شبِ برأت:  بخشش وعنایات کی ایک مقدس رات

محمد صدرِعالم قادری مصباحیؔ  

خدائے بزرگ وبرترنے شب برأت کوبڑی فضیلت وبزرگی عطاکی ہے،اللہ تبارک وتعالیٰ شب براء ت میں بے پایاں رحمتیں اوربرکتیں نازل فرماتاہے۔حضوراکرم ،نورمجسم ،سیدعالم ،شافع اُممﷺ نے ارشادفرمایاکہ: خداتبارک وتعالیٰ اس رات میں آسمانِ دنیاکی طرف نزول اجلال فرماتاہے توقبیلۂ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کی بخشش فرمادیتاہے۔شعبان ایک ایسامہینہ ہے جورحمت وبخشش اورنجات ورہائی کامژدۂ عام لے کرہماری نگاہوں کاسرمۂ بصیرت بن کرجگمگاتاہے۔ایسے توہرسال وماہ،ہفتہ ودن،گھنٹہ ومنٹ اورہرلمحہ وساعت خدائے وحدہٗ لاشریک کی بنائی ہوئی ہے۔مگرکچھ ماہ ،دن،گھڑیاں اورلمحے ایسے ہیں جواپنی یادوں ،خصوصیتوں کے سبب اوردِنوں سے ممتازوافضل اوردوسری ساعتوں اورگھڑیوں سے مبارک وبہترہوتے ہیں ۔ رمضان شریف کامہینہ ،شب قدر،عاشورہ کادن،شعبان المعظم کا مہینہ،شب برأت و عرفہ کادن،دسویں ذی الحجہ کی شب،محبوب رب العٰلمین کی ولادت باسعادت کی شب،معراج النبی ﷺ کی مقدس رات،اورعیدین کی راتیں یہ وہ گھڑیاں اوردن وماہ ہیں جوہم گنہگاروں کواللہ تبارک وتعالیٰ نے عطافرماکرہم کواپنی خاص رحمتوں ،عنایتوں اورمہربانیوں سے نوازاہے اوراس لئے تاکہ ہم اِن مبارک اوقات اورلمحات میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں جن میں ہماری توبہ قبول ہوں ،مرادیں مانگیں تومرادیں پوری ہوجائیں ،عبادت وبندگی ،ذکروتلاوت اوردرودشریف کی کثرت سے اپنے خالق ومالک کوراضی کرلیں اوراپنے گناہ معاف کروالیں ،رب کی رحمتوں اوربخشش کے مستحق ہوجائیں ،اوران لمحوں کی قدرومنزلت پہچانیں ۔اسی لئے ان لمحوں اورمبارک دِنوں اورگھڑیوں کی اہمیت کواُجاگرکرتے ہوئے اللہ رب العزت نے اپنے محبوب ،دانائے خفاء وغیوب ،حضورنبی اکرم ﷺ کوخطاب کرتے ہوئے ارشادفرمایا:وذکرھم بایام اللّٰہ(سورۂ ابراہیم،آیت۵) ائے محبوب !آپ مسلمانوں کواللہ کے خاص دنوں کی یاددِلائیں ۔

شعبان کے پانچ حروف کی بہاریں :  سیدالاولیاء،قطب ربانی،محبوب سبحانی ،شہباز لامکانی،غوث الثقلین،حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی حسنی حسینی بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ لفظ ’’شعبان‘‘کے پانچ حروف:’’ش،ع،ب،ا،ن‘‘کے متعلق نقل فرماتے ہیں :ش سے مراد ’’شرف‘‘یعنی بزرگی،ع سے مراد’’عُلوّ‘‘یعنی بلندی،ب سے مراد’’بِر‘‘یعنی احسان وبھلائی ،اسے مراد’’الفت‘‘اورن سے مراد’’نور‘‘ہے تویہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کواس مہینے میں عطافرماتاہے ،یہ وہ مہینہ ہے جس میں نیکیوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ،برکتوں کانزول ہوتاہے،خطائیں مٹادی جاتی ہیں اورگناہوں کاکفارہ اداکیاجاتاہے،اورحضورپاک ﷺ پردرودپاک کی کثرت کی جاتی ہے اوریہ نبی مختارﷺ پردرودبھیجنے کامہینہ ہے۔(غنیہ الطالبین،ج1،ص361)

شعبان المعظم کی فضیلت :  حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :ماہ شعبان المعظم کاچاندنظرآتے ہی صحابۂ کرام علیھم الرضوان تلاوت قرآن پاک میں مشغول ہوجاتے،اپنے اموال کی زکوٰۃ نکالتے تاکہ کمزورومسکین لوگ ماہ رمضان المبارک کے روزوں کے لئے تیاری کرسکیں ،حکام قیدیوں کوطلب کرکے جس پرحد(یعنی سزا)قائم کرناہوتی اس پرحدقائم کرتے ،بقیہ کو آزادکردیتے،تاجراپنے قرضے اداکردیتے ،دوسروں سے اپنے قرضے وصول کرلیتے یوں ماہ رمضان المبارک کاچاندنظرآنے سے قبل ہی اپنے آپ کوفارغ کرلیتے،اوررمضان المبارک کاچاندنظرآتے ہی غسل کرکے اعتکاف میں بیٹھ جاتے۔(غنیۃ الطالبین،ج1،ص:341)

بخشش کامہینہ:  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ شعبان میرامہینہ ہے ۔اوررجب اللہ تعالیٰ کامہینہ ہے اوررمضان میری اُمت کامہینہ ہے۔شعبان گناہ مٹانے والاہے اوررمضان ستھرابنانے والاہے۔(غنیۃ الطالبین،ج 1،ص187)

پیشگیٔ اعمال کامہینہ:  حضورپاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں :شعبان رجب اوررمضان کے مابین ہے۔اکثرلوگ اس سے غافل ہیں ۔اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بندوں کے اعمال اس مہینے میں پیش کئے جاتے ہیں ۔میں چاہتاہوں کہ میرے اعمال اس حال میں پیش کئے جائیں کہ میں روزہ رکھے ہوئے رہوں ۔(غنیۃ الطالبین،ج 1،ص187)

عظمت والا مہینہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:رجب کی فضیلت تمام مہینوں پرایسی ہی ہے جیسے قرآن کی فضیلت تمام آسمانی کتابوں پر۔اورماہ شعبان کی فضیلت دوسرے تمام مہینوں پرایسے ہے جیسے میری فضیلت وبرتری تمام نبیوں پر۔اوررمضان المبارک کی فضیلت تمام مہینوں پراس طرح ہے جس طرح اللہ رب العزت کی تمام مخلوق پر۔(غنیۃ الطالبین،ج 1،ص187)

یعنی بعدرمضان تمام مہینوں سے زیادہ فضیلت وعظمت والاشعبان المعظم کامہینہ ہے جس طرح خداوندقدوس کے بعداس کی تمام مخلوق میں حتیٰ کہ نبیوں میں سب سے فضیلت ورفعت والامیں ہوں ۔

بخشش کی رات:  حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ’’ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کوگم پایا۔تلاش بیسیارکے بعدآپ ؐ جنت البقیع میں پائے گئے توآپ نے فرمایا۔کیاتمہیں یہ خوف تھاکہ اللہ اوراس کارسول تجھ پرزیادتی کریں گے؟ میں نے عرض کیا۔حضور!میں نے خیال کیاکہ شایدآپ بعض ازواج مطہرات ؓ کے پاس چلے گئے ہیں ۔آپؐ نے ارشادفرمایابے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات کوآسمان دنیاپرنزول فرماتاہے۔اوربنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادسے زیادہ گناہگاروں کوبخشتاہے۔(مشکوٰۃ شریف،ص105)

بخشش سے محروم لوگ:    شب براء ت بے حداہم رات ہے،کسی صورت سے بھی اسے غفلت میں نہ گزاراجائے،اس رات خصوصیت کے ساتھ رحمتوں کی چَھماچَھم برسات ہوتی ہے۔اس مبارک شب میں اللہ تبارک وتعالیٰ’’بَنی کلب‘‘کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کوجہنم سے آزادفرماتاہے۔کِتابوں میں لکھاہے:’’قبیلۂ بنی کلب ‘‘قبائل عرب میں سب سے زیادہ بکریاں پالتاتھا۔‘‘آہ ! کچھ بدنصیب ایسے بھی ہیں جن پراس شب براء ت یعنی چھٹکاراپانے کی رات بھی نہ بخشے جانے کی وعید ہے۔حضرت سیدناامام بَیْھَقِی شافعی علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی’’فضائل الاوقات‘‘میں نقل کرتے ہیں کہ: رسول اکرم،نورمجسم ﷺکافرمان عبرت نشان ہے:چھ آدمیوں کی اس رات بھی بخشش نہیں ہوگی:(1)شراب کاعادی(2)ماں باپ کانافرمان(3)زِناکاعادی(4)قطع تعلق کرنے والا(5)تصویربنانے والااور(6)چغل خور۔(فضائل الاوقات-ج 1،ص 130،حدیث27،مکتبۃ المنارۃ-مکۃ المکرمۃ)اسی طرح کاہن،جادوگر،سودخور،تکبرکے ساتھ پائجامہ یاتہبندٹخنوں کے نیچے لٹکانے والے اورکسی مسلمان سے بغض وکینہ رکھنے والے پربھی اس رات مغفرت کی سعادت سے محرومی کی وعیدہے،چنانچہ تمام مسلمانوں کوچاہئے کہ مُتَذَکِّرہ گناہوں میں سے اگرمعاذاللہ کسی گناہ میں ملوث ہوں تووہ بالخصوص اس گناہ سے اوربالعموم ہرگناہ سے شب براء ت کے آنے سے پہلے بلکہ آج اورابھی سچی توبہ کرلیں ،اوراگربندوں کی حق تلفیاں کی ہیں توتوبہ کے ساتھ ساتھ ان کی معافی تلافی کی ترکیب فرمالیں ۔

حضر ت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات ظہورفرماتاہے۔اورمشرک اورکینہ پرورشخص کے سواسب مخلوق کوبخشتاہے۔(مشکوٰۃ ،ص 106)

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایااللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات آسمان دنیاپرنزول فرماتاہے ۔اورمشرک ،کینہ جُو،رشتہ داری توڑنے والے اورزانی عورت کے سواسب مسلمان کوبخشتاہے۔(غنیۃ الطالبین،ج1،ص190)

قبولیت عبادت کی رات:  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی پاک ﷺ نے ارشادفرمایا۔جبریل امین میرے پاس شعبان کی پندرہویں رات آئے اورانہوں نے کہا’’ائے محمدﷺ !آپ آسمان کی طرف دیکھیں ۔میں نے کہا۔’’یہ کونسی رات ہے‘‘۔انہوں نے کہا’’ اس رات میں اللہ تعالیٰ رحمت کے تین سودروازے کھولتاہے اورہراس شخص کوبخشتاہے جوکسی چیزکواللہ کاشریک نہ ٹھہرائے ۔مگرجادوگر،کاہن،شراب ،سوداورزِناکے عادی کونہیں بخشتاتاآں وقتیکہ وہ توبہ کریں ۔پھرجب رات کاچوتھائی حصہ گزرگیاتوجبریل امین آئے اورانہوں نے کہا۔ائے محمدﷺ!آسمان کی طرف دیکھیں ۔تب میں نے جنت کے دروازے کشادہ دیکھے ۔پہلے دروازہ پریہ فرشتہ یہ آوازدے رہاتھا۔خوش نصیبی ہے اس شخص کے لئے جو اس رات میں رکوع کرے۔اوردوسرے دروازے پرایک فرشتہ یہ کہہ رہاتھا۔خوش نصیبی ہے اس شخص کے لئے جو اس رات میں سجدہ کرے۔اورتیسرے دروازے پرایک فرشتہ یہ صدادے رہاتھا۔خوش نصیبی ہے اس شخص کے لئے جو اس رات میں دعامانگے ۔اورچوتھے دروازے پرایک فرشتہ کہ رہاتھا۔خوش خبری ہواس شخص کے لئے جواس رات میں ذکرالٰہی کرے ۔اورپانچویں دروازے پرایک فرشتہ یہ ندادے رہاتھا۔خوش خبری ہے اس شخص کے لئے جواس رات اللہ کے خو ف سے ڈرے۔اورچٹھے دروازے پرایک فرشتہ آوازدے رہاتھا۔خوش خبری ہے اس شخص کے لئے جواس رات میں مسلمان ہے۔اورساتویں دروازہ پرایک فرشتہ کہہ رہاتھا۔کیاکوئی مانگنے والا ہے کہ اس کواس کاسوال عطاکیاجائے۔اورآٹھویں دروازے پرایک فرشتہ کہہ رہاتھا۔کیاکوئی بخشش چاہنے والا ہے کہ اُسے بخش دیاجائے۔میں نے کہا ائے جبرئیل یہ دروازے کب تک کھلے رہتے ہیں ۔انہوں نے فرمایا۔ابتدائے شب سے طلوع فجرتک ۔پھرانہوں نے فرمایا۔ائے محمدﷺ!بے شک اس رات میں بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادجتنے دوزخی آزادکئے جاتے ہیں ۔(غنیۃ الطالبین،ج 1،ص191)

خیروبرکت کی رات:  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔اللہ تعالیٰ چارراتوں میں فجرکی آذان تک بے شماربرکتیں اوررحمتیں اُتارتاہے۔(1)عیدبقرکی رات(2)عیدالفطرکی رات(3)شعبان کی پندرہویں رات”اس رات میں موتیں اوررُوزیاں لکھی جاتی ہیں اوراس میں حج کرنے والوں کولکھاجاتاہے”(4)اورعرفہ کی رات۔(غنیۃ الطالبین،ج1،ص 189)

حصولِ شفاعت کی رات:  مفسرقرآن امام احمدصاویؒ فرماتے ہیں ۔بے شک اللہ تعالیٰ نے اس رات میں اپنے رسول مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کوپوری اُمت کی شفاعت عنایت فرمائی۔اوروہ اس طرح کہ حضورپاک ﷺ نے شعبان کی تیرہویں را ت میں اپنی اُمت کی شفاعت مانگی۔توآپ کواپنی امت کے ایک تہائی حصہ کی شفاعت عطاکی گئی۔پھرآپ نے چودہویں رات میں شفاعت کاسوال کیاتوآپ کواُمت کے دوتہائی حصوں کی شفاعت عطافرمائی گئی۔پھرآپ نے پندرہویں رات میں سوال کیاتوآپ کوساری اُمت کی شفاعت عنایت کی گئی۔مگراس شخص کے حق میں آپ کوشفاعت نہ دی گئی جومست اونٹ کی طرح اللہ تعالیٰ سے مست ہوجائے۔(تفسیرات صاوی،ج4،ص51)

شب بیداری:  حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔شب برأ ت کی بیداری سال بھرکے گناہ مٹاتی ہے۔اورشب جمعہ کی بیداری ہفتہ بھرکے گناہ مٹاتی ہے۔اورلیلۃ القدرکی بیداری عمربھرکے گناہ مٹاتی ہے۔کیوں کہ حدیث شریف میں آیاہے کہ جوشخص عیدکی دورَاتوں اورشعبان کی پندرہویں رات قیام کرے گااس کادل اس دن نہ مرے گا۔جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوں گے۔(مکاشفۃ القلوب،ص301)

شب برأت میں دعا:  حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورپُرنورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا۔پانچ راتوں میں دعاء رَدنہیں کی جاتی۔رجب کی پہلی رات،شعبان کی پندرہویں رات،جمعہ کی رات،عیدالفطرکی رات اورعیدبقرکی رات۔(جامع صغیر للعلّامہ السیوطی)

پندرہ شعبان کاروزہ:  حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔جب شعبان کی پندرہویں رات آئے تواس میں نوافل پڑھواوردن میں روزہ رکھو۔(ابن ماجہ)

زیارت قبور:  احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ شعبان کی پندرہویں رات (یعنی شب برأت)کوحضوراکرم ،نورمجسم ،سیدعالم ﷺ قبرستان میں جاکردعامانگاکرتے تھے۔لہٰذااِس مقدس رات میں اپنے اموات کوفراموش نہیں کرناچاہئے۔بلکہ ان کے لئے دعائے مغفرت ورحمت مانگنی چاہئے اوراُن کے لئے ایصال ثواب اورختم قرآن مجیدکااہتمام کرناچاہئے۔

قبرپرموم بتیاں جلانا:  شب برأ ت میں اسلامی بھائیوں کاقبرستان جاناسنت ہے۔(اسلامی بہنوں کوشرعاً اجازت نہیں )قبروں پرموم بتیاں نہیں جلاسکتے ہاں اگرتلاوت وغیرہ کرناہوتوضرورتاًاُجالاحاصل کرنے کے لئے قبرسے ہٹ کرموم بتی جلاسکتے ہیں اِسی طرح حاضرین کوخوشبوپنچانے کی نیت سے قبرسے ہٹ کراَگربتّیاں جَلانے میں حرج نہیں ۔

نازک فیصلے:پندرہ شعبان المعظم کی رات کتنی نازک ہے! نہ جانے کس کی قسمت میں کیالکھ دیاجائے!بعض اوقات میں بندہ غفلت میں پڑارہ جاتاہے اوراس کے بارے میں کچھ کاکچھ ہوچکاہوتاہے۔’’غنیۃ الطالبین ‘‘میں ہے:بہت سے کفن دھل کرتیاررکھے ہوتے ہیں مگرکفن پہننے والے بازاروں میں گھوم پھررہے ہوتے ہیں ،کافی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی قبریں کُھدی ہوئی تیارہوتی ہیں مگران میں دفن ہونے والے خوشیوں میں مست ہوتے ہیں ،بعض لوگ ہنس رہے ہوتے ہیں حالانکہ ان کی موت کاوقت قریب آچکاہوتاہے۔کئی مکانات کی تعمیرات کاکام پوراہوگیاہوتاہے مگرساتھ ہی ان کے مالِکان کی زندگی کاوقت بھی پوراہوچکاہوتاہے۔

(غنیۃ الطالبین،ج1،ص348)

فائدے کی بات:شب براء ت میں اعمال نامے تبدیل ہوتے ہیں لہٰذاممکن ہوتو14؍شعبان المعظم کوبھی روزہ رکھ لیاجائے تاکہ اعمال نامے کے آخری دن میں بھی روزہ ہو۔14؍شعبان المعظم کوعصرکی نمازباجماعت پڑھ کروہیں نفلی اعتکاف کرلیاجائے اورنمازمغرب کے انتظارکی نیت سے مسجد ہی میں ٹہراجائے تاکہ اعمال نامہ تبدیل ہونے کے آخری لمحات میں مسجدکی حاضری،اعتکاف اورانتظاروغیرہ کاثواب لکھ دیاجائے۔بلکہ زہے نصیب !ساری ہی رات عبادت وریاضت ،تسبیحات وتہلیلات اوراورادووظائف میں گزاری جائے۔

سال بھرجادوسے حفاظت: اگراس رات (یعنی شب براء ت)سات پتے بیری(یعنی بَیرکے درخت)کے پانی میں جوش دیکرجب پانی نہانے کے قابل ہوجائے توغسل کرے ان شاء اللہ العزیزتمام سال جادوکے اثرمحفوظ رہے گا۔(اسلامی زندگی،ص134)

فاتحہ خوانی:  خزانۃ الروایات اورکنزالعبادمیں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے مروی ہے کہ جب عیدیاجمعہ یاعاشورہ کادن یاشب برأت ہوتی ہے تواَموات المسلمین کی روحیں اپنے گھرکے دروازے پرآکھڑی ہوتی ہیں ۔اورکہتی ہیں ،ہے کوئی جوہمیں یادکرے،ہے کوئی جوہم پرترس کھائے،ہے کوئی جوہماری غربت یادکرے۔اس لئے مرحومین کے نا م سے فاتحہ خوانی کاانتظام ضرورکرناچاہئے۔

شب برأ ت کاحلوہ:  شب برأت کی فاتحہ کے لئے حلواضروری نہیں کہ بے غیراس کے فاتحہ اَدانہ ہو۔فاتحہ ہرحلال وطیب چیزپرہوجاتی ہے۔خواہ حلواہویاسوئیاں یاکوئی نمیکن چیزہو۔اورمرحومین کواس کاثواب پہنچتاہے۔لیکن اس حقیقت سے بھی انکارنہیں کیاجاسکتاکہ حلوہ وہ غذاہے جسے رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پسندفرمایا۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم حلوہ اورشہدپسندفرماتے تھے۔(بخاری شریف)اوراس کی فضیلت میں خصوصیت سے حدیث پاک بھی واردہے چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔جوشخص اپنے بھائی کوحلوے کاایک لقمہ کھلائے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن میدان محشرکی تکلیف اس سے دورفرمائے گا۔(طبرانی شریف)انہیں احادیث مبارکہ کی بناء پرمسلمان اس مبارک شب میں رسول اللہ ﷺ کے پسندفرمائے ہوئے حلوہ پرفاتحہ دلاتے ہیں ۔

آتش بازی حرام ہے:  افسوس!آتش بازی کی ناپاک رسم اب مسلمانوں می زورپکڑتی جارہی ہے ۔اس سے مالی نقصان کے علاوہ گاہے گاہے جانی نقصان تک کی نوبت آجاتی ہے ۔آتش بازی کے تعلق سے حضرت مفتی احمدیارخان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ”آتش بازی بنانا،بیچنا،خریدنا،اورخریدوانا،چَلانااورچلوانا سب حرام ہے”۔اس کے لئے بچوں کوپیسے دینابھی حرام ہے۔نابالغ بچوں کواُن کے والدین یاسرپرست اس موقع پرآتش بازی کے لئے پیسے دیتے ہیں ۔ان کوسمجھناچاہئے کہ قیامت کے دن انہیں کی گردن پکڑی جائے گی ۔یہ کس قدرافسوس کا مقام ہے کہ ہم ایسے مبارک مہینے اوراس میں ایک ایسی معززومقدس شب کی عظمتوں کوپامال کرتے ہوئے لہوولہب اورآتش بازی میں مصروف رہ کرضائع کردیتے ہیں جبکہ آتش بازی شاہ نمرودکاعمل مردوداوراس کی ایجادہے،بعض نادان مسلمان اس مقدس رات کاحترام کرناتودورکی بات بلکہ جومسلمان بیمار،بوڑھے یابچے گھروں میں محوآرام یاخشوع وخضوع کے ساتھ رب تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضرہوکرعبادت میں مشغول ہوتے ہیں ،اُنہیں آتش بازی کے ذریعے تکلیف پہنچاتے ہیں اوراُن کی عبادت میں خلل کاسبب بنتے ہیں ۔ اس لئے ہمیں ایسے بابرکت مہینہ اورمتبرک ساعت و لمحات میں آتش بازی ہرگزنہیں کرنی چاہئے بلکہ عبادت وریاضت ،توبہ واستغفار اورتلاوت قرآن کریم کرکے پروردگارعالم جل جلالہ کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

مشعل برادری:   ہمارے ملک ہندوستان میں بھی بعض علاقوں میں یہ رواج ہے کہ شب برأ ت میں لمبی لمبی سوٹیوں کے سروں پرآگ جلاکرقبرستان جاتے ہیں اوراُنہیں گھماتے ہیں ۔اس کے بارے میں محدث علی الاطلاق حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کایہ فتویٰ ملاحظہ فرمائیں ،چنانچہ آپؒ فرماتے ہیں اوربدعت شنیعہ میں سے یہ ہے جوہندوستان کے اکثرشہروں میں لوگوں نے رواج دے رکھاکہ وہ اپنے گھروں کی دیواروں پر(شب برأ ت میں )چراغ جلاتے ہیں ۔اورفخرکے ساتھ آتش بازی چھوڑتے ہیں ۔اس کی کتب صحیحہ معتبرہ میں کوئی اصل نہیں ہے۔بلکہ غیرمعتبرکتابوں میں بھی اس کاذکرتک نہیں اورنہ کوئی ضعیف یاموضوع روایت اس بارے میں مروی ہے اورنہ ہندوستان کے شہروں کے علاوہ دیارعرب یاحرمین شریفین میں یہ رائج ہے۔(ماثبت بہ السنۃ،ص282)

مغرب کے بعدچھ نوافل:معمولات اولیاء کرام رحمھم اللہ تعالیٰ سے ہے کہ مغرب کے فرض وسنت وغیرہ کے بعدچھ رکعت نفل دودورکعت کرکے اداکئے جائیں ۔پہلی دورکعتوں سے پہلے یہ نیت کیجئے:’’یااللہ عزوجل دورکعتوں کی برکت سے مجھے درازیٔ عمربالخیرعطافرما۔‘‘دوسری دورکعتوں میں یہ نیت کیجئے :’’یااللہ عزوجل ان دورکعتوں کی برکت سے بلاؤ ں سے میری حفاظت فرما۔‘‘تیسری دورکعتوں کے لئے یہ نیت کیجئے’’یااللہ عزوجل ان دورکعتوں کی برکت سے مجھے اپنے سواکسی کامحتاج نہ کر۔‘‘ان چھ رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے بعد جوچاہے وہ سورتیں پڑھ سکتے ہیں ،بہتریہ ہے کہ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعدتین تین بارسورۃ الاخلاص پڑھ لیجئے۔ہر دورکعت کے بعداکیس بارقل ھواللّٰہ احدپوری سورت یاایک بارسورۂ یسٰن شریف پڑھئے بلکہ ہو سکے تودونوہی پڑھ لیجئے ۔یہ بھی ہوسکتاہے کہ کوئی ایک اسلامی بھائی بلندآوازسے یسٰن شریف پڑھیں اوردوسرے خاموشی سے خوب کان لگاکرسُنیں ۔اس میں خیال رہے کہ دوسرااس دوران زبان سے یسٰن شریف بلکہ کچھ بھی نہ پڑھے اوریہ مسئلہ خوب یادرکھئے کہ جب قرآن کریم بلندآواز سے پڑھاجائے توجولوگ سننے کے لئے حاضرہیں ان پرفرض عین ہے کہ چپ چاپ خوب کان لگاکرسنیں ۔نیز ہربارسورہ ٔیسٰن شریف کے بعد’’دعائے نصف شعبان بھی پڑھیں ۔

روایت میں آیاہے کہ جوکوئی اس رات میں ایک سورکعت نوافل پڑھے۔اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایک سوفرشتہ بھیجتاہے۔تیس فرشتہ اُسے جنت کی بشارت دیتے ہیں ۔اورتیس فرشتے اس کے لئے عذاب ِ دوزخ سے محفوظ رہنے کی دعامانگتے ہیں ۔اورتیس فرشتے اس سے دنیاکی مصیبتیں دورکرتے ہیں ۔اوردس فرشتے اس سے شیطان کے مکروفریب کو دورکرتے ہیں ۔(تفسیرصاوی،ج1،ص51)

اس مقدس رات میں بزرگان دین سے جونوافل منقول ہیں وہ ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں :

(1) 12؍رکعات اداکریں اورہررکعت میں فاتحہ ایک باراورسورۂ اخلاص دس بارپڑھیں ۔(2)14؍رکعات نوافل اداکرنے کے بعدسورۂ فاتحہ ،سورۂ اخلاص ،سورۂ فلق،سورۂ ناس چودہ چودہ بار،آیت الکرسی ایک باراورسورۂ توبہ کی آخری دوآیتیں ایک بارپڑھیں ۔(3)اگرہوسکے تواس رات میں صلوۃ التسبیح پڑھیں ۔(4)اگرنوافل کی یہ ترتیبیں یادنہ ہوں ،یاان کے ساتھ نوافل اداکرنادشوارہوتوحسب توفیق جس طرح چاہے نوافل اداکرے۔قیام اللیل بہرحال ہوجائے گا۔اورجتنازیادہ عبادت کریں گے اُتناہی زیادہ ثواب ملے گا۔

خدائے وحدہ لاشریک کی بارگاہ میں دعا گوہوں کہ شب برأت کی برکتوں سے ہم سب مسلمانوں کومالامال فرما اورعمل صالح کی توفیق عطافرما۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ تعالی ٰ علیہ وسلم

تبصرے بند ہیں۔