بچوں کی تعلیم و تربیت ایک اہم فریضہ

مولانا انيس احمد مدنى

والدین کے پاس بچہ قدر ت کی ایک اہم ترین امانت ہے، جس کا دل بالکل صاف شفاف اور ہرطرح کے اثرات سے خالی ہوتاہے، وہ ہرطرح کے نقش کو قبول کرنے اور ہر طرح کی حرکات و سکنات اور عادات کو اختیار کرنے کا پورا پورا اہل ہوتاہے۔ اگر اسے خیرو بھلائی کا عادی بنایاجائے اور بہترین تعلیم و تربیت سے ہمکنار کیاجائے تو وہ فرشتہ صفت ولی بن سکتاہے اور اگر اسے نظرانداز کیاجائے اور جانوروں کی طرح صرف جسمانی غذا دینے پر اکتفا کیاجائے تو وہ بہیمانہ صفات کا حامل اور سماج کے لئے ناسور بن کر سامنے آتاہے۔

اس گوہر نایاب کی تعلیم و تربیت والدین کی اہم ترین ذمہ داری ہے، جس میں کسی بھی نوع کی کوتاہی پر والدین سے بازپرس ہوگی۔ ارشاد رسول ﷺ ہے:”الرجل راع في أھلہ ومسؤول عن رعیتہ“(متفق علیہ) آدمی اپنے اہل و عیال کا نگراں ہے اور اس سے اس کے اہل و عیال کے متعلق پوچھا جائے گا۔

ارشاد ربانی ہے:”یایھا الذین آمنوا قوا أنفسکم وأھلیکم نارا وقودھا الناس والحجارة“[التحریم:66] اے لوگوجو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس عظیم ترین آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھرہوں گے۔ حضرت علی بن ابی طالبؓ نے ”قوا أنفسکم وأھلیکم“ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایاکہ ”اس کی شکل یہ ہے کہ خود بھی اور اپنے گھروالوں کو بھی نیکیاں سکھاؤ۔“[مستدرک الحاکم 4/494]

بچوں کی اصلاح اور انھیں خیرو بھلائی کاعادی بنانے کے لئے مسلسل نگرانی اور جدوجہد کی ضرورت ہے ، بچہ قرب و جوار کے ماحول سے بھی متاثر ہوتاہے، لہٰذا والدین کو اس کی حرکات و سکنات پر بھرپور نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس نے کہیں کوئی غلط عادت تو نہیں سیکھ لی ہے ، جس طرح کسان اپنی فصلوں پر مسلسل نگاہ رکھتاہے اور اس میں اگ آنے والے خودروپودوں اور گھاس کو نکال کر اسے صاف و شفاف رکھتاہے۔

اپنے بچہ کو دنیا و آخرت کی سعادت سے ہمکنار کرنے کے لئے والدین کو بچہ کی جسمانی، علمی و فکری، اخلاقی و دینی، ہرپہلو سے توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس سے عہدہ بر آ ہونے کے لئے درج ذیل پہلوؤں کو سامنے رکھنا ہوگا:

1- بچہ جب بولنے لگے تو اسے ’کلمہء توحید‘ کی تلقین کرے اور یہ ذہن نشین کرے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے اور اس کی باتوں کو سن رہا ہے اور جب روانی کے ساتھ بولنے لگے تو سورة الاخلاص اور سورة الکافرون از بر کرادے اور اس آیت توحید کو ذہن نشین کرادے”قل الحمد للہ الذین لم یتخذ ولدا ولم یکن لہ شریک فی الملک ولم یکن لہ ولی من الذل وکبرہ تکبیرا“[الاسراء:17/111] کہہ دیجئے تمام تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے نہ تو کسی کو بیٹا بنایا اور نہ ہی اقتدار میں کوئی اس کاشریک ہے اور نہ ہی ذلت کے وقت اس کا مددگار ہے اور اس کی خوب خوب بڑائی بیان کر۔

2- بچہ کی تعلیم کا آغاز قرآن مجید کی تعلیم سے کرنا شعائر دین میں داخل ہے ، جس پر ہرزمانہ میں امت کا عمل رہاہے۔ ارشاد نبوی ہے :”اپنی اولاد کو تین آداب سے آراستہ کرو؛ اپنے نبی اور آل بیت کی محبت اور تلاوت قرآن ، کیونکہ حاملین قرآن عرش الٰہی کے سایہ میں انبیاءکرام اور اولیاءکے ہمراہ اس روز ہوںگے جس روز عرش کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔[طبرانی بسند ضعیف]

امام شافعیؒ نے سات سال کی عمر میں قرآن حفظ کرلیاتھا[طبقات الحفاظ، السیوطی/154] اور سہل بن عبداللہ تسترینے چھ سال کی عمرمیں[الاحیاء3/73]اور ابن سینا نے دس سال کی عمر میں [وفیات الاعیان] قرآن پر دسترس حاصل کرلی تھی۔

3- بچہ جب سات سال کا ہوجائے تو اسے نماز کی تلقین کرنا اور اپنے ہمراہ اسے مسجد لے جانا اور دس سال پر نماز کی عدم ادائیگی پر مارنا نبی اکرم ﷺ کا حکم ہے۔ نیز اسی عمر میں اسے اذان کی تعلیم دینا اور وضو کا طریقہ سکھلانا صحابہ کرام کا عمل رہاہے۔

4- بچہ جب ممیز ہوجائے تو اسے مختلف النوع مجلسوں میں اپنے ہمراہ لے جانا تاکہ وہ شرم و حیاءسے عاری ہوکر بڑوں کا سامنا کرسکے۔ مختلف اجتماعی امور میں ایک دووسرے کا تعاون کرسکے اور ملاقات کے آداب سے واقف ہوسکے۔

5- تمیز وادراک کی عمر میں بچے کو پڑوسیوں کے حقوق، گھروں میں داخلے کے آداب، کھانے کے آداب، بال اور لباس کے آداب سے آشنا کرنا، اخلاق حسنہ جیسے صداقت، رازوں کی پاسداری، امانت و دیانت کا اسے عادی بنایا جائے۔

6- ایک باپ اپنے بچہ کو جو بہترین ہدیہ دے سکتاہے وہ عمدہ ادب ہے۔ ارشاد نبوی ہے: ”کوئی باپ اپنے لڑکے کو عمدہ ادب سے بہتر کوئی اور تحفہ نہیں دے سکتا۔“ اسی لئے علی بن المدینیؒ کہتے تھے:”باپ کا اپنی اولاد کوادب کی میراث دینا، مال کی میراث سے بہترہے کیونکہ ادب انھیں مال وجاہ اور دوستوں کی محبت عطا کرے گا اور ان کے لئے دنیا وآخرت کی بھلائی کو جمع کرے گا۔“[تنبیہ المفترین ، الشعرانی/41]

7- بچوں کی جسمانی نشوونما کا بھر پور خیال رکھنا بھی از حد ضروری ہے۔ تیراکی، تیراندازی اور گھوڑسواری سیکھنا بچوں کا حق ہے ۔ خالد بن الولیدؓ کہتے ہیں:”امرنا ان نعلم اولادنا الرمی والقرآن“[الطبرانی] ہمیں اپنے بچوں کو تیر اندازی اور قرآن کی تعلیم دینے کا حکم دیاگیا۔ عمرفاروقؓ کہتے ہیں:”اپنی اولاد کو تیراکی اور تیراندازی کا فن سکھاؤ اور اس بات کاکہ وہ گھوڑوں پر کود کر سوار ہوں۔“ نبی اکرم ﷺ بچوں کے درمیان کھیل کود کا مقابلہ اپنی نگرانی میں کراتے تھے۔ امام حسن اور حسین آپ کے سامنے کھیلتے تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ مسجد میں حبشیوں کے ایک کھیل کا مشاہدہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ کیاتھا۔

8- بچوں کی صحت پر توجہ دینا بھی والدین کی ذمہ داری ہے، اس ضمن میں ہمیں انھیں کھیل کے اوقات میں کھیل کود، مسواک، نظافت، ناخون کو تراشنے، کھانے پینے میں سنت نبویہ کا التزام کرنے، دائیں پہلو کے بل لیٹنے ، عشاءکے بعد فوراًسونے اور فجر سے پہلے اٹھنے کا عادی بنا نا چاہئے اور اگربچہ بیمار پڑجائے تو اس کے علاج میں جلدی کرنا نبی اکرم ﷺ کا طریقہ رہاہے۔

9- سب سے آخری اور اہم ترین چیز بچوں کی تعلیم ہے۔ بچپن میں تعلیم حاصل کرنا بچوں کا حق ہے۔ اس عمر میں انھیں معاش کی تلاش میں لگانا ناپسندیدہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو علم انسان اپنی کم سنی میں سیکھتاہے وہ دلوں میں اس طرح ثبت ہوجاتاہے جیسے پتھر پر کندہ کئے گئے احکام اور جوبڑے ہونے کے بعد علم حاصل کیاجاتاہے وہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی پانی پر لکھے۔ اس بابت نفطویہ کے اشعار ملاحظہ ہوں:

أرانی نسیت ما تعلمت فی الکبر

ولست بناس ما تعلمت فی الصغر

وما العلم إلا بالتعلم فی الصبا

وما الحکم الا بالتحکم فی الکبر

وما العلم بعد الشیب الا تعسف

غذا کل قلب المرءوالسمع والبصر

ولو فلق القلب المعلم فی الصبا

لابصر فیہ العلم کالنقش فی الحجر

بچوں کی تعلیم کے ضمن میں نیک مدرس اور اچھے مدرسہ کا انتخاب انتہائی اہم مرحلہ ہے۔ عصرحاضرمیں اہل کلیسا نے مسلمانوں کے دین و ایمان کا شکار کرنے اور کم از کم انھیں بے دین بنانے کے لئے مشرق و مغرب میں نرسری اسکولوں کا ایک جال بچھارکھاہے اور ایک حد تک انھیں اس میں کامیابی بھی مل رہی ہے۔ چنانچہ تنصیری مدارس کے فارغ کتنے ہی مسلم طلبہ ایمان واخلاق سے عاری اور بڑی حد تک مذہب سے دور بلکہ اس کے استہزاء واستخفاف پر آمادہ نظرآتے ہیں۔

ان مدارس میں اپنے بچوں کو داخل کرانے والوں کا جرم ان لوگوں کے جرم سے کم تر نہیں جومفلسی کے اندیشہ سے اپنے بچوں کو قتل کردیا کرتے تھے، کیونکہ یہ ادارے عموماً مسلم بچوں کو ذہنی ارتداد تک پہنچا دیتے ہیں۔ شیخ محمد الخضرحسین جامعہ از ہر کے سابق شیخ کہتے ہیں کہ جب میں دمشق میں مقیم تھا تو فوج کا ایک اہم عہدے دار دمشق کے مدرسہ ”التھذیب الاسلامی“ میں اپنے لڑکے کو لے کر آیا اور اس نے بتایاکہ انھوں نے اپنے بچہ کا داخلہ ایک عیسائی ادارہ میں کرایاتھا تو ان لوگوں نے اس کے عقیدہ کو اس قدر کج کردیا کہ یہ بچہ مجھے اور اپنی والدہ کو نصرانیت کی دعوت دینے لگاہے۔ پھر بڑے دکھ ودرد سے اس نے مدرسہ کے ذمہ دار سے کہا کہ وہ اس بچہ کے دل سے نصرانیت کے آثار کو نکال دیں اور اسلام کے محاسن و کمالات کو اس طرح اسے سنائیں کہ وہ اپنے نفس کا تزکیہ کرلے۔

بچے میں جب جنسی شعور پیدا ہونے لگے تو اسے والدین کے کمرہ میں داخلہ کے آداب، غض بصر کی اہمیت، ان کے بستر کو علاحدہ کرنے کی سنت کی تعلیم دی جائے اور اس مرحلہ میں ”سورہ نور“ کے احکام ومسائل اسے ازبرکرادئے جائیں۔ نیز اس کی شادی میں جلدی کی جائے۔ والدین اگران امور کا پاس و لحاظ رکھیں تو بچہ دنیا و آخرت دونوں میں اس کے لئے سعادت و مسرت اور اجر وثواب کا باعث ہوگا اور ان امور سے غفلت بچہ کو اس مقام پر پہنچا دے گی کہ وہ اپنے والد کو مخاطب کرکے کہیں یوں نہ کہہ دے۔

”یا أبت انک عققتنی صغیرا فعققتک کبیرا واضعتنی ولیدا فاضعتک شیخا“ اے میرے ابوجان! آپ نے بچپن میں مجھے اپنی تربیت و شفقت سے دور رکھا تو آپ کے بڑھاپے میں، میں نے آپ کو دور رکھا ہے اور آپ نے بچپن میں مجھے ضائع کردیاتو بڑھاپے کی حالت میں، میں نے آپ کو ضائع کردیاہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ہمیں اپنی اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت اور اس فریضہ کو بحسن و خوبی انجام دینے کی توفیق بخشے۔

تبصرے بند ہیں۔