شام کی موجودہ صورتحال

رضی الہندی

تاریخ عالم کے گذشتہ دو دسک مسلمانوں کے لئے بڑے بھیانک ثابت ہوئے ہیں اور موجودہ دہائی بھی خون کے آنسو رلا رہی ہے۔ انڈیا میں بابری مسجد کے انہدام کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے لہو سے ہولیاں کھیلی گئی اور پھر افغانستان کی جنگ کا آغاز ہوتا ہے اور ایک بہانہ سے امریکہ اس اسلامی ملک کو  جو کہ اپنے اسلام کے نظام کے نفاذ کے ساتھ امن کا گہوارہ بن چکا تھا۔ اس پر دھشت گردوں کو  ٹریننگ دینے اور آتنک کا اڈہ کہہ کر چڑھ دوڑا اور پانچ وقت کے سیدھے سادھے لوگوں کو کچل دیا اور اس کا فائدہ اسکو یہ ملا کہ یہی افغانستان جوکہ روس کو دھول چٹا چکا تھا اور شانتی سے گذر رہا تھا اور اپنی غربت کے ساتھ جدید حرب وضرب اور جنگی آلات سے لیس نہ تھا۔ پیٹ کر اپنی رعونت کا اعلان کردیا کہ روس نہیں اب دنیا کی سپرپاور ہم ہیں کیونکہ روس جنہیں زیر نہ کر سکا ھم نے اسے ٹھکانے لگا دیا ہے اور پوری دنیا اسکو تسلیم کر لیتی ہے پھر اسکے بعد وہی الزام ایک نئے انداز میں عراق پر چسپاں کر کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ پھر تاراج کا راجکر بدلا اور اسلامی ممالک میں انقلابی نام کے ساتھ مختلف تحریکوں نے جنم لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس جہاں کی رونق بڑھا رہے ممالک لیبیا، تیونس، یمن اور شام لقمہ تر بن گئے اور فلسطین تو ابتک رہ رہ کر سسکیاں بھرتا ہے۔

دنیاوی خطہ پر شام اس وقت مسخ ستم بن رہا ہے اسی کے ساتھ انڈیا میں فسادات اور برما میں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی اور ان پر تشدّد کے وہ پہاڑ توڑے گئے کہ لوگ پناہگاہ کی تلاش کرنے لگے اور ہجرت کرکے اطراف واکناف پہنچے لیکن لاحاصل کچھ پناہ پانے میں کامیاب تو کچھ کو اسی سمت پھر دھکیل دیا گیا۔

شام سے بار بار خبریں آرہی ہیں سوشل میڈیا اور دوسرے ذرائع سے کہ وہاں روز قتل وغارت گری کا بازار گرم کیا جا رہا ہے  وہی میڈیا جو کل رات کو چھوٹی چھوٹی خبروں کو موضوع بناکر بحث کرتی تھی آج خاموش ہو چکی ہے لیکن اتنا فائدہ اس سے دنیا کو ملا کہ انسانی حقوق کمیشن کی بنیاد پڑ گئی اور یہ بھی ایک چھلاوا سے زیادہ کچھ نہیں ثابت ہوئی کہ شام کے اوپر آج جنگی بندی کے اعلان کے بعد بھی وہاں پر روس بم دھماکے تو اردگان فوج کشی اور اسد گن مشینیں نہتوں پر چل وا رہا اور یہ کمیشن تماشائی بنا ہوا ہے۔

مغربی ممالک امن کے قیام کے دعویدار بنتے ہیں اور خصوصاً امریکہ خود کو اس کا رہنما بتلاتا ہے اسی کا سب سے زیادہ ہاتھ اسی کا کھل کر سامنے آتا ہے اور روس جوکہ مساوات انسانی کی  طرح کا امین کہلواتا ہے اسکا کیا رول آج ہے عالمی قیام امن وامان کے لئے بنائی گئی اقوامِ متحدہ کی قرارداد کو ہی روند کر اور نہتے شامی عوام پر بم برسائے جا رہا ایک طرح سے آپ غور کریں تو آپ پاتے ہیں۔

روس اور ایران شام کے حکمران خاندان کی پشت پر کھڑے ہیں۔ شام میں روس کے اثر و رسوخ پر امریکہ کو تشویش ضرور ہے لیکن دونوں ممالک ایک دوسرے سے عدم تصادم کی پالیسی پر عمل پیرا رہے ہیں۔ اس حوالے سے دونوں نے فضائی نقل و حرکت کے لئے معلومات کے تبادلے کا معاہدہ کر رکھا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ فضا میں ایک دوسرے کے ہدف کو نشانہ بنانے سے بچا جا سکے تاکہ حادثاتی طور پر کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔ اب ریاستی دفاعی تنصیبات پر امریکی حملے کے بعد روس نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ اب اس معاہدے کا پابند نہیں رہا لیکن سوال یہ ہے کہ دونوں ملک اگر اس طرح کا معاہدہ کر سکتے تھے تو امن کے لئے قائدانہ کردار ادا کرنے سے کیوں گریزاں رہے؟ امریکہ اپنے حمایت یافتہ باغیوں یا حزب اختلاف اور روس اپنی حمایت یافتہ حکومت کو امن کے لئے بیچ کی راہ نکالنے پر آمادہ کیوں نہ کر سکا؟ کیا اس سے یہ نہ سمجھا جائے  کہ دونوں طاقتیں مقبوضہ علاقے کے حصے بخرے کرنے اور معاشی اثاثوں کی بندر بانٹ کے درپے ہیں؟ پس پردہ ایجنڈا چاہے کچھ بھی ہو مگر یہ بات واضح ہے کہ دونوں جارح عالمی طاقتیں مشرق وسطیٰ میں امن نہیں چاہتیں بلکہ اپنا تسلط مستحکم بنانا چاہتی ہیں۔

اسی کا مظاہرہ آج دنیا کر رہی ہے تمام سیاسی اور انسانی حقوق کمیشنس خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں کیونکہ ان کو اپنی سیاست اور کمیشن بچانی ہے۔ شام انبیاء و رسولوں کا شہر اور ملک رہا ہے اللہ کے جلیل القدر پیغمبروں کا یہاں پر گذر ہوا ہے۔ لیکن آج یہ ظالموں کے اپنے ظلم کا کمال دکھانے کا مرکز بن گیا ہے نوزائیدہ بچے دودھ کی جگہ اپنا خون پی رہے ہیں تو کہیں بموں میزائل حملوں سے تباہ بلڈنگوں کے نیچے دب کر دم توڑ رہے ہیں تو کچھ ساحل سمندر پر جان بحق ہو رہے ھر آدمی تباہ اور منافق وروافض مسکرا رہے ہیں اور اپنے ھمسایہ بھائیوں کی موت اور تباہی پر نازاں وفرحاں اور شادماں ہیں۔

  اللہ ہی دلوں کو موڑنے والا ہے اس سے دعا کریں کہ وہ دشمنانِ اسلام کے قلوب کو حق کی جانب موڑ دے۔ آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔