شب ِعید اور ہماری غفلت

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

ماہ رمضان اپنی تمام ترجلوہ سامانیوں کے ساتھ آیا اورخوب رحمتیں ،برکتیں اورسعادتیں بکھیرکر نہایت تیزی کے ساتھ اختتامی منازل کی طرف گامزن ہوگیا۔ اللہ کے بندوں نے حسب توفیق اپنےآپ کو عبادتوں میں مصروف رکھا۔کچھ کے حصے میں مسنون اعتکاف کی فضیلتیں آئیں تو کچھ نے انفرادی اعمال کےذریعہ رضائے الہی کی کوششیں کی،مسجدیں مصلیوں سے معمور رہیں ،قرآن مجید سننےسنانےکااہتمام رہا،ہرطرف خیرات و نیکیوں میں سبقت کا ایک سماں رہا،غرض ذکروتلاوت ،تہجد ونوافل ،دعاءوبکاء، انفاق و عطیات اورمختلف طاعات وعبادات کاایک دل کش ماحول دکھائی دیا،اس نورانی فضاءمیں ہرکسی نےوسعت بھر  اپنے اپنے دامن کوبھرلیا؛مگرہائےحسرت کہ وقت کودوام نہیں ،اب ان لمحوں کوبھی بھی گزرجاناہے،پھر دیکھتے ہی دیکھتےچندساعتوں میں شوال المکرم کا چاندبھی نظر آجائےگا اور ہم مایوسی و درماندگی کےساتھ ماہ مبارک کورخصت والوداع کریں گے اور خوشی ومسرت کے ساتھ عید سعید کا استقبال کریں گے۔

ادھرہلال عیدکے ساتھ ہی  ہرطرف ہلچل شروع ہوجاتی ہے،خریدوفروخت،تجارت و  سوداگری بام عروج کوپہونچ جاتی ہےاور ہرکوئی عید کی تیاری میں اس طرح مست ومگن ہوجاتاہےکہ ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ یعنی انعام اور بخشش کی رات کاتصور تک ذہن ودماغ سے محو ہوجاتاہے۔

جب کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا، پورے رمضان میں جس قدر لوگوں کی مغفرت ہوتی ہے صرف اس ایک رات میں اتنے لوگوں کی بخشش کر دی جاتی ہے، اندازہ لگائیں کہ اس رات، رحمت الٰہی کی کس قدر فراوانی رہتی ہے!

شبِ عیدکی عبادت، روایات کی روشنی میں:

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

‘‘جو شخص عید الفطر اور عید الاضحی کی راتوں میں عبادت کی نیت سے قیام کرتا ہے، اس کا دل اس دن بھی فوت نہیں ہوگا جس دن تمام دل فوت ہو جائیں گے۔‘‘(ابن ماجه، باب فيمن قام فی ليلتی العيدين )

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

جو شخص پانچ راتیں عبادت کرے، اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ وہ راتیں یہ ہیں :  آٹھ ذو الحجہ، نو ذوالحجہ (یعنی عید الاضحیٰ)، دس ذوالحجہ، عید الفطر اور پندرہ شعبان کی رات (یعنی شبِ برات)۔‘  (الترغيب والترهيب للمنذری)

حضرت عبد اللہ بن عمرسے موقوفاً مروی ہے :پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعاء کو ردّ نہیں کیا جاتا :

جمعہ کی شب ، رجب کی پہلی شب ، شعبان کی پندرہویں شب ، اور دونوں عیدوں (یعنی عید الفطر اور عید الاضحیٰ)کی راتیں ۔(مصنف عبد الرزاق)

ہماری حالتِ زار:

اس اہمیت وفضیلت  کےباوجود بہت درد کے ساتھ یہ لکھناپڑرہاہے گذشتہ چند دہائیوں سے ہماری زندگی کی یہ سب سےاہم ،قیمتی، بخشش اورمغفرت والی رات بازاروں اور مارکیٹوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ مسجدیں اور گھر کے مصلے خالی ہو جاتے ہیں اور شاپنگ مال  اور خریدوفروخت کےمراکز  آباد ہو نے لگتے ہیں، ویسے رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتے ہی راتوں کو بازاروں اوردکانوں میں ایک ہجوم امنڈ آتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سال بھر کی خریداری ان ہی مبارک راتوں میں کرنی ہے … اس طرح جو وقت عبادت ، دعا ء، تلاوت اورذکرواذکار میں گذرنا چاہئے، وہ اللہ کےہاں سب سے مبغوض اورناپسندمقامات میں بغیرکسی احساس کےصرف ہوجاتاہے۔

علاوہ ازیں بے پردہ،مخلوط اور گناہ والے ماحول کی وجہ سے رمضان المبارک کے مقدس وروح پرور ماحول میں جو کچھ باطنی پاکیزگی اور نورانیت حاصل ہوتی ہے ، وہ ساری کی ساری غارت ہو جاتی ہے۔ یقیناً گھر اور بچوں کے لئے عید کے موقع پر خریداری کرنی چاہئے اور شریعت کی رو سے اس میں کوئی ممانعت بھی نہیں ؛مگر اوّل تو خریداری کا شیڈول ہی ایسا بنانا چاہئے کہ رمضان کے مبارک ماہ کا کوئی ایک لمحہ بھی اس میں صرف نہ ہو، رمضان سے پہلے ہی ضرورت کی خریداری سے فراغت حاصل کی جائے لیکن اگر رمضان ہی میں خریداری کی نوبت آبھی جائے تو اس کے لئے ایسے اوقات رکھے جائیں جن میں کوئی نماز متاثر نہ ہو اور رات کے قیمتی اوقات کو تو ہر حال میں مارکیٹ اور بازاروں کے لہوولعب سے بچانا چاہئے۔

ایک صاحب قلم دیدہ ور عالم دین لکھتے ہیں کہ:‘‘ ایک حقیقی مسلم معاشرے میں رمضان کی راتوں میں مارکیٹیں اور بازار نہیں ، بلکہ صرف مسجدیں آباد رہتی ہیں ، بوڑھی اور کم عمر خواتین گھر میں مصلوں کو آباد رکھتی ہیں ، عبادت ہوتی ہے، تلاوت ہوتی ہے، دعائیں ہوتی ہیں ، مرادیں مانگی جاتی ہیں اور رب کی طرف سے فیاضی اور عطا و فراونی کے جوش کا یہ عالم ہوتا ہے کہ بس رحمت الٰہی کو ایک بہانہ کی تلاش رہتی ہے کہ کوئی مانگے اور وہ عطا کر دے… کوئی جھولی پھیلائے اور وہ بھر دے… کوئی بخشش کا نالہ بلند کرے او ر وہ مغفرت کا پروانہ تھما دے … اس لئے ہمیں چاہئے کہ اس قیمتی عشرہ کی قدر کریں ، عید کی خریداری بقدر ضرورت کریں اور عید کی رات کو قدرت کا انمول تحفہ سمجھ کر عبادت ومناجات، ذکر واذکار سے آباد رکھیں ، اپنی انفرادی زندگی کی کدورتوں کو ندامت کے آنسوئوں سے صاف کرنے کی فکر کریں اور ملک و ملت اور عالم اسلام کو بحرانوں اور مصائب سے نکلنے کے لئے دعاؤں کا اہتمام کریں کہ یہ وقت، وقتِ دعا ہے اور ہماری فانی زندگیوں کا انمول اثاثہ ہے’’۔

المختصر:

شب عیدوہ رات ہے جس میں رمضان بھر کے اعمال کی مزدوری دی جاتی ہے ، اجر و ثواب کے خزانے اور مغفرت و رحمت کی بیش بہا دولت بکھیری جاتی ہے۔کس قدر محرومی اور خسارے کی بات ہے کہ پورے مہینے روزے رکھ کر جب اَجر ملنے کا وقت آئے تو اِنسان اُس سے اِعراض کرنے لگ جائے ، یہ تو ایسا ہی ہوگیا جیسے کوئی دن بھر کام کرنے کے بعد شام کو جب مالک کی جانب سے اجرت ملنے کا وقت ہو تو مزدوری لینے سے اِنکار کردے۔

اِس لئے اِس رات کی قدر دانی کرتے ہوئےاِس شب کو قیمتی بنانا چاہیئے اور اُس اجر و ثواب کے حصول کیلئے مُشتاق ہونا چاہیئے؛جس کا اللہ نے وعدہ فرمایاہے۔

تبصرے بند ہیں۔