فتنۂ قادیانیت

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

انیسویں صدی عیسوئی میں بر صغیر ہند میں جن فتنوں نے سر ابھارا اور امت مسلمہ کی اندرونی صفوں میں افتراق و انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی ان میں سے ایک فتنہء قایانیت ہے۔ پوری امت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ خاتم النبیین ہیں۔آپ پر نبوت ختم ہو گئی۔ اس لئے آپ کے بعد کوئی نبی نہ اب تک آیا ہے نہ قیا مت تک آئے گا۔ اس کے بر خلاف قادیانیت نے ایک نئی نبوت کا تصور پیش کر کے امت کے اس متفقہ عقیدہ پر شب خون مارنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تصور پیش کرنے والے صوبہء پنجاب‘ ضلع گورداس پور کی بستی ’قادیان‘ سے تعلق رکھنے والے مرزا غلام احمد(1839۔ 1908) تھے۔

مرزاغلام احمد قادیانی نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن ہی میں پائی۔ طب کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی، جو طبیب تھے۔ دینی علوم ‘ تفسیر وحدیث وغیرہ کا مطالعہ خود کیا۔ تعلیم سے فراغت کے بعدچار سال سیال کوٹ میں محرّری کی۔ اس زمانے میں عیسائی مشنریاں اور آریہ سماجی مبلّغین اسلام اور پیغمبرِ اسلام پر بڑھ بڑھ کر حملے کر رہے تھے اور مسلمان اپنے سیاسی و تہذیبی زوال کی وجہ سے دفاعی پوزیشن میں تھے۔ مرزا صاحب نے دیگر مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ کثرت سے کیا‘ جس کے نتیجے میں انھیں اتنی معلومات حاصل ہو گئیں کہ وہ دیگر مذاہب کے مبلغین سے مناظرے کرنے ،جس میں وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کا بھر پور دفاع کرتے تھے۔اس سلسلے میں ان کا ایک مشہور مناظرہ آریہ سماجی لیڈر ’مرلی دھر‘ کے ساتھ مارچ 1886ء میں ہوا تھا۔ اس مناظرہ کی تفصیل مرزا صاحب کی کتاب ’سرمہء چشم آریہ‘ میں موجودہے۔

مرزا صاحب کی عملی زندگی کو تین مراحل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: پہلا مرحلہ 1879 سے1890ء تک کا ہے۔ اس کا آغاز ’براہینِ احمدیہ ‘ کی تالیف سے ہو تا ہے۔1884ء تک اس کے چار اجزاء منظرِ عام پر آچکے تھے۔ اس مرحلہ میں مرزا صاحب نے دیگر مذاہب و فِرَق کا رد کیا۔ اسلام کی برتری جتائی۔ قرآن کے اعجاز اور حضرت محمد ﷺ کی نبوت کا اثبات کیا۔ کسی نئی نبوت اور وحی کے آنے کا انکار کیا۔ البتہ اس مرحلہ میں ان کی تحریروں میں الہامات‘ منامات ‘ خوارق‘ کشوف‘ ادّعاءات کی کثرت ملتی ہے۔ ان کی خدمت دفاع اسلام کی وجہ سے علماء نے ان کی بعض ان کم زوریوں کو نظر انداز کیا جن کا اظہار ان کی تحریروں میں ہو نے لگا تھا۔ دوسرا مرحلہ 1891ء سے 1900ء تک کا ہے۔ اس مرحلہ میں انھوں نے ’مسیحِ موعود‘ اور‘ مسیحِ منتظر‘ ہو نے کا دعویٰ کیا۔ اس دوران شائع ہونے والی اپنی کتابوں مثلاً فتح اسلام‘ توضیح مرام ‘ اور ازالہء اوہام وغیرہ میں انھوں نے صراحت سے لکھا ہے کہ ان کے اندر ’مسیح‘ کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ احادیث میں جس مسیح کی آمد کا تذکرہ ہے وہ انہی کی ذات ہے۔ تیسرا مرحلہ1901ء سے 1908ء تک کا ہے۔ اس مرحلہ میں انھوں نے اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اپنے رسالے’حقیقتہ الوحی‘ (1901ء) میں لکھا کہ وہ صاحبِ شریعت مستقل نبی ہیں۔ صاحبِ شریعت ہونے کے لئے ضروری نہیں کہ اس کے تمام احکام نئے ہوں۔ دعویء نبوت کی متعدد تصریحات مرزا صاحب کی کتاب ’براہین احمدیہ جلد پنجم (1905ء) اور دیگر تصانیف میں موجود ہیں۔

مرزا غلام احمد کی وفات (1908ء) کے بعد حکیم نورالدین بھیروی (پ1841ء) خلیفہء اول بنائے گئے۔ ان کا زمانہء خلافت چھ سال ہے۔1914ء میں ان کی وفات کے بعد قادیانیت دو گروہوں میں بٹ گئی۔ ایک قادیانی جماعت، جس کی سربراہی مرزا صاحب کے صاحب زادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد ( م1965ء) نے کی۔ یہ جماعت مرزا غلام احمد کی نبوت کی قائل ہے۔ دوسرے لاہوری جماعت، جس کے سربراہ محمد علی لاہوری(م1951ء) مقرر ہوئے۔ یہ جماعت مرزا صاحب کو مسیحِ امت‘ مسیح موعود‘ مجدّدِاسلام ‘اور مہدیء منتظر مانتی ہے،نبی نہیں مانتی۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ مرزا غلام احمد کی جانب نبوت کے جو دعوے منسوب ہیں وہ تعبیرات و مجازات کے قبیل سے ہیں۔

ختمِ نبوت امت کا متفقہ عقیدہ ہے، اس لئے فتنہء قادیانیت کے سرابھارتے ہی علماءکرام نے اس کا نوٹس لیا اور ابتداء ہی میں اس کی سرکوبی کی کوشش کی ۔ چناں چہ اپریل 1918ء میں ایک استفتاء پر ہندستان کے تمام قابلِ ذکر دینی مراکز اور اداروں کے علماء نے قادیانیوں کی تکفیر کا فتویٰ دیا۔ فروری 1935ء میں بہاول پور کی عدالت نے قادیانیت کو کافر اور خارج از اسلام فرقہ قرار دیتے ہوئے ایک نکاح کو فسخ کردیا جس میں شوہر قادیانی ہو گیا تھا۔ جنوری 1953ء میں پاکستان کی تمام دینی جماعتوں اور تنظیموں کے 33 سربراہان نے کراچی میں جمع ہو کر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ حکومت نے اس وقت علماء کا یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا اور ان پر مظالم ڈھائے۔ اسی مناسبت سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودوی (م 1979ء) کو پھانسی کی سزا دینے کا فیصلہ کیا ،جسے بعد میں چودہ سال قید با مشقت میں تبد یل کردیا گیا۔اپریل 1974ء میں رابطہء عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے تحت منعقدہ ایک کانفرنس میں پوری دنیا کی 144 دینی تنظیموں اور جماعتوں کے نمائندے شریک ہوئے اور اس میں قادیانیوں کی تکفیر کی متفقہ قرار داد منظور کی۔ بالآخرستمبر1974ء کو پاکستان اسمبلی نے اپنے متفقہ فیصلے میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔

قادیانیت کے علمی رد کے سلسلہ میں بھی علمائے اسلام نے اہم خدمت انجام دی ہے۔ ردّ قادیانیت کے لٹریچر میں مولاناسید ابو الاعلیٰ مودودی کی ’قادیانی مسئلہ‘ ،مولانا سید ابوالحسن علی ندوی(1999ء) کی ’قادیانیت‘ مولانا الیاس بر نی کی’ قادیانی مذہب‘ اور مولانا منظور احمد چیونٹی کی ’ردّ قادیانیت‘ خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔