مروت میں نہ بولا کچھ کسی سے

عتیق انظر

مروت میں نہ بولا کچھ کسی سے

میں ہنس کر کھا گیا دھوکہ سبھی سے

 

تعلق میں ادا کاری ہے لازم

وفا بے حیثیت ہے سادگی سے

 

جسے چاہا اسے بے لوث چاہا

غرض رکھی نہیں کچھ دوستی سے

 

ہوس والے قطاروں میں کھڑے تھے

میں واپس آ گیا اس گلی سے

 

مجھے زنجیر پہنا دی اسی نے

جو خوش تھا کل مری آوارگی سے

 

سکوں سےتھا بہت جب بے خبر تھا

پریشاں ہوں بہت اب آگہی سے

 

مرے شہر غزل میں آکے دیکھو

فلک ہے پست میری شاعری سے

 

مرے اشعار میں معنی ہیں پھر بھی

ستائش کی نہیں خواہش کسی سے

 

مصاحب شاہ کا میں کیا بنوں گا

قصیدہ دور رکھا شاعری سے

 

پلک جھپکا کے میں پھر جی اٹھوں گا

مرے گی موت اک دن زندگی سے

 

]تمھیں دنیا سمجھ بیٹھے گی مجرم

بچو انظؔر زیادہ خامشی سے

تبصرے بند ہیں۔