شبِ قدر: فضائل و اعمال

عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

بندوں پر حق تعالی کی نعمتیں بے پناہ ہیں، اس کی نوازشیں بے پایاں اور اس کی عطائیں بے انتہا ہیں، جن کا کوئی حد وشمار نہیں،کوئی غایت ونہایت نہیں ،کوئی حساب و کتاب نہیں۔باری تعالی کے الطاف و عنایات کا سرسری انداز ہ صرف اس فقرے سے لگایا جاسکتا ہے جس سےشیخ سعدیؒ نے اپنی نادرۂ روزگار کتاب ’’گلستان‘‘ کا آغاز فرمایا اور جو صدیوں سے ضرب المثل کے طو رپر استعمال ہورہا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’ہر نفسے کی فرومی رود ممد حیات است و چوں برمی آید مفرح ذات‘‘ یعنی ہر سانس جو اندر جاتی ہے زندگی کا سہارا ہے اور جب باہر آتی ہے تو ذات کو فرحت بخشتی ہے۔ اس کے بعد لکھتے ہیں”پس در ہر نفسے دو نعمت موجود است وبر ہر نعمتے شکرے واجب است”یعنی ہر سانس میں دو نعمتیں موجودہیں اورہرنعمت  پر کم از کم ایک مرتبہ اللہ کا شکر بجا لانا واجب ہے۔

ان ہی گراں قدرانعامات میں ایک قیمتی انعام ہر سال ماہ رمضان کی آمد اور ہر رمضان میں اس عظیم الشان رات کی عبادت ہے جو ہزار مہینوں سے افضل وبرتر ہے۔زیرنظر تحریر کامقصدشب قدر کے فضائل واعمال سے متعلق چند اہم اور ضروری امور کی وضاحت ہے۔

 شب قدراور قرآن مجید:

شب قدر کی قدر ومنزلت کےلیے اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ رب العزت نے ایک مکمل سورت اس سلسلہ میں نازل فرمائی اور اس کی عظمت و اہمیت کو واشگاف انداز میں اجاگر کیا۔سب سے پہلے سورۂ قدر کا مکمل ترجمہ ملاحظہ فرمائیں! ارشاد باری ہے: ’’بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا ہے۔اور آپ کیا سمجھے ہیں کہ شب قدر کیا ہے۔ شب قدر(فضیلت و برکت اور اجر وثواب میں ) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس رات میں فرشتے اور روح الامین اپنے رب کے حکم سے (خیروبرکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔ یہ رات طلوع فجر تک سراسر  سلامتی ہے۔‘‘

اس سورت مبارکہ میں شب قدر کی چار خصوصیتیں ذکر کی گئی ہیں۔ (۱)قرآن مجید کانزول۔(۲) ہزار مہینوں سے زیادہ افضل و برتر۔(۳)جبریل امین سمیت ملائکۂ رحمت کا نزول۔(۴) صبح صادق تک خیر و برکت اور امن و سلامتی کی بارش۔

1)نزول قرآن کی رات:اﷲ تعالیٰ نے شب قدر کی اولین فضیلت یہ بیان فرمائی کہ ہم نےاس رات میں قرآن مجید کو نازل کیا۔ یوں تو قرآن مجید تیئس (23) برس کی مدت میں تھوڑا تھوڑا نازل ہوتا رہا نیز اس کا نزول ربیع الاول میں شروع ہوا اور ذوالحجۃ میں مکمل ہوا؛مگر بہ طور خاص یہاں شب قدر کا ذکر کیوں کیاگیا؟اس حوالہ سے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ’’شب قدر میں قرآن کریم لوح محفوظ سے یکبارگی آسمان دنیا سے بیت العزت میں نازل ہوا جب کہ اس کے نزول کا اندازہ اور لوح محفوظ کے نگہبانوں کو اس کا نسخہ نقل کرکے آسمان دنیا پر پہنچانے کا حکم اسی سال شب برأت(۱۵ شعبان ) میں ہوا۔ گویا قرآن حکیم کا نزول حقیقی ماہ رمضان میں شب قدر کو ہوا اور نزول تقدیری اس سے پہلے شب برأت میں ہوا اور سینۂ مصطفی ﷺ پر نزول قرآن کا آغاز ربیع الاول میں پیر کے دن ہوا اور تقریباً تیئس(23) سال میں مکمل ہوا۔ (تفسیر عزیزی)

2)اس رات کی ایک فضیلت یہ بھی ذکر کی گئی کہ یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے یعنی آج کل موسم گرما میں تقریباً 7 گھنٹے کی رات ہوتی ہے،اگر کوئی ان ساعات کو غنیمت جان کر عبادت وریاضت میں گزاردے تو اس کے حق میں وہ ایک رات 83سال چار ماہ سےافضل و بہتر ثابت ہوگی۔ شب قدر کے ہزار مہینوں سے مراد ہزار مہینے کی معینہ مدت نہیں؛بل کہ اہل عرب کا قاعدہ یہ تھا کہ جب انہیں بہت زیادہ مقدر یا مدت کا اظہار کرنا مقصود ہوتا تو ہزار یعنی الف کا لفظ استعمال کرتے تھے  اور ان کے ہاں گنتی کا سب بڑا عدد الف یعنی ہزار ہی تھا،اس لیے اس سے مراد ایک طویل زمانہ ہے۔ اس وضاحت کے بعد اس آیت کے دو مطلب بیان کیے جاتے ہیں: بنی نوع انسان کی خیر و بھلائی کا کام جتنا اس ایک رات میں ہوا یعنی قرآن نازل ہوا اتنا کام کسی طویل دور انسانی میں نہیں ہوا ، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس ایک رات کی عبادت ایک طویل مدت کی عبادت سے بہتر ہے اور اس کا مطلب تائید درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے ـ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص لیلتہ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے قیام کرے اس کے سابقہ گناہ معاف کردیے جائیں گئے ـ (بخاری ، کتاب الایمان،باب قیام لیلۃ القدر من الایمان )

3) اس رات اﷲ کے فرشتے خیر وبرکت لے کر زمین پر نازل ہوتے ہیں۔اور بندگانِ خدا سے مصافحہ کرتے ہیں۔ امام رازی علیہ الرحمہ فرشتوں کے زمین پر اترنے کے حوالے سے تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں کہ جب ﷲ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں تو فرشتوں نے کہا تھا کہ یہ مخلوق زمین پر فساد پھیلائے گی اور خون ریزی کرے گی۔چناں چہ اس موقع پراﷲ تعالیٰ انسان کی عزت وعظمت واضح کرنے کے لیے فرشتوں کو نازل فرماتا ہے کہ جاؤ اور دیکھو جن کے متعلق تم نے یہ کہا تھا وہ کیا کررہے ہیں؟؟ دیکھ لومیرے بندے اس رات میں بستر وآرام کو چھوڑ کر میری خاطر عبادات میں مشغول ہیں اور مجھے راضی کرنے کے لیے آنسو بہارہےہیں، دعائیں مانگ رہے ہیں حالانکہ شب بیداری ان کے لیے فرض یا واجب نہیں؛ بلکہ سنت مؤکدہ بھی نہیں صرف میرے محبوب رسولﷺ کی ترغیب دینے پر یہ اپنی نیند وآرام قربان کرکے ساری رات کے قیام پر مستعد ہیں پھر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور مومن کی عظمت کو سلام کرتے ہیں۔

4)یہ رات سلامتی والی رات ہوتی ہے۔علامہ  قرطبی﷫نے سلامتی والی رات ہونے کے کئی مطلب بیان کیے ہیں:

1…شبِ قدر سراپا سلامتی ہے ، اُس میں شر نام کی کوئی چیز نہیں ۔

2…اللہ تعالیٰ اِس رات میں صرف سلامتی ہی کا فیصلہ فرماتے ہیں ، بخلاف دوسری راتوں کے کیونکہ اُن میں مصائب و آلام کے فیصلے بھی فرماتے ہیں۔

3…شبِ قدر شیطان کے تصرّف اور اثر انداز ہونے سے محفوظ اور سالم ہوتی ہے۔

4…سلام سے مراد یہ ہے کہ فرشتوں کی جانب سے اہلِ ایمان پر سلام ہوتا رہتا ہے اور وہ ایمان والوں کو ساری رات سلام کرتے رہتے ہیں ۔

5…سلام سے فرشتوں کا ایک دوسرے کو سلام کرنا مراد ہے۔

6…سلامتی سے مراد خیر وبھلائی ہے،یعنی یہ عظیم اور بابرکت رات صبح صادق کے طلوع ہونے تک سراپا اللہ تعالیٰ کی جانب سے بندوں کیلئے خیر و بھلائی پر مشتمل ہوتی ہے۔(تفسیر قرطبی:20/134)

شب قدر اور احادیث وآثار:

شبِ قدر اللہ تعالیٰ کی منتخب کردہ رات ہے:حضرت کعب احبار فرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کی کچھ ساعتوں کو منتخب کرکے اُن میں سےفرض نمازیں بنائیں، اور دنوں کو منتخب کرکے اُن میں سے جمعہ بنایا ،مہینوں کو منتخب کرکے اُن میں سے رمضان کا مہینہ بنایا، راتوں کو منتخب کرکے اُن میں سے شبِ قدر بنائی اور جگہوں کو منتخب کرکے اُن میں سے مساجد بنائی۔(شعب الایمان:3363)

شبِ قدر سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے:حضرت انس بن مالک﷜فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رمضان کا مہینہ آیا تو آپﷺ نے اِرشاد فرمایا :بیشک یہ مہینہ آیا ہے اور اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں بھی زیادہ بہتر ہے، جو اس رات سے محروم رہ گیا وہ ساری ہی بھلائی سے محروم رہ گیا ، اور اس کی بھلائی سے وہی محروم رہتا ہے جو حقیقی محروم ہو ۔(ابن ماجہ: 1644)

فرشتے سلام و مُصافحہ کرتےہیں اور دُعاؤں پر آمین کہتے ہیں:حضرت ابن عباس﷠سے نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد مَروی ہے :جب شبِ قدر ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ حضرت جبریل﷤کو حکم دیتے ہیں، وہ فرشتوں کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ زمین پر اُترتے ہیں ، اُن کے ساتھ ایک سبز جھنڈا ہوتا ہےجس کو کعبہ کے اوپر نصب کرتے ہیں ،حضرت جبریل﷤کے 100 پَر ہیں جنمیں سے صرف 2 پروں کو وہ اس رات میں کھول کرمشرق سے مغرب تک پھیلادیتے ہیں ، پھر حضرت جبریل﷤ فرشتوں کو اس رات میں پھیل جانے کا حکم دیتے ہیں اور وہ فرشتے اس رات میں ہر کھڑے ، بیٹھے نماز پڑھنے والے ، ذکر کرنے والے کو سلام کرتے ہیں، مصافحہ کرتے ہیں اور اُن کی دعاء پر آمین کہتے ہیں ، اور یہی حالت صبح صادق تک رہتی ہے۔(شعب الایمان :3421)

شب قدر؛کیاکریں کیانہ کریں؟

شب قدر میں بعض محدثین نے کثرت نوافل کو افضل قرار دیا،بعض نے دعاء میں مشغول ہونے کو بہتر بتایا،کسی نے تلاوت کلام مجید کی اہمیت کو اجاگر کیا اور کسی نےتسبیح وغیرہ کے ذریعہ قرب الٰہی کے حصول کوترجیح دی؛مگر علامہ ابن رجب حنبلیؒ کہتے ہیں کہ شب قدر میں مختلف عبادتوں کو جمع کرنا افضل ہےمثلاً تلاوت، نماز، دعا، تسبیحات وغیرہ میں مصروف رہے؛کیوں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس رات میں یہ تمام عبادات منقول ہیں (فضائل اعمال:۶۱۲)اور یہ حقیقت ہے کہ انسان خشوع خضوع برقرار رکھتے ہوئے ایک ہی عبادت میں زیادہ دیر تک مشغول نہیں رہ سکتا۔ہاں مختلف عبادتوں کو جمع کرکے بہ آسانی وقت کو کار آمد بنایاجاسکتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ ان باعظمت راتوں میں محض جاگنا یا رات کا گزارنا مقصود نہیں؛بل کہ عبادت وریاضت مقصود ہے۔نیزجس طرح بابرکت اوقات میں عبادت کرنے سے اجر وثواب بڑھ جاتا ہے ایسے ہی ان میں معصیت کرنے سے معاصی کا وبال بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اس بات کا بہت اہتمام کیا جائے کہ ان پاکیزہ لمحات میں کسی گناہ کا ارتکاب نہ ہو۔ بعض لوگ شب قدر میں جاگتے تو ہیں؛لیکن ان کا جاگنا سیر وتفریح کرنے ،ہوٹلوں میں ٹھنڈا گرم پینے اور بازاروں میں گشت کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے کہ اس جاگنے سے سوجانا بہتر ہے۔ کم از کم سو کر گناہوں سے تو بچ جائے گا۔ بہر حال یہ کوتاہی بہت عام ہے اس سے بچنے کا بہت اہتمام کرنا چاہئے۔ بعض لوگ اجتماعی طورپر جاگتے ہیں اور تھوڑی بہت عبادت بھی کرتے ہیں؛مگربسا اوقات ان میں بھی کئی مفاسد شامل ہوجاتے ہیں جو بڑے خطرناک اور باعث گناہ ہیں۔

خلاصۂ کلام:

شب قدر جو رمضان کے اخیر عشرے؛ بل کہ اخیر عشرے کی طاق راتوں میں دائر ہے،ہمیں اس بات کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ ان تمام راتوں میں تلاش شب قدر کی فکر کریں !کیوں کہ کون سی رات شب قدر ہے اس کے بارے میں حتمی بات نہیں کہی جاسکتی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد احادیث میں تلاش کرنے کا ہی حکم دیاہے،یہی وجہ ہے کہ محدثین کرام کا کہنا ہے کہ یہ رات ہر سال تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس رات کے بارے میں بھلادیا دیا گیا، ایسے میں کسی ایک رات کو اپنی طرف سے شب قدر مان کر بقیہ طاق راتوں کو عبادت سے غافل رہنا بہت بڑی محرومی کا سبب ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم جس رات کو شب قدر مان رہے ہوں  وہ اس کے علاوہ کسی اور رات میں ہو۔ جبکہ آخری عشرے کی سبھی راتوں میں تلاش کرنے میں یہ خطرہ نہیں، اس رات کو پوشیدہ رکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ بندہ زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کرسکے۔اللہ پاک ستائیسویں شب سمیت دیگر راتوں میں بھی تلاش شب قدر کی توفیق اور اس کی مقبول عبادت کا ثواب عطافرمائے۔آمین

تبصرے بند ہیں۔