’شب برأت‘ کی فضیلت: احادیث مبارکہ کی روشنی میں

  مفتی محمد عارف باللہ القاسمیؔ

اس امت پر اللہ کے بے شمار احسانات میں سے ایک احسان یہ بھی ہے کہ اللہ نے اس امت کے لئے اپنی بخشش کو اتناعام کردیا کہ ایک انسان جب بھی اپنے گناہ پر احساس ندامت کے ساتھ اللہ کے دربار میں حاضر ہوتا ہے مغفرت خداوندی اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے ،اس کے باوجوداللہ نے اپنی بخشش سے نوازنے کے لئے’’ شب برأت‘‘ ،’’شب قدر‘‘ اور رمضان جیسے مخصوص اور اہم بخشش کے مواقع بھی عنایت فرمادئے ہیں، تاکہ ان سے اس امت کے گناہ گار اور نافرمان فائدہ اٹھاکر اپنی جنت کو اس دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے ہی تعمیر کرلیں اورسارے گناہوں سے پاک وصاف ہوکر ہی اس دنیا سے عالم جزاء وسزا کا رخ کریں نیز اللہ کے حبیب کی محبوب امت کو اپنے جرائم کے احساس کے وقت اپنے بچاؤ سے متعلق ناامیدی کا سامنا نہ کرنا پڑے اوراسے قیامت کے دن بھی دربار خداوندی میں شرمندگی وافسردگی کے بے فائدہ احساس میں مبتلا نہ ہوناپڑے۔

’’شب برأت‘‘ کا کچھ لوگ تو اس طرح استقبال کرتے ہیں کہ شب بیداری کے بہانے بہت سے ایسے خرافات کرتے ہیںجن کے ثبوت پر قرآن وحدیث میں کوئی دلیل نہیںہے ،اس کے برخلاف کچھ لوگ ایسی شدت سے شب برأت کو بے اصل جتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویایہ لوگوں کی ایسی ذہنی پیداوارہے جس کی تائید شرعی دلائل سے نہیں ہوتی،اور اگر کسی حدیث میں اس کا تذکرہ بھی ہے تو وہ ناقابل استدلال ہے،کیونکہ وہ معیار صحت پر پوری نہیں اترتی۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ لو گوں کی ذہنی پیداوار نہیں ،بلکہ متعددصحیح اور قابل استدلال احادیث سے اس کی اہمیت وعظمت پر روشنی پڑتی ہے اور اس رات میں بندوں کی طرف اللہ کی خصوصی عنایت معلوم ہوتی ہے ،اور اگر اس سے متعلق بعض روایتیں ضعیف بھی ہیں تو اس سے یہ رات بے فضیلت نہیں ہوتی بلکہ وہ ضعیف روایتیں بھی قابل قبول ہونگی ،اس لئے کہ ان کی معنوی طور پر صحیح روایات سے تائید ہوجاتی ہے اور اصول حدیث کا یہ مستقل قاعدہ ہے کہ ضعیف روایت کی اگر کسی صحیح روایت سے تائید ہوجائے تو وہ ضعیف روایت بھی قابل قبول بن جاتی ہے، چناںچہ اس رات کی فضیلت سے متعلق مسند احمد کی ایک ضعیف روایت پر مسند احمدکے محشی ومحقق علامہ شعیب ارناؤوط رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

حدیث صحیح بشواہدہ وہذا اسناد ضعیف لضعف ابن لہیعۃ(مسند احمد :حاشیہ روایت:۶۶۴۲)

’’اپنی شواہد کی وجہ سے یہ روایت صحیح ہے اگرچہ ’ ’ابن لہیعہ‘‘ کے ضعیف راوی ہونے کی وجہ سے اس کی سند ضعیف ہے‘‘

نیز شب برأت سے متعلق ضعیف روایتیں اس لئے بھی قابل قبول ہونگی کہ محدثین کے نزدیک فضائل کے سلسلہ میں ضعیف روایتیں بھی مقبول ہیں جیساکہ علامہ نووی اس کی تصریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

احادیث الفضائل یتسامح فیہا ویعمل علی وفق ضعفہا (المجموع شرح المہذب :فرع مسائل تتعلق بالعیدین)

’’فضائل کی احادیث میں نرم گوشی اختیار کی جاتی ہے اور اس کے ضعیف ہونے کے باوجوداس پر عمل کیا جاتا ہے‘‘

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

الضعيف يعمل به في فضائل الاعمال باتفاق العلماء (المجموع : ۳؍۱۲۲)

’’فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے گا، علماء کا اس پر اتفاق ہے‘‘

اسی طرح علامہ ابن تیمیہؒ  تحریر کرتے ہیں :

یعمل بہا فی فضائل الاعمال…… یروی ویعمل بہ فی الترغیب والترہیب(مجمو ع الفتاوی لابن تیمیہ)

 ’’ضعیف روایتوں پرفضائل اعمال کے سلسلہ میں عمل کرلیا جاتا ہے ،اور ترغیب وترہیب میں اس کو نقل کیا جاتا ہے اور اس پر عمل کیا جاتا ہے ‘‘

علامہ دقیق العید (م۷۰۲) لکھتے ہیں:

قد اتفق العلماء على جواز العمل بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال (دلیل الفالحین: ۱؍۲۳)

’’ فضائل اعمال کے سلسلہ میں ضعیف حدیث پر عمل کے جائز ہونے میں تمام علماء کا اتفاق ہے ‘‘

ظاہر ہے کہ اس رات سے متعلق جو بعض ضعیف روایتیں ہیں فضائل ہی سے تعلق رکھتی ہیں، اس لئے ان کو ناقابل عمل اورناقابل روایت سمجھنا صحیح نہیں ہے ،مزید برآں جبکہ صحیح روایتیں اس کی تائید بھی کرتی ہیں اور اس رات کی فضیلت کو بیان کرتی ہیں،تو شب برأت کے سلسلہ میں بعض ضعیف روایات کی قبولیت اور اس کی فضیلت کے ثبوت میں کسی کلام کی گنجائش باقی نہیں رہتی ، اس کے بارے میں مروی روایات ملاحظہ فرمائیں:

شب برأت کی فضیلت احادیث نبویہ میں

۱۔  حضرت معاذ بن جبل ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

یطلع اللہ علی خلقہ لیلۃ النصف من شعبان فیغفر لجمیع خلقہ الالمشرک اومشاحن (المعجم الکبیر :مالک بن یخامرعن معاذ ،۲؍۱۰۸؍حدیث نمبر ۲۰۳۔المعجم الاوسط:من اسمہ محمد،۷/۳۶،روایت نمبر:۶۷۷۶۔صحیح ابن حبان:باب ماجاء فی التباغض،ذکر مغفرۃ اللہ لیلۃ النصف من شعبان، ۱۲/۴۸۱ حدیث نمبر:۵۶۶۵۔مسند الشامیین:مایروی ابن ثوبان عن ابیہ ،۱/۱۲۸،۱۳۰ حدیث نمبر:۲۰۳،۲۰۵۔مجمع الزوائد:حدیث:۶۹۲۱)

’’اللہ تعالی پندرہویں شعبان کی شب اپنی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور مشرک اور کینہ پرور کے علاوہ ساری مخلوق کی مغفرت کردیتا ہے‘‘

اس روایت کو علامہ ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے اور علامہ ہیثمی اس روایت کے بارے میں تحریر فرماتے ہیںکہ اس روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں(مجمع الزوائد:روایت نمبر:۶۹۲۱)

۲۔  حضرت ابو ثعلبہ خشنی نبی اکرم ﷺ کا قول نقل کرتے ہیں:

یطلع اللہ علی عبادہ لیلۃ النصف من شعبان فیغفر للمومنین ویمہل الکافرین ویدع اہل الحقد بحقدہم حتی یدعوہ (المعجم الکبیر:مکحول عن ابی ثعلبۃ ،۲۲/۲۲۳،روایت نمبر:۵۹۰)

’’اللہ تعالی پندرہ شعبان کی شب اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور تمام مومنین کی مغفرت فرمادیتے ہیں،اور کافرین کو ان کی حالت پر چھوڑدیتے ہیں اور کینہ پرور کی جب تک کہ وہ اس سے باز نہ آئے اس کے کینہ پروری کی وجہ سے مغفرت نہیںکرتے‘‘

۳۔  حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

اذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا فان اللہ ینزل فیہا لغروب الشمس الی سماء الدنیا فیقول ألا من مستغفر فأغفر لہ ألا مسترزق فأرزقہ اٌلا مبتلی فاعافیہ ألا کذا ألا کذا حتی یطلع الفجر(سنن ابن ماجہ:کتاب الصلاۃ ،باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان)

جب پندرہ شعبان کی شب آئے تو اس رات کو عبادت کرو اور اس دن روزہ رکھو اس لئے کہ اس رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ آسمان دنیا پر تشریف لاتے ہیں اورصبح صادق تک یہ اعلان کرتے رہتے ہیں کہ کیا ہے کوئی مغفرت کا طالب جس کی میں مغفرت کردوں ؟کیا کوئی رزق کا طلب گار ہے جسے میں رزق عنایت کروں ؟کیا کوئی مصائب میں مبتلا ہے جسے میں اس سے نجات دوں؟

۴۔  حضرت عثمان بن عاص ؓ فرماتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا:

اذا کانت لیلۃ النصف من شعبان نادی مناد ہل من مستغفر فاغفرلہ ہل من سائل فاعطیہ فلایسأل احد شیئاالا اعطی الا زانیۃ بفرجہا او مشرک(الفتح الکبیر:۱؍۱۳۳،روایت نمبر:۱۳۱۹)

’’جب پندرہ شعبان کی رات آتی ہے تو ایک آواز لگانے والا آواز لگاتا ہے ،کیا کوئی مغفرت کا طالب ہے کہ میں اس کی مغفرت کردوںکیا کوئی سائل ہے کہ میں اسے دوں؟توبدکار عورت اور مشرک کے علاوہ جوشخص بھی کسی چیز کا سوا ل کرتا ہے اسے وہ چیز دے دی جاتی ہے ‘‘

۵۔  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس رات رسو ل اللہ ﷺ کے جنت البقیع تشریف لے جانے کا واقعہ بیان کرتی ہوئی فرماتی ہیں:

فقدت النبی ﷺ لیلۃ فخرجت اطلبہ فاذا ہو بالبقیع رافع راسہ الی السماء فقال یا عائشہ أکنت تخافین ان یحیف اللہ علیک ورسولہ قالت قد قلت ما بی ذلک  ولکنی ظننت أنک أتیت بعض نسائک فقال ان اللہ ینزل لیلۃ النصف من شعبان الی سماء الدنیافیغفر لاکثر من عددشعر غنم کلب(سنن ابن ماجہ:کتاب الصلاۃ ،باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان۔سنن ترمذی :کتاب الصوم ، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان)

’’میں ایک رات نبی اکرم ﷺ کو اپنے پاس نہ پائی تو میں آپ کی تلاش میںنکلی،میں نے دیکھا کہ آپ ’’بقیع‘‘ میں موجود ہیں اور اپنا سر آسمان کی جانب اٹھائے ہوئے ہیں،رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! کیا تمہیں اس بات کا خوف ہے کہ تم پراللہ اور اس کا رسول ظلم کریگا ،میں نے کہا کہ میں تو ایسا نہیں سمجھتی ، البتہ میں نے یہ سمجھا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہیں،رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پندرہ شعبان کی شب اللہ آسمان دنیا پر تشریف لاتے ہیںاور قبیلۂ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت کرتے ہیں‘‘

۶۔  حضرت عائشہ ؓ ہی کی ایک دوسری روایت میںہے کہ رسول کریم ﷺ نے آپ سے فرمایا:

اتانی جبریل فقال ھذہ لیلۃ النصف من شعبان وللہ فیہا عتقاء من النار بعدد شعور غنم کلب لا ینظر اللہ فیہا الی مشرک ولا مشاحن ولا الی قاطع رحم ولا الی مسبل ولا الی عاق لوالدیہ ولا الی مدمن خمرقالت ثم وضع عنہ ثوبیہ فقال أتاذنین لی فی قیام ہذہ اللیلۃفقلت بأبی انت وامی فقام فسجد لیلا طویلا حتی ظننت انہ قبض۔(الترغیب والترہیب:۴۱۹۱۔کنز العمال: الاکمال من لیلۃ النصف من شعبان،روایت نمبر:۳۵۱۸۴)

’’میرے پاس جبرئیل آئے اور انہوں نے کہا کہ یہ پندرہ شعبان کی رات ہے اس میں قبیلۂ کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابرجہنم سے لوگ آزاد کئے جاتے ہیں،اللہ اس رات مشرک ،کینہ پرور،قطع رحمی کرنے والے،والدین کے نافرمان اور شراب پینے والے کی طرف نظر رحمت نہیں کرتے حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنے اوپر سے کپڑے ہٹائے اور فرمایا اے عائشہ کیا تم مجھے آج کی رات عبادت میں مصروف رہنے کی اجازت دوگی؟[حضرت عائشہؓکہتی ہیں] میں نے کہامیرے ماں باپ آپ پرقربان(ضرور آپ عبادت کریں میری طرف سے اجازت ہے)چناں چہ رسول اللہ ﷺ اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ اتنی دیر سجدہ میں پڑے رہے کہ مجھے یہ خیال آنے لگا کہ کہیں آپ کی وفات تو نہ ہوگئی‘‘

حضرت عائشہ ؓ  فرماتی ہیں:

کان رسول اللہ ﷺ یدعو وہو ساجد لیلۃ النصف من شعبان یقول أعوذ بعفوک من عقابک وأعوذ برضاک من سخطک وأعوذ بک منک جل وجہک وقال امرنی جبریل أن ارددہن فی سجودی وعلمتہن(جامع الاحادیث والمراسیل:۱؍۱۸؍حدیث نمبر:۱۱۵۸۲)

’’پندرہ شعبان کی رات میں دعا کررہے تھے اور سجدے میں کہ رہے تھے اے اللہ میں آپ کے عقاب سے آپ کی معافی کی پناہ چاہتا ہوں،آپ کی ناراضگی سے آپ کی رضا کی پناہ چاہتا ہوںاور آپ کی پکڑ سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں،رسو ل اللہ  ﷺ نے فرمایا کہ مجھے جبرئیل نے کہا ہے کہ میں ان کلمات کو اپنے سجدہ میں بار بار کہوںاور یہ کلمات مجھے سکھائے گئے ہیں‘‘

اس لئے اس رات اس دعا کو بطور خاص خوب پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے بالخصوص سجدوں میں ، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے پڑھا۔

۷۔  حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی نقل کرتے ہیں:

ان اللہ لیطلع فی لیلۃ النصف من شعبان فیغفر لجمیع خلقہ الالمشرک اومشاحن(سنن ابن ماجہ:کتاب الصلاۃ ،باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان)

’’بیشک اللہ پندرہ شعبان کی رات اپنی مخلوق پر متوجہ ہوتے ہیں اور مشرک وکینہ پرور کے سوا تمام لوگوں کی مغفرت کردیتے ہیں‘‘

۸۔  حضرت عبد اللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں ہے کہ جناب رسالتمآب ﷺ نے ارشاد فرمایا :

یطلع اللہ عزوجل الی خلقہ لیلۃ النصف من شعبان فیغفر لعبادہ الالاثنین: مشاحن وقاتل نفس(مسند احمد :مسند عبد اللہ بن عمر،روایت نمبر:۶۶۴۲،یہ حدیث حسن ہے ، علامہ البانیؒ نے اس کی صراحت کی ہے)

’’اللہ عزوجل پندرہ شعبان کی شب اپنی مخلوق کی طرف توجہ فرماتے ہیں اور دوقسم کے لوگوںیعنی کینہ پروراور خودکشی کرنے والے کے سوا سارے بندوں کی مغفرت کر دیتے ہیں‘‘

۹۔  حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اکرم ﷺ سے نقل کرتے :

اذا کان لیلۃ النصف من شعبان ینزل اللہ تبارک وتعالیٰ الی سماء الدنیا فیغفر لعبادہ الاماکان من مشرک اور مشاحن لاخیہ (مجمع الزوائد،حدیث نمبر:۷۵۹۲۱، امام بیہقی ترغیب میں فرماتے ہیں: لاباس باسنادہ)

’’جب پندرہ شعبان کی شب آتی ہے تو اللہ آسمان دنیا پر تشریف لاتے ہیں اور مشرک اور اپنے بھائی سے کینہ رکھنے والے لوگوں کے سوا سب کی مغفرت کردیتے ہیں‘‘

۱۰۔  حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إذا كان ليلة النصف من شعبان يغفر الله لعباده إلا لمشرك أو مشاحن (مسند البزار: ص : ۲۴۵، علامہ ہیثمی کہتے ہیں:اس کے ایک راوی ہشام سے میں واقف نہیں ہوں البتہ بقیہ سارے راوی ثقہ ہیں)

’’جب نصف شعبان کی شب آتی ہے تو اللہ مشرک اور کینہ پرور کے علاوہ اپنے سارے بندوں کی مغفرت کردیتے ہیں‘‘

۱۱۔  حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

يطلع الله تبارك وتعالى على خلقه ليلة النصف من شعبان ، فيغفر لهم كلهم إلا لمشرك أو مشاحن (مسند بزار: ۲۷۵۴، مصنف ابن ابی شیبہ: ۳۰۴۷۹، شعب الایمان بیہقی: ۳۶۷۲، مرسل جید)

’’اللہ پندرہ شعبان کی رات اپنی مخلوق پر متوجہ ہوتے ہیں اور مشرک وکینہ پرور کے سوا تمام لوگوں کی مغفرت کردیتے ہیں‘‘

ان متعدد اور معتبر کتابوں میں مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول روایتوں کے علاوہ اور بھی روایتیں اور آثار شب برأت کی فضلیت سے متعلق منقول ہیں جن میںشب برأت کی فضلیت اور اس دن بندوں کی جانب پروانہ ٔ بخشش عنایت کرنے والے خدائے بزرگ وبرتر کی خصوصی عنایت وتوجہ کا تذکرہ اجمالا ًیا تفصیلاً مذکور ہے،اور یہ روایتیں صحیح یا حسن درجے کی ہیں اور خود غیر مقلدین کے نزدیک معتبر محقق علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نےاپنی کتاب السلسلۃ الصحیحۃ میں کئی صفحات پر مشتمل مفصل گفتگو کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ شب برأت سے متعلق روایتیں صحیح اور حسن درجہ کی ہیں اور بحث کے اخیر میں دمشقی عالم ابوالفرج محمد جمال الدین القاسمیؒ پر رد کرتے ہوئے لکھا ہے :

و جملة القول أن الحديث بمجموع هذه الطرق صحيح بلا ريب و الصحة تثبت بأقل منها عددا ما دامت سالمة من الضعف الشديد كما هو الشأن في هذا الحديث ، فما نقله الشيخ القاسمي رحمه الله تعالى في ” إصلاح المساجد ” ( ص 107) عن أهل التعديل و التجريح أنه ليس في فضل ليلة النصف من شعبان حديث صحيح ، فليس مما ينبغي الاعتماد عليه ، و لئن كان أحد منهم أطلق مثل هذا القول فإنما أوتي من قبل التسرع و عدم وسع الجهد لتتبع الطرق على هذا النحو الذي بين يديك (السلسلۃ الصحیحۃ ، مصنف علامہ البانی  :  ۳؍۱۳۵)

’’ خلاصہ کلام یہ ہے کہ (شب برأت کی فضیلت کی حدیث) ان سندوں کے ساتھ بلاشبہ صحیح ہے ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے کم عدد سے بھی صحت ثابت ہوجاتی ہے ، بشرطیکہ وہ ضعف شدید سے محفوظ ہو، جیسا کہ اس حدیث کا یہی حال ہے، اس لئے شیخ قاسمی نے ’’اصلاح المساجد‘‘میں صفحہ :۷۰ پر اہل تعدیل وجرح سے جو یہ نقل کیا ہے کہ نصف شعبان کی شب کی فضیلت کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے ، یہ بات قابل اعتماد نہیں ہے ، اور اگر کسی نے ایسی بات کہی ہے تو وہ درحقیقت جلدبازی اور جس طرح میں نے احادیث کی سندوں کی چھان بین کی ہے اس طرح چھان بین نہ کرنے کا نتیجہ ہے ۔‘‘

 اس لئے ان روایات کے موجود ہوتے ہوئے اس کی فضلیت کا انکار کرنا اور اسے بے اصل ثابت کرنااوراسے لوگوں کی ذہنی پیداوار کہنا بالکل صحیح نہیں ،اس لئے کہ جس چیز کی فضلیت کا زبان نبوت نے اعلان کردیا ہے وہ چاہے ہماری’’ عقل کوتا ہ ‘‘سے ہم آہنگ ہو یانہ ہو ،بہر حال  فضیلت والی ہوگی ،چناں چہ ان روایات کے پیش نظر ہرزمانہ میں اس رات عبادت وریاضت کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے ،اور ہرزمانہ کے مزاج شریعت سے آشنا علماء ، فقہاء اور محدثین نے اس رات کی اہمیت کا اعتراف کیا ہے ،کیونکہ اتنی روایتوں کی موجودگی میں اس کو نہ ماننے کی گنجائش باقی ہی نہیں رہتی ہے۔

شب برأت صحابہ ؒ ، ائمہ، اور فقہاء کی نظر میں

 حضرت عکرمہ ؓ اس رات کی فضلیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

لیلۃ النصف من شعبان ہی لیلۃ البراء ۃ یبرم فیہا امر السنۃ وینسخ الاحیاء من الاموات ویکتب الحاج فلایزاد فیہم احد ولاینقص منہم احد (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی:سورۂ دخان)

’’پندرہ شعبان کی رات جہنم سے رہائی کی رات ہے اس میں پورے سال سے متعلق فیصلوں کو قطعیت دی جاتی ہے ،زندوں کا نام مردوں [کی فہرست ]میں لکھا جاتا ہے اور حاجیوں کی تعدادوتعیین لکھی جاتی ہے اس میں نہ کسی کی زیادتی ہوسکتی ہے اور نہ ہی کمی‘‘

حضرت عطا بن یساررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

تنسخ فی النصف من شعبان الآجال حتی ان الرجل لیخرج مسافرا وقد نسخ من الاحیاء الی الاموات ویتزوج وقد نسخ من الاحیاء الی الاموات(مصنف عبد الرزاق:کتاب الصوم،باب النصف من شعبان)

’’پندرہ شعبان کی شب موت کے اوقات لکھے جاتے ہیں حتی کہ ایک آدمی سفر کو نکلتا ہے جبکہ اس کا نام زندوں کے بجائے مردوں میں لکھ چکا ہوتا ہے اور آدمی شادی کرتا ہے حالانکہ اس کا نام زندوں کے بجائے مردوں میں لکھ چکا ہوتا ہے ‘‘

صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے بھی اس شب کی فضلیت اسی طرح منقول ہے،چناں چہ مصنف عبدالرزاق :کتاب الصوم ،باب النصف من شعبان ،میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی یہ روایت مذکورہے۔

حضر ت امام شافعی ؒ فرماتے ہیں:

وبلغنا ان الدعاء یستجاب فی خمس لیا ل فی لیلۃ الجمعۃ ولیلۃ الاضحی ولیلۃ الفطر واول لیلۃ من رجب ولیلۃ النصف من شعبان—- وانااستحب کل ماحکیت فی ہذہ اللیالی (الام :کتاب صلاۃ العیدین،العبادۃ لیلۃ العیدین۔سنن بیہقی الکبری کتاب الصلاۃ ، باب عبادۃ لیلۃ العیدین)

’’ہم تک [صحیح سندوں سے]یہ بات پہونچی ہے کہ پانچ راتوں میں دعائیں قبول ہوتیں ہیں،یعنی جمعہ کی رات،عید الاضحی کی رات ،عید الفطرکی رات،رجب کی پہلی رات،اور پندرہ شعبان کی رات میں—اور ان راتوں کے سلسلہ میں جو باتیں منقول ہیں میں ان کو مستحب سمجھتا ہوں‘‘

فقہ حنفی کی معروف کتاب ’’مراقی الفلاح‘‘ میں اس رات کی فضیلتوں کا ان الفاظ میں تذکرہ کیا گیا ہے :

وندب احیاء لیلۃ النصف من شعبان لانہا تکفر ذنوب السنۃ۔۔۔۔ وخمس لیا ل لا یرد فیہن الدعاء لیلۃ الجمعۃ واول لیلۃ من رجب ولیلۃ النصف من شعبان ولیلتا العیدین(کتاب الصلاۃ:باب الوتر واحکامہ)

’’پندرہ شعبان کی شب کو عبادت کے ذریعہ زندہ کرنا مستحب ہے اس لئے کہ پورے سال کے گناہ اس سے معاف ہوتے ہیں،اور پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعائیں رد نہیں کی جاتیں،جمعہ کی رات،رجب کی پہلی رات پندرہ شعبان کی شب اوردونوں عید کی راتیں،،

اسی طرح’’ الموسوعۃ الفقہیۃ‘‘ میں ہے اس رات کی فضیلت کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:

ذہب جمہور الفقہاء الی ندب احیاء لیلۃ النصف من شعبان لقولہ علیہ السلام اذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا فان اللہ ینزل فیہا لغروب الشمس الی سماء الدنیا فیقول ألا من مستغفر فأغفر لہ ألا مسترزق فأرزقہ اٌلا مبتلی فاعافیہ ألا کذا ألا کذا حتی یطلع الفجر(الموسوعۃ الفقہیہ:حرف الہمزۃ: احیاء اللیل،حرف القاف:قیام اللیل)

’’جمہور فقہاء کا مسلک ہے کہ پندرہ شعبان کی رات میں عبادات میں منہمک رہ کر بیدار رہنا مستحب ہے اس لئے کہ رسول اﷲ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب پندرہ شعبان کی شب آئے تو اس رات کو عبادت کرو اور اس دن روزے رکھو اس لئے کہ اس رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ آسمان دنیا پر تشریف لاتے ہیں اورصبح صادق تک یہ اعلان کرتے رہتے ہیں کہ کیا ہے کوئی مغفرت کا طالب جس کی میں مغفرت کردوں؟کیا کوئی رزق کا طلب گار ہے جسے میں رزق عنایت کروں ؟کیا کوئی مصائب میں مبتلا ہے جسے میں اس سے نجات دوں؟‘‘

علامہ احمد بن علی ہیتمی شافعیؒ  فرماتے ہیں:

أن لہذہ اللیلۃ فضلا وانہ یقع فیہا مغفرۃ مخصوصۃواستجابۃ مخصوصۃ ومن ثم قال الشافعي رضي الله عنه إن الدعاء يستجاب فيها(الفتاوی الفقہیۃ الکبریٰ :کتاب الصوم)

’’بیشک اس رات کی فضیلت ہے اور اس میں خصوصی مغفرت اورخصوصی قبولیت ہوتی ہے، اسی لئےامام شافعی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ اس رات میں دعا قبول ہوتی ہے ‘‘

فقہ مالکی کے مشہور فقیہ علامہ محمد بن محمد ابن حاج مالکیؒ فرماتے ہیں:

ولاشک انہا لیلۃ مبارکۃ عظیمۃ القدر عند اللہ تعالیٰ —  فلہا فضل عظیم وخیر جسیم وکان السلف رضی اللہ عنہم یعظمونہا ویشمرون لہا قبل اتیانہا فما تاتیہم الاوہم متأہبون للقائہا والقیام بحرمتہا (المدخل :فصل من البدع المحدثۃ فی لیلۃ النصف من شعبان)

’’بلاشبہ پندرہ شعبان کی شب پرُبرکت ہے اور اﷲ کے نزدیک اس کی بڑی اہمیت ہے — اس رات کی بڑی فضیلت ہے اور اس میں بہت خیر ہے اسلاف رضی اللہ عنہم اس رات کی تعظیم کیا کرتے تھے اور اس کے آنے سے پہلے مکمل تیار ہوجایا کرتے تھے چناںچہ جب بھی یہ رات آتی یہ حضرات اس کے استقبال اور حرمت وتعظیم کے لئے تیارہوچکے ہوتے‘‘

 علامہ تقی الدین ابن تیمیہ حنبلی ؒ، علامہ منصور ابن یونس البہوتی حنبلیؒ اورعلامہ مصطفی بن سعد رحیبانی حنبلیؒ فرماتے ہیں :

اما لیلۃ النصف من شعبان ففیہا فضل وکان السلف من یصلی فیہا(الفتاوی الکبری لابن تیمیہ :کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ التطوع۔ کشاف القناع عن متن الاقناع: باب صلاۃ التطوع ، فضل صلاۃ الضحیٰ ۔مطالب اولی النہی شرح غایۃ المنتہی:تتمہ فضائل صلاۃ الضحیٰ)

’’بہر حال پندرہ شعبان کی شب تو اس میں فضیلت ہے اور اسلاف اس میںنمازوں کا اہتمام کیا کرتے تھے‘‘

غیر مقلدین کے ترجمان صاحب تحفۃ الاحوذی شرح سنن ترمذی علامہ عبد الرحمن مبارک پوریؒ لکھتے ہیں:

 انہ قد ورد فی فضیلۃ لیلۃ النصف من شعبان عدۃ احادیث یدل علی ان لہا اصلا(تحفۃ الاحوذی:کتاب الصوم ،باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان)

’’بیشک پندرہ شعبان کی شب کی فضیلت کے سلسلہ میں بہت سی احادیث مروی ہیںجو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس کی اصل ضرور ہے ‘‘

مذکورہ عبارت تحریر کرنے کے بعد اس کی فضیلت کی چند روایتیں تحریر کرتے ہیں پھر تمام احادیث کی روشنی میں یہ فیصلہ تحریر کرتے ہیں:

فہذہ الاحادیث بمجموعہا حجۃ علی من زعم انہ لم یثبت فی فضیلۃ لیلۃ النصف من شعبان شیٔ(حوالہ سابق)

’’یہ تمام احادیث ان لوگوں کے خلاف دلیل ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ پندرہ شعبان کی شب کی فضیلت کے بارے میںحدیث سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے‘‘

ایک اور غیر مقلد عالم شیخ ابوالحسن عبید اللہ بن محمد عبد السلام مبارکپوری لکھتے ہیں:

ورد في فضيلة ليلة النصف من شعبان أحاديث أخرى، وقد ذكر المصنف بعضها في الفصل الثالث، وسنذكر بقيتها هناك إن شاء الله تعالى. وهي بمجموعها حجة على من زعم أنه لم يثبت في فضيلتها شيء ۔۔۔۔۔ وهذه الأحاديث كلها تدل على عظم خطر ليلة نصف شعبان وجلالتہ (مرعاۃ المفاتیح: باب قیام شہر رمضان)

نصف شعبان کی فضیلت کے سلسلہ میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں، جن میں سے بعض کو مصنف(صاحب مشکوٰۃ) نے فصل ثالث میں ذکر کیا ہے ، بقیہ روایتوں کو ہم بھی ان شاء اللہ اسی مقام پر ذکر کریں گے، مجموعی طور پر یہ روایتیں ان لوگوں کے خلاف حجت ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی فضیلت کے سلسلہ میں کوئی حدیث ثابت نہیں ہے ۔۔۔۔۔ یہ ساری حدیثیں نصف شعبان کی شب کی عظمت اور جلالت پر دلالت کرتی ہیں‘‘

ماضی قریب کے مشہور سعودی عالم شيخ محمد بن صالح بن محمد العثيمين لکھتے ہیں:

 ليلة النصف من شعبان روي في فضلها أحاديث ومن السلف من يخصها بالقيام ومن العلماء من السلف وغيرهم من أنكر فضلها وطعن في الأحاديث الواردة فيها، لكن الذي عليه كثير من أهل العلم أو أكثرهم على تفضيلها(مجموع فتاوی ورسائل ابن عثیمین :۷؍۱۵۶)

’’نصف شعبان کی شب کی فضیلت کے سلسلہ میں کئی حدیثیں مروی ہیں، اور اسلاف میں سے بہت سے حضرات اس رات میں بطور خاص عبادت کرتے تھے، اور اسلاف وغیرہ میں سے بعض علماء اس رات کی فضیلت کے منکر ہیں، اور انہوں نے اس کے بارے میں مروی روایات پر نقد کیا ہے ، لیکن جس بات پر بہت سے بلکہ اکثر اہل علم کا اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ اس رات کی فضیلت ہے ‘‘

ماضی قریب ہی کہ بہت بڑے عالم شیخ وہبہ زحیلی لکھتے ہیں:

ويندب إحياء ليالي العيدين (الفطر والأضحى) ، وليالي العشر الأخير من رمضان لإحياء ليلة القدر، وليالي عشر ذي الحجة، وليلة النصف من شعبان(الفقہ الاسلامی وادلتہ:۲؍۲۹۹)

عیدین (عید الفطر اور عید الاضحی) کی راتوں میں، شب قدر پانے کی خاطررمضان کے آخری عشرہ کی راتوں میں، عشرۂ ذی الحجہ کی راتوں میں اور نصف شعبان کی رات میں جگنا(جگ کر عبادت کرنا)مستحب ہے ‘‘

مفتی جامعہ ازہر مفتی عطیہ صقر شب برأت کی روایتوں کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

بهذه الأحاديث وغيرها يمكن أن يقال: إن لليلة النصف من شعبان فضلا، وليس هناك نص يمنع ذلك (فتاوی الازہر:۱۰؍۱۳۱)

’’ان احادیث وغیرہ کی روشنی میں یہ کہنا ممکن ہے کہ نصف شعبان کی شب کی فضیلت ہے ، اور اس سلسلہ میں کوئی ایسی نص نہیں ہے جس میں اس کی ممانعت موجود ہو‘‘

بعض احباب جنہیں اس رات کی عظمت سے بیر ہے وہ اپنی دلیل میں یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ اگر واقعی اس رات کی اہمیت وعظمت ہوتی تو حرمین میں اس رات جگ کر عبادت کرنے کا رواج ہوتا، ان سے عرض ہے کہ حرمین میں ماضی سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے اور آج بھی ہے ، ابوعبد اللہ محمد ابن اسحاق بن عباس مکی فاکہیؒ (م ۲۷۲ھ) مکہ کے رہنے والے ہیں، اور انہوں نے اپنے زمانے کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :

وأهل مكة فيما مضى إلى اليوم إذا كان ليلة النصف من شعبان، خرج عامة الرجال والنساء إلى المسجد، فصلوا ، وطافوا، وأحيوا ليلتهم حتى الصباح بالقراءة في المسجد الحرام، حتى يختموا القرآن كله  (اخبار مکۃ للفاکہی: ذکر عمل اہل مکۃ لیلۃ النصف من شعبان)

’’اہلیان مکہ کا ماضی سے آج تک یہ طریقہ ہےکہ جب نصف شعبان کی شب آتی ہے تو سارے مرد وعورت مسجد حرام میں جمع ہوجاتے ہیں،نماز پڑھتے ہیں، طواف کرتے ہیں، اور مسجد حرام میں تلاوت کرتے ہوئے صبح تک جاگتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ پورا قرآن پڑھ جاتے ہیں‘‘

ان کی یہ شہادت کھلی دلیل ہے کہ ہر دو ر میں شب برأت میں عبادت کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے ، اورمذکورہ احادیث اور فقہا ء کی تصریحات کی روشنی میں شب برأت کی حقیقت بالکل ہی عیاں ہوجاتی ہے کہ اللہ نے اس رات کو اپنے بندوں کے گناہوںکی مغفرت کا ایک بہترین موقع بنایا ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھا ئیں اور اللہ سے پروانہ ٔ  مغفرت حاصل کرلیں۔اس لئے اس رات کی مسلمہ اہمیت کو تسلیم کرکے اسے ایک قیمتی موقع سمجھنا اور اس کے ختم ہونے سے پہلے اللہ کو راضی کرلینا ہی اصل عقلمندی ہے ،کیونکہ جب مغفرت کے خزانے لٹائے جارہے ہوں اور کوئی ’’چوںو چرا‘‘ کی لایعنی بحث میں پڑکر اس قیمتی اورسنہری موقع کو گنوارہا ہواور اعلان خداوندی کے باوجود اس کے دل کواس نعمت کے ملنے کایقین نہ ہو تواس سے زیادہ حرماں نصیب اور کون ہوسکتا ہے؟؟یہ تو اللہ کا لطف وکرم ہے کہ اس نے ہم عاصیوں اور سراپا تقصیربندوں کی حالت زار پر رحم کھا کرہمیں یہ نعمت عظمیٰ دے دی ہے ؛کیونکہ’’ رحمت حق بہا نمی جوید ،بہانہ می جوید‘‘ لیکن ہم ہیں کہ ہمیں اللہ کی طرف انابت وتوجہ کے بجائے ،نعمت خداوندی کی ناشکری اور اس کی توہین ہی بھلی معلوم ہورہی ہے ، اسی میں ساری قوتِ فکر کو َصرف کرنے میں ہم لگے ہوئے ہیں اور اللہ کے پیغمبرﷺکے واضح اعلان کے باوجود ہمیں نعمت خداوندی کا یقین نہیںہے۔  فالی اللہ المشتکیٰ وہو ولی التوفیق۔

شب برأت میں عبادت کا طریقہ؟

شب برأت میں جگ کر عبادت کا اہتمام مستحب ہے ، اس کے لئے شرعی طریقہ یہ ہے کہ ہر آدمی اپنی مرضی سے انفرادی طور پر عبادات میں مصروف ہو، اس رات عبادت کے لئے لوگوں کو جمع کرنے یا اجتماعی طور پر کسی عبادت کا اہتمام کرنےکو فقہاء نے مکروہ کہا ہے اور بدعت میں شمار کیا ہے ۔(الموسوعۃ الفقہیۃ: احیاء)

علامہ ابن نجیم مصری ؒلکھتے ہیں:

يكره الاجتماع على إحياء ليلة من هذه الليالي في المساجد (البحر الرائق: ۲؍۵۶)

’’ان فضیلت والی راتوں میں سے کسی رات میں جاگنے (عبادت) کے لئے مسجدوں میں اجتماع مکروہ ہے ‘‘

 اس لئے اس رات کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے ہرشخص کو اپنی خوشی سے انفرادی طور پرحسب استطاعت عبادت کا اہتمام کرنا چاہئے، چاہے وہ تلاوت وذکرکی شکل میں ہو، یا نماز ومناجات کی شکل میں ہو، جیسا کہ حدیث میں ہے نبی اکرم ﷺ نے اس رات کی فضیلت بیان کرنے پر اکتفاء کیا ، اور خود اکیلے عبادت میں مصروف رہے۔خود حضرت عائشہ ؓ کو بھی نہیں کہا کہ وہ بھی عبادت میں مصروف ہوجائیں، اور نہ صحابہ کرام ؓ کو جمع کیا ، البتہ یہ حضرات نیکیوں کی تلاش میں رہتے تھے اور نبی اکرم ﷺ کے نقش قدم اور آپ کی تعلیمات کی مکمل پیروی ان کی طبیعت میں رچ بس چکی تھی اس لئے انھوں نے بھی فضیلت کو سن کر اس رات اپنے اپنے طور پر عبادت کا اہتمام شروع کردیا۔

شب برأت میں باجماعت نفل اور صلاۃ التسبیح کا اہتمام؟

بعض مسجدوں میں ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ اس رات لوگوں کو جمع کرتے ہوئے باضابطہ یہ اعلان ہوتا ہے کہ رات کے اتنے بجے باجماعت نفل یا باجماعت صلاۃ التسبیح پڑھی جائے گی،اس طرح کا اعلان واجتماع اور نوافل کا باجماعت اہتمام بہت بری بدعت ہے جس کی شریعت اسلامیہ میں اجازت نہیں ہے ،اور رسول اللہ ﷺ ، صحابہؓ اور اسلافؒ سے ثابت نہیں ہے،فقہاء کرام ؒنے لکھا ہے کہ رمضان کے علاوہ کسی اور موقع پر نفل نماز کو جماعت سے پڑھنا مکروہ ہے ۔(حاشیۃ الشلبی: ۱؍۱۸۰)

علامہ ابن نجیم مصری حنفی لکھتے ہیں:

ولا يصلى تطوع بجماعة غير التراويح وما روي من الصلوات في الأوقات الشريفة كليلة القدر وليلة النصف من شعبان وليلتي العيد وعرفة والجمعة وغيرها تصلى فرادى (البحر الرائق: ۲؍۵۶)

’’تراویح کے علاوہ کوئی بھی نفل نماز جماعت سے نہیں پڑھی جائے گی، اور اوقات شریفہ جیسے کےشب قدر، پندرہ شعبان کی رات، عیدین ، عرفہ ، جمعہ وغیرہ کی راتیں ہیں تو ان میں جو نماز یں ہیں وہ اکیلی پڑھی جائیں گی‘‘

مخصوص طریقہ کی نماز

اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کہ فلاں طریقے سے عبادت کی جائے ، جیسے بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایک طریقہ گھڑ کر یہ کہہ دیا کہ شب ِ برات میں اس خاص طریقے سے نماز پڑھی جاتی ہے ، مثلاََ پہلی رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے، دوسری رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے وغیرہ وغیرہ، اسکا کوئی ثبوت نہیں، یہ بالکل بے بنیاد بات ہے۔

اسی طرح بعض لوگ یہ مشہور کرتےہیں اس رات ترتیب وار مختلف حاجات کے لئے دو دو رکعت مخصوص سورتوں کی تلاوت کے ساتھ پڑھنی چاہئے ، تو وہ حاجتیں پوری ہوجاتی ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ذخیرۂ احادیث میں ایسی کوئی حدیث نہیں ہے ،یہ محض لوگوں کی من گھڑت بات ہے ، جس سے بچناضروری ہے ۔اس رات دعا قبول ہوتی ہے، مخصوص کیفیات اور طریقوں کا اہتمام کرنے کے بجائے حسب استطاعت ذکر وتلاوت اور نماز کے ذریعہ اللہ کو راضی کرنےکی کوشش کرکے اللہ کے سامنے اپنی حاجتوں کو پیش کرنے سے ان شاء اللہ قبولیت نصیب ہوگی، اور حاجتیں پوری ہوں گی۔

مخصوص قسم کی نماز کو ثابت کرنے کے لئے کئی لوگ اس روایت کو پیش کرتے ہیں:

من قرأ ليلة النصف من شعبان ألف مرة قل هو الله أحد في مائة ركعة لم يخرج من الدنيا حتى يبعث الله في منامه مائة ملك، ثلاثون يبشرونه بالجنة، وثلاثون يؤمنونه من عذاب النار، وثلاثون يعصمونه من أن يخطيء وعشرة يكيدون من عاداه

’’جو شخص پندرہ شعبان کی شب میں سو رکعت میں ایک ہزار مرتبہ (ہررکعت میں دس مرتبہ)قل ہو اللہ احد پڑھے گا، تو وہ دنیاسے نہیں نکلے گا یہاں تک کہ اللہ اس کے خواب میں سو فرشتوں کو بھیجیں گے جن میں سے تیس اسے جنت کی بشارت دے رہے ہوں گے، تیس اسے جہنم سے بچا رہے ہوں گے ، تیس اس کو غلطیوں کو بچائیں گے اور دس اس کے دشمنوں سے انتقام لیں گے‘‘

حقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی حدیث ہے ہی نہیں، بلکہ یہ من گھڑت بات ہے جو حدیث کے نام سے پھیلائی گئی ہے ، علامہ ابوالحسنات لکھنوی علیہ الرحمۃ نے اس پر کلام کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ’’ موضوع‘‘ ہے اور علامہ ابن الجوزی ؒ، علامہ سیوطیؒوغیرہ نے اس کو موضوع کہا ہے ، اور بعد کے بھی محدثین نے اسی کی صراحت کی ہے کہ یہ حدیث نہیں ہے ۔(الآثار المرفوعۃ: ۷۹)

علامہ شوکانی ؒ نے لکھا ہے کہ پندرہ شعبان کی رات میں مختلف طریقوں کی نماز کی روایتیں نقل کی گئیں ہیں، وہ سب کی سب من گھڑت اور موضوع ہیں۔(الفوائد المجموعۃ : ۵۱)

علامہ نووی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں کہ رجب کی پہلی رات میں مغرب اور عشاء کے درمیان کی بارہ رکعت جو کہ ’’ صلاۃ الرغائب ‘‘ کے نام سے معروف ہے اور پندرہ شعبان کی سو رکعت ،یہ دونوں نمازیں بدعت اور قبیح ترین برائی ہیں۔(المجموع: ۴؍۵۵)

شب برأت کی لائٹنگ اورخصوصی روشنی کے انتظامات

اس رات بہت سے لوگ خصوصی لائٹنگ اور روشنی کے انتظامات کرتے ہیں، گلیوں کو روشن کرتے ہیں، یہ عمل بھی برا ہے جس سے بچناضروری ہے ، آج کی رات تنہائی میں بیٹھ کر عبادت کرنے کے لئے ہے ، نہ کہ جشن اورچراغاں اور شور ہنگامے کے لئے ،بلکہ اس کے اہتمام میں بہت سے مفاسد ہیں کہ اس مقدس رات میں انسان ان چیزوں میں پڑکر ’’ اسراف‘‘ اور فضول خرچی میں مبتلا ہوتا ہے ؛ کیونکہ ضرورت سے زیادہ بلاوجہ روشنی جلانا اسلام میں ناپسندیدہ ہے ، نیز بہت سی جگہوں پر باضابطہ قبرستانوں کو بھی روشن کیا جاتا ہے ، یہ بھی ناپسندیدہ عمل ہے ، قبرستانوں میں چراغان کرنا ثابت نہیں ہے، بلکہ ایک روایت میں اس پر لعنت بھیجی گئی ہے۔(نسائی: ۲۰۱۶)

شب برأت میں قبرستان جانا؟

روایت میں ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ اس رات قبرستان میں تشریف لے گئے ،اس لئے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شبِ برات میں قبرستان جائیں، لیکن قبرستان جانے کو اس رات کا ایک لازمی عمل سمجھنا درست نہیں ہے ، جو چیز رسول کریم ﷺ سے جس درجہ میں ثابت ہو اسی درجے میں اسے رکھنا چاہئے، اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے، لہٰذا ساری حیاتِ طیبہ میں رسول کریمﷺ سے ایک مرتبہ جانا مروی ہے کہ آپ شبِ برات میں جنت البقیع تشریف لے گئے ، چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے اس لئے اگر کوئی زندگی میں ایک مرتبہ چلاجائے تو ٹھیک ہے ، لیکن ٹولیاں بناکر ہر شب برأت میںقبرستان جانے کا اہتمام کرنا،التزام کرنا، اور اسکو ضروری سمجھنا اور اسکو شب برات کے ارکان میں داخل کرنا اور اسکو شب برأت کا لازمی حصہ سمجھنا اور اسکے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برأت نہیں ہوئی ، یہ اسکو اسکے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے، اور درست نہیں ہے ۔

شب برأت میں حلوہ پکانا

شبِ براء ت میں بعض لوگ حلوہ بھی پکاتے ہیں؛ حالاں کہ اس رات کا حلوے سے کوئی تعلق نہیں۔ آیات کریمہ، احادیث شریفہ، صحابہٴ کرام ؓکے آثار، تابعین و تبع تابعین کے اقوال اور بزرگانِ دین کے عمل میں کہیں اس کا تذکرہ اور ثبوت نہیں۔

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک جب شہید ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلوہ نوش فرمایاتھا، یہ بات بالکل من گھڑت اور بے اصل ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک غزوئہ احد میں شہید ہوئے تھے، اور غزوئہ احد ماہِ شوال میں پیش آیا تھا، جب کہ حلوہ شعبان میں پکایا جاتا ہے، دانت ٹوٹنے کی تکلیف ماہِ شوال میں اور حلوہ کھایا گیا دس مہینے بعد شعبان میں، کس قدر بے ہودہ اور باطل خیال ہے!

اور بھی مخصوص قسم کے کھانوں اور پکوان کو لوگوں نے اس رات سے جوڑ دیا ہے جو سراسر بے بنیاد ہے اور اس کی دلیل کے طور پر جوباتیں پیش کی جاتیں ہیں وہ سب من گھڑت ہیں۔

گھروں کی خصوصی صفائی اور مردوں کی روحوں کے آنے کا تصور؟

گھروں کی صفائی ہمیشہ مطلوب ہے ، لیکن شبِ براء ت کے موقع پر گھروں کی خصوصی صفائی  اور نئے کپڑوں کی تبدیلی کا اہتمام کیا جاتا ہے، گھروں میں اگربتیاں جلائی جاتی ہیں،اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس رات میں مردوں کی روحیں گھروں میں آتی ہیں، ان کے استقبال میں ہم ایسا کرتے ہیں۔ یہ عقیدہ بالکل فاسد اور مردود ہے، کسی بھی حدیث سے روحوں کا آنا ثابت نہیں ہے،  اس لئے یہ عقیدہ رکھنا جائز نہیں۔اور پھر اس عقیدہ کے تحت دیگر کئے جانے والے خرافات کی بھی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔

اس رات میں بندوں پراللہ کی  جو خصوصی توجہ اور عنایت ہوتی ہے ، اور جس طرح گنہگاروں کو مغفرت نصیب ہوتی ہے ، اس سے محروم رکھنے کے لئے شیطان نے بہت سے لوگوںکو اس کی فضیلت کے اعتراف سے روکا تو بہت سے اعتراف کرنے والوں کو لایعنی کاموں میں لگایا، ہماری کامیابی اس میں ہے کہ شیطان کی چال کو ناکام بناکر اس کی فضیلت کو سمجھیں اور اس کی قدر کریں، اور یہ اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں، کہ اس رات میں نہ کوئی مخصوص رسم و رواج ہے ، نہ کوئی مخصوص پکوان ہے ، اور نہ ہی عبادت کا کوئی مخصوص انداز ہے ، ہمیں اس رات میں صرف اللہ کی عبادت کرنی ہے ، چاہے تلاوت کی شکل میں ہو، یا نماز کی شکل میں ہو، یا ذکر وتسبیح کی شکل میں ہو۔ اور ان کے علاوہ تمام خرافات نیز لایعنی کاموں ، کھیل کود ، سیر وتفریح ، اور دوستوں کے ساتھ مجلس یا کسی قسم کا مقابلہ وغیرہ سے اپنے آپ کو مکمل بچانا ہے، اگر کچھ نہیں کرسکتے تو عشاء کی نماز باجماعت پڑھ کر سوجائیں اور فجر کی نماز باجماعت پڑھنے کا اہتمام کرلیں تو بھی اس رات کی عظمت وبرکت سے محرومی نہیں ہوگی ، لیکن اس رات میں خرافات میں لگنا یقینا بڑی محرومی ہے اور اس رات کی بڑی ناقدری ہے ۔اللہ ہم سبھوں کو اس سے محفوظ رکھے اور اس بابرکت رات سے مستفید ہونے کی توفیق دے۔

پندرہویں شعبان کا روزہ؟

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا‘

’’جب پندرہ شعبان کی شب آئے تو اس رات کو عبادت کرو اور اس دن روزہ رکھو اس لئے کہ اس رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ آسمان دنیا پر تشریف لاتے ہیں اورصبح صادق تک یہ اعلان کرتے رہتے ہیں کہ کیا ہے کوئی مغفرت کا طالب جس کی میں مغفرت کردوں ؟کیا کوئی رزق کا طلب گار ہے جسے میں رزق عنایت کروں؟کیا کوئی مصائب میں مبتلا ہے جسے میں اس سے نجات دوں؟‘‘( ابن ماجۃ : باب ماجاء فی فضل لیلۃ النصف من شعبان)

اس روایت میں پندرہ شعبان کو روزہ رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے ، اس لئے ائمہ وفقہاء نے پندرہ شعبان کے روزہ کو مستحب روزوں میں شمار کیا ہے ۔بعض لوگ اس روزہ سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ روایت ناقابل اعتبارہے ، کیونکہ اس میں ایک راوی ابوبکر بن عبد اللہ بن محمد بن ابی سبرہ ہیں جن پر حدیثیں گھڑنے کا الزام ہے ، اس لئے یہ حدیث ناقابل اعتبار ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ محدثین اور اہل فن کے نزدیک کسی راوی پر محض الزام ہونے سے اس کی ساری روایت ’’موضوع ‘‘نہیں ہوجاتی ، اس کی بہت سی مثالیں ہیں،یہی وجہ ہے کہ محد ثین نے اس مذکورہ روایت کو ضعیف توکہا ہے ، لیکن کسی نے اس کو موضوع نہیں کہا ہے ، اگر واقعی یہ روایت بے بنیاد ہوتی تو محدثین اس کو ’’موضوع‘‘ شمار کرتے، حتی کہ ابن ماجہ کی موضوع روایات کو جس کتاب میں مستقل جمع کیا گیا ہے اس میں بھی اس روایت کو موضوع روایات کے ساتھ جمع نہیں کیا گیا ہے ، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ روایت موضوع نہیں ہے اورجب محدثین کے یہاں یہ روایت موضوع نہیں ہے بلکہ ضعیف ہے ، اور یہ کسی صحیح سے متصادم بھی نہیں ہے ، نیز اس کا تعلق’’ فضیلت عمل ‘‘سے ہے تو اس کو قبول کرتے ہوئے اس روزہ کو مستحب کہنے اور ماننے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔اسی لئے علامہ شمس الدین محمدابن ابی العباس احمد الرملی نے تو صاف کہا ہے کہ اس حدیث سے استدلال کیا جائے گا(فتاوی الرملی:کتاب الصوم)

اس لئے یہ روزہ مستحب روزوں میں سےہے، جس کا اہتمام ان شاء اللہ باعث اجر ہوگا۔

اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ، اللہم   وفقنا لما تحب وترضی واجعل آخرتنا خیرا من الاولی، وصلی اللہ علی حبیبہ سیدنا محمد وآلہ وصحبہ اجمعین والحمد للہ رب العالمین۔

تبصرے بند ہیں۔