میں اسلام دشمن طاقتوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ دنیا پر اسلام کو اس کی صحیح صورت میں پیش کیا جائے اور اللہ کے نیک بندوں کواسی طرح سرگرم عمل کیا جائے جس طرح عہدوسطی میں صوفیائے اسلام نے اسلام اور مسلمانوں کو تباہی سے بچایا بلکہ تاتاریوں کے حملوں سے تہہ وبالا عالم اسلام کو اس کے ملبے پردوبارہ کھڑاکیا، بغدادواصفہان کی راکھ میں دبی چنگاریوں سےان شہروں کو ایسازندہ کیا کہ صدیوں تک دنیاان سے آنکھیںنہیں ملاتی تھی ۔

میں دیرتک جاگتا اور موضوع کے مختلف پہلووں پرغوروفکرکرتارہاتھا، ’ دہشت گردی کا عالمی بحران ، تعلیمات صوفیا اور اسلام ‘کے موضوع پر اپنی تقریرمکمل کر کے لیٹا تو دیرتک کروٹیں بدلتا رہا۔میرے ذہن و دل پرجہاں یہ نکتہ حاوی تھا کہ دہشت گردی کی وباآج اسلام اور مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان بھی پہنچارہی ہے اور ہمیشہ سے زیادہ بدنام بھی کررہی ہے،چھری پرخربوزہ گرے یا خربوزے پر چھری ہرصورت میں خربوزہ کٹ رہاہے وہیں یہ درد بھی بے چین کرتارہا کہ خدایا! ہم کیسے لوگ ہیں، جب وقت قیام آتاہے سجدے میں گرجاتے ہیں ، وقت جب سنجیدگی کاتقاضا کرتا ہے، ہماری عدم سنجیدگی آسمانوں کو چھونے لگتی ہے،عمل کے وقت ہم بحث میں الجھ جاتے ہیں، بحث ،مذاکرے یا مکالمے کی ضرورت ہوتی ہے تو اپنی عملی توانائیوں کو ضائع کرنے لگتے ہیں؟

رات کی بے خوابی سے بوجھل ذہن و دل صبح کو اخبار کی طرف دیکھنے پر آمادہ نہ تھا لیکن پیشے کی مجبوری۔اخباروں کو الٹ پلٹ رہاتھا کہ ایک ہندی اخبار میں تصویروں سے مزین ایک خبرکی سرخی اوراس میں ایک نوجوان کے چہرے نے متوجہ کرلیا۔یہ ایک شناسا چہرہ تھا۔ذہن پر زورڈالنے کی ضرورت نہیں پڑی کہ یہ ان ہی لڑکوں میں سے ایک ہے جوسمن پورہ میں گلی کے نکڑ پرکھڑے رہتے ہیں، آتے جاتے سلام کرتے ہیں، خیریت پوچھیے تو بڑے ادب اور خندہ پیشانی سے جواب دیتے ہیں۔یہ شاید کوئی کوچنگ سینٹر بھی چلاتے ہیں،ان میں سے ایک کوتوآپ اکثر تبلیغی جماعت کی گشت میں دیکھتے ہیں۔ حیرت کی انتہا نہ رہی جب پتہ چلا کہ یہ واقعی وہی ہیں ۔ دل کانپ گیا، روح میں ایک اذیتناک کرب اترگیا، آنکھیں دیر تک خلا میں گھورتی رہیں۔ جی نہیں چاہتاتھا کہ یقین کریں لیکن چارہ کیا تھا، سب کچھ آنکھوں کے سامنے تھا۔خبر یہ تھی کہ کرایے کی ایک کار میں پانچ افراد جگدیوپتھ پر خواجہ پورہ کی طرف سے پھلواری شریف کو جارہے تھے۔ کارایرپورٹ سے آگے ریلوے کراسنگ پار کرکے پھلواری شریف کی طرف بڑھی تو ان میں سے ایک نے شور مچاناشروع کردیا’ بچاؤ، بچاؤ! آتنک وادی اغواکرکے لے جا رہے ہیں‘ اور مقامی آبادی جس کو یہ تحقیق کرنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ شور مچانے والا کون ہے، گاڑی کس کی ہے، اس کے ساتھی کون ہیں، یہ واقعی دہشت گرد ہیں یابے گناہ ؟ گاڑی پر ٹوٹ پڑی، کارکو آگ لگادیا۔ان میں سے دو توپہلی فرصت میںجان بچاکر بھاگ چلے،دو بھیڑ کے ہتھے چڑھ گئے اور ان میںبھی جس کے چہرے پر داڑھی تھی اس پر زیادہ لات گھونسے پڑے۔اب وہ دونوں شدید زخمی ہیں اور اسپتال میں زیرعلاج ہیں ۔وہ تو خیرگزری کہ تھانہ قریب تھا ، پولیس جلدہی موقع پر پہنچ گئی تھی جس نے بڑی جدوجہد کرکے دونوں کی جان بچائی، کار میں لگی ہوئی آگ کو بجھانے اوران دونوں کی جان بچانے میں مقامی تھانے کے داروغہ محمد غلام سرور بھی زخمی ہوگئے۔وہ ان تینوں کو تھانہ لائے۔پتہ چلا کہ جس شخص نے شور مچایا تھاوہ منشیات کا عادی ہے۔ادھر کئی دنوں سے وہ لاپتہ تھا، اس کےساتھی اس دن اسے مرکزاصلاح منشیات لے جارہے تھے تاکہ ایکسپرٹ سے مشورہ کریں۔اب یہ شخص کہہ رہا تھا کہ’ میں بالغ ہوں، اپنی مرضی سے کچھ بھی کرسکتاہوں،یہ لوگ مجھے زبردستی کیوںکہیں لے جارہے تھے؟‘۔ اتنی سی بات پراتنابڑامذاق ، وہ بھی اپنے خونی رشتہ داروں اور ہم نوالہ و ہم پیالہ ساتھیوں کے ساتھ ۔میری آنکھوں میں ایک ساتھ ایسے کئی چہرے پھر گئے جودہشت گردی کے الزام میں جیلوں میں سڑ رہے ہیں اور ان کو پھنسانے میں کسی نہ کسی اپنے کا ہاتھ ہے۔

یہ پڑھے لکھے نوجوان ہیں،شاید کوئی کوچنگ سینٹر چلاتے ہیں، خود کو کسی کالج کا اسٹاف بتاتے ہیں،طلبہ و طالبات کااسکول کالجوں میں داخلہ کرانے کا دھندہ کرتے ہیں۔گلی کے نکڑ پرکھڑے نظر آنے والے یہ لڑکے جوآپ کو دیکھ کر سعادت مندبن جاتے ہیں، وہیں کھڑے کھڑے کیا نہ کرتے ہوں گے۔یہ لڑکے اس قسم کے ہوں گے کس نے سوچا تھا؟ یہ محض اتفاق ہے کہ اسی دن میتھلا یونیورسٹی کے ایک کالج کے پرنسپل نے جو ہمارے دوست ہیں اپنے دکھے ہوئے دل کی سرگزشت لکھ بھجی تھی کہ ایک مسلم لڑکی نے انٹرمیڈیت کے امتحانات کے دوران کس طرح پورے کالج کوہراساں کر رکھا تھااور سینئرپروفیسر سے حفاظتی عملہ کے افسران تک کیوں کہہ رہے تھے کہ انہوں نے اپنی پیتیس پینتیس سال کی سروس میں کبھی کسی لڑکی کو ایسی نہیں پایا اور کسی مسلم لڑکی سے توان کو اس کی توقع ہی نہیں تھی۔انہوں نے لکھا تھا کہ جب اس لڑکی کو خود انہوں نے سمجھایاتو وہ بجائے نادم ہونے کے اس قدربرافروختہ ہوئی کہ امتحان سے نکلنے کے بعد اس نے ان کے واٹس ایپ پرکوئی نازیبا چیزبھیج کر فون کیا۔وہ ان سے پوچھ رہی تھی کہ آپ نے اپنا واٹس ایپ دیکھا اور وہ یہ بھی کہہ رہی تھی کہ پہچان لیجیے میں وہی ہوں ۔انہوں نے لکھاتھا کہ ایک طرف یہ لڑکی تھی اور دوسری طرف یہ واقعہ کہ ایک دن ایک بوڑھا شخص ان کےدفترمیں ایک طالب کے ساتھ آیا اور ان سے کہنے لگا کہ یہ اس کا پوتا ہے۔آپ اس کو معاف کردیں۔ اس نے کل کالج کے کسی پیون کے ساتھ بدتمیزی کی تھی۔اگر اس کے سنسکار ایسے ہی رہے تو یہ جیون میں کیسے سپھل ہوگا؟پھر اس برہمن لڑکے نے اس پیون سے بھی اس کا پاؤں چھوکرمعافی مانگی۔وہ اسی کے ساتھ اسپین کی تاریخ کے اس باب کو یاد کرتے ہیں کہ جس میں ایک کیفے ٹیریا کے ویٹر نے ایک پادری سے کہا تھا کہ اب اسپین سے مسلمانوں کی حکومت ختم ہونے والی ہے ۔ پادری نے حیرت زدہ ہوکر کہا’کیسے ؟‘ ویٹر نے جواب دیا ’ اب کیفے ٹیریا میں مسلم لڑکیاں آنے لگی ہیں اور وہ جس بد تمیزی سے پیش آتی ہیں اس سے مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اسپین سے اسلا م ختم ہونے والا ہے‘۔

بلاشبہ کسی قوم کو تباہ اس کے بیرونی دشمن نہیں کرتے،قوموں پرتباہی اس وقت آتی ہے جب وہ خود اپنے آپ کی دشمن بن جاتی ہیں،پہلے ان کے اخلاق و اطوار میں گراوٹیںآتی ہیں پھردشمنوں کی سازشیں کامیاب اوران کی خواہشیں پوری ہوتی ہیں۔آج ہم اپنی اخلاقی حالت اور اپنی نئی نسلوں کےتباہ کن اعمال سے بے فکرایک دوسرے کو موردالزام ٹھہرانے میں مصروف ہیں،کج بحثیوں میں مشغول و مگن ہیںاور زمانہ قیامت کی چالیں چل رہا ہے۔ مسلمانوں کی نئی نسل کی اخلاقی حالت کی یہ صرف دو مثالیں ہیں ورنہ یہ قوم آج ازشرق تاغرب جن سنگین مسائل سے دوچاراور جن اخلاقی گراوٹوں میں مبتلا ہیں ان کے ہوتے ہوئےاگر ہم چین کی نیندسورہے ہیں، چھوٹے موٹے مفادات کے پیچھے بھاگ رہے ہیں یا کج بحثیوں میں مبتلاہیں تو سمجھیں کہ ہمارے سینوں میں دل نہیں ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔