اوس ٹپکتی ہے یوں صبح کو شاخوں سے

عتیق انظر

اوس ٹپکتی ہے یوں صبح کو شاخوں سے
نیر گرے جیسے برہن کی پلکوں سے

بارش کی بوندیں یوں چھم چھم کرتی ہیں
جیسے پائل باجے اس کے قدموں سے

کالی بدلی لہرا کے تڑپاتی ہے
کتنی ملتی ہے وہ تیری زلفوں سے

وہ بھی شاید چھپ کر باغ میں بیٹھا ہے
ایسی خوشبو کب آتی تھی پھولوں سے

میری آنکھوں میں اک سپنا بستا ہے
اِس سپنے کا رشتہ ہے ان آنکھوں سے

کون جگائے صبح مجھے ویرانے میں
جگ جاتا ہوں چڑیوں کی آوازوں سے

 

خوف نہیں ہے کچھ مٹی کے بستر کا
دور مگر ہو جاؤں گا سب رشتوں سے

تبصرے بند ہیں۔