آ دیکھ جا کہ آنکھوں میں آنسو نہیں کوئی

عتیق انظر

آ دیکھ جا کہ آنکھوں میں آنسو نہیں کوئی
زندہ ہوں اور جان پہ قابو نہیں کوئی

تجھ سے بہت ہیں اور بھی لیکن یہ عہد ہے
جب تو نہیں تو رونق پہلو نہیں کوئی

چلتا ہوں گرتا پڑتا میں جیون کی راہ میں
کیا دن ہیں میرے کاندھے پہ بازو نہیں کوئی

آجاؤ اپنے گھ ر میں رہو جانتے ہو تم
یہ دل غزل کا گاؤں ہے ٹاپو نہیں کوئی

یہ کیا کہ تم تو پیکر حیرت ہی بن گئے
یہ تو غزل کے شعر ہیں جادو نہیں کوئی

اپنے بھی اور غیر بھی جب سب ہوں بے وفا
پھر کس طرح جیؤں گا میں اردو نہیں کوئی

کیسے تری بہار سے نا آشنا رہوں
دنیا تجھے میں چھوڑ دوں سادھو نہیں کوئی

یہ کیا ہوا کے رخ پہ چلے دل کے باغ سے
تم آدمی ہو پھول کی خوشبو نہیں کوئی

سارے جہاں پہ کالے پرندے کا راج ہے
لیکن کسی بھی شہر میں جگنو نہیں کوئی

تبصرے بند ہیں۔