مری زمیں سے جدا اپنے آسماں سے الگ

عتیق انظر

مری زمیں سے جدا اپنے آسماں سے الگ
بھٹک رہا ہے کہاں چاند سائباں سے الگ

کبھی کسی کے فریب وفا میں مت آنا
کہ لوگ ہوتے ہیں دل سے جدا زباں سے الگ

میں اختلاف کے انجام سے بھی واقف ہوں
مرا بیان ہے پھر بھی ترے بیاں سے الگ

ترے وجود میں میں ہر جگہ نمایاں ہوں
کرے گا مجھ کو تو آخر کہاں کہاں سے الگ

چلو وہیں سے کریں ابتدا رفاقت کی
ہمیں ستاروں نے لڑ کر کیا جہاں سے الگ

خبر نہیں ہے نتیجے کی اس پرندے کو
ہوا کی شہ پہ اڑا ہے جو کارواں سے الگ

تبصرے بند ہیں۔