شب براءت اور دارالعلوم کا فتوی

عارف عثمان

(دیو بند)

شب براء ت کے موقع پر عبادت اور شب بیداری کے نام پر معاشرہ میں ایک ایسی رسم اپنے عروج پر پہنچ چکی، اس میں نہ صرف یہ کہ اسلامی قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ ’’روڈریز‘‘ کے ذریعہ زمینی قانون کی بھی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ۔ یہ معاملہ اب اس قدر بڑھ گیا ہے کہ علماء کی تقریریں اور مفتیان کرام کے فتوے بھی بے اثر ہوتے نظر آرہے ہیں ۔ شب براء ت میں تقریر وبیان کی لمبی لمبی مجلسیں قائم کرنا، مدارس اور قبرستان میں میلے کی شکل اختیار کرنا، رات بھر گھومتے پھرنا، یا پھر مسجد میں جمع ہونا، نوافل ا ور دیگر عبادات کا اہتمام کرنا شرعا ان امور کی کیا حیثیت ہے ؟اس سلسلے میں دہلی کے ائمہ وعلماء کے ایک وفد نے دارالعلوم دیوبند سے تفصیلی فتوی لیا۔ ائمہ وعلماء نے اپنے سوال میں مزید پوچھا کہ دہلی ا ور اطراف میں خصوصاًاور دیگر شہروں میں عموماًجو نوجوان موٹر سائیکل پر 4,4اور 5,5سوار ہوکر بڑی تعداد میں خلاف قانون سڑکوں پر گھومتے پھرتے ہیں جس کی وجہ سے حادثات بھی پیش آتے ہیں ان جیسے امور کی اصلاح کے لئے دہلی مصطفی آباد وغیرہ کے ائمہ وعلماء نے یہ طے کیا ہے کہ شب برأت میں دو تین دن پہلے وعظ وبیانات ہوجائیں اور خاص شب برأت میں کوئی مجلس وعظ وتقریر کی نہ ہو اور مسلمان بھائیوں سے گزارش کی جائے کہ شب برأت میں جس قدر بشاشت سے ہوسکے اپنے اپنے گھروں میں عبادت کا اہتمام کریں ، سڑکوں ، گلیوں ا ور قبرستان وغیرہ میں ہرگز نہ گھومتے پھریں نہ ہی مسجد میں رسمی طور پر جمع ہوں اصلاح کے عنوان پر یہ صورت اختیار کرنا شرعاً درست ہے یا نہیں ؟

ان سوالات کا جواب دیتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء کے مفتیان نے کہا ہے کہ :اس رات (شب برأت)کی فضیلت میں متعد روایات منقول ہیں جن کی سندی حیثیت یہ ہے کہ اکثر وہ روایات ضعیف ہیں اور بعض حسن درجہ کی بھی ہیں جن کے مجموعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اپنے گھروں میں بشاشت اور طبیعت کے نشاط کے موافق عبادت کا اہتمام کرنا مستحب ہے، یعنی نوافل، تلاوت، تسبیح درود شریف وغیرہ جس میں طبیعت زیادہ لگے اور جتنی دیر تک لگے اتنی دیر اس عبادت میں مشغول رہیں اور جب کسل اور سستی ہو یا نیند کا غلبہ ہو تو آرام کرلیں ، پوری رات جاگ کرگزارنے کا اہتمام ضروری نہیں اور عبادت یا تقریر وبیان کے التزام کی خاطر اس رات میں مساجد وغیرہ میں جمع ہونا خلاف سنت ہے اگرچہ ایک مرتبہ حضرت نبی اکرم محسن اعظم ﷺ سے قبرستان میں جانا ثابت ہے مگر اس کو سنت مستمرہ قرار نہیں دیا جاسکتا، نہ ہی حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیم اجمعین اور سلف صالحین نے اجتماعی طور پر عبادت یا قبرستان جانے کو اختیار فرمایا، حضرت سید الاولین والآخرین احمد مجتبیٰ محمد مصطفیﷺ کی عادت شریفہ نوافل ادا فرمانے کی حجرۂ مبارکہ میں تھی حالانکہ حجرہ مقدسہ سے قدم مبارک باہر نکالتے تو مسجد نبوی میں پہنچ جاتے مگر اس کے باوجود نوافل تہجد وغیرہ حجرہ مبارکہ ہی میں ادا فرماتے تھے پس اتباع سنت اور حضرت نبی کریم ﷺ سے محبت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ شب برأت وغیرہ جیسی راتوں میں نفلی عبادات کا اہتمام اپنے اپنے گھرو ں میں کیا کریں اور خلاف سنت کاموں سے اپنے کو بچاتے رہیں رات بھر گھومتے پھرنا اور قبرستان وغیرہ میں میلہ ٹھیلہ کی شکل اختیار کرنا، تقریر وبیان کی لمبی لمبی مجلسیں قائم کرنا جائز نہیں ، ان جیسے امور میں تو بہت سے مفاسد اور خرابیاں متحقق ہیں جو واجب الترک ہیں ۔ (۲)خلاف قانون موٹر سائیکل وغیرہ پر سوار ہوکر گھومتے پھرنا کہ جس کی وجہ سے حوادثات کے پیش آنے کا اندیشہ ہو جائز نہیں بلکہ حرام ہیں ، مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں کو ان جیسی قبیح وشنیع اور بری حرکتوں سے کوسوں دور رہنا چاہئے آپ حضرات (ائمہ وعلماء کرام )نے مسلمانوں کی اصلاح کیلئے جو قدم اٹھایا ہے جس کی صورت یہ اختیار کی ہے کہ خاص شب برأت میں کوئی مجلس تقریر وبیان کی نہ ہو اور دو تین دن پہلے مسلمانوں کو سمجھایا جائے تاکہ مسلمان اس رات میں مطابق سنت اپنے اپنے گھروں میں عبادات کا اہتمام کریں ۔ اور رسمی ورواجی امور سے الگ تھلگ رہیں ، ہی قدم بہت مبارک ہے، امید ہے کہ عام مسلمان اس مستحن طریقہ کا خلوص نیت کے ساتھ خیر مقدم فرمائیں گے۔ اور پھیلے ہوئے مفاسد وخرابیوں کے ازالعہ ودفعیہ میں پورا پورا تعاون کریں گے۔

البتہ دو تین دن پہلے کی تخصیص کو لازم نہ کریں ، بلکہ شب برأت سے پہلے ایک دو جمعوں میں ائمہ حضرات وعلماء کرام سمجھانے کا نظام بنالیں ۔ دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ نیا نہیں ہے، دارالعلوم بلکہ ہمیشہ سے اسی موقف پر قائم ہے لیکن گذشتہ چند برسوں سے سڑکوں ، بازاروں ، گلی کوچوں پر اس موقع پر ہونے والی آتش بازی ودیگر خرافات کے سلسلے میں عوام کا رخ دینی ماحول کی طرف موڑنے کیلئے ان مقامات پر اصلاح معاشرہ کے جلسے منعقد کئے جانے سے بلاشبہ کچھ مقامات پر اس کے فائدے بھی سامنے آئے لیکن اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں ہونے والے یہ جلسے خود ایک بدعت کی صورت اختیار کرگئے ہیں چنانچہ آج حال یہ ہے کہ شب برأت کے موقع پر نوجوان طبقہ اس رات کو ایک تیوہار کے طور پر جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں ، اس انداز کی ہنگامہ آرائی جو سماج اور قانون کے لئے ایک مسئلہ بن گئی ہے دیگر شہروں اور مقامات کے سلسلے میں تو کیا کہا جائے دیوبند جیسے علمی ودینی ماحول اوررد بدعت کے قلعے میں بھی مختلف عنوانات سے اس رات میں میلے لگنے لگے ہیں دوسرے شہروں کی مانند دیوبند میں بھی جلسے اور اجتماعی دعا کے نام پر رات بھر سڑکوں پر نوجوان لڑکوں کا موٹر سائیکل دوڑانا حتی کہ جلسوں میں خواتین کا کثرت سے جانا عام ہوگیا ہے، اس بارے میں خود ایسے علماء بھی ذمہ دار ہیں جو ایسے مواقع کو اپنے شہرت اور ناموری کا ذریعہ بناتے ہیں ۔ اسی قسم کے حالات کے پیش نظر دہلی کی ایک تنظیم نے دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء سے فتویٰ حاصل کیا ہے جس میں مفتیان نے شب براء ت کی خلافِ سنت رسومات کو غیر شرعی قرار دیا ہے لیکن یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ جب اس فتویٰ پر خود علماء ہی عمل نہیں کرتے اور اس موقع پر منعقد ہونے والے ہندوستان بالخصوص دہلی اور اترپردیش کے بے شمار جلسوں میں خوشی خوشی مقرر و مبلغ کے طور پر بعوض معاوضہ و ہدایا شریک ہوتے ہیں تو بے چاری عوام کو اس قباحت سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟لیکن ان حالات میں خوش آئین پہلو یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ دارالعلوم نے اس رسم و بدعت کے خلاف واضح فتویٰ جاری کیا بلکہ دارالعلوم انتظامیہ نے حضرت مدنی کے زمانے سے چلی آرہی ختم بخاری کی روایت کو بھی ختم کیا ہے۔ اب دارالعلوم میں ختم بخاری کا علم بعد میں ہوتا ہے لیکن دارالعلوم انتظامیہ اپنے اُن اساتذہ اور مبلغین پر جو اس شب کے موقع پر مختلف مقامات پر پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں پابندی لگانے سے عاجز نظر آتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔