شب ِ قدر: رب کو منانے کی رات ہے!

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

     اللہ تعالی اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے ،وہ اپنے بندوں کو ایسے مواقع عطا فرماتے ہیں جن کے ذریعہ بندہ اپنے دل کی ظلمتوں کودور کرسکے اور رب کی مغفرت کو پاسکے،گناہوں کو دھوسکے اور نیکیوں سے دامن کو بھر سکے ،غلطیوں سے توبہ کرسکے اور پاکیزہ حیات گزارسکے ،خدافراموشی سے نکل کر اطاعت وفرماں برداری کے سانچے میں ڈھل سکے ،من مانیوں کو چھوڑکر رب چاہیوں کو اپنا سکے ،بے مقصد زندگی سے دامن جھاڑکر عبادت وبندگی کی طرف آسکے ،محرومیوں سے نکل کر جود وسخا کے بہرور ہوسکے ، نافرمانوں سے جدا ہوکر نیک ومتقیوں میں شامل ہوسکے۔چناں چہ ان ہی مواقع میں سے ایک عظیم اور قیمتی موقع ’’شب ِ قدر ‘‘ ہے۔جو نہایت برکتوں ،عظمتوں ،رحمتوں ،الطاف وعنایتوں کی رات ہے ۔شب ِ قدر اپنے خالق ومالک ،محسن ومنعم پروردگار کومنانے اور اس کی مہربانیوں سے دامن ِ مراد کو بھرنے کی رات ہے۔

    انسان دنیا میں رہ کر اس کی ہنگامہ آرائیوں میں اپنے مقصد سے غافل ہوجاتا ہے ،دل پر اندھیرا چھا جاتا ہے اورذہن و دماغ پر مادیت کا نشہ چڑھ جاتا ہے،اعمال سے دوری اور نیکیوں سے محرومی ہونے لگتی ہے اور عبادت وبندگی میں کوتاہی وغفلت کا شکار ہوکر رہ جاتا ہے ۔ایسے میں کریم پرودگار نے اپنے بندوں کو قریب کرنے اور پھر سے ان کو معاف کرنے اور عبادتوں کے ذریعہ ان کی زندگی کو کمال ِ بندگی پر پہنچانے کے لئے جہاں رمضان المبارک کا ایک مکمل مہینہ رکھا وہیں شب ِ قدر کی بابرکت را ت رکھی جس کی عظمت واہمیت کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا ،اس لئے قرآن کریم میں اس رات کا تعارف بھی بڑے عجیب اور دلچسپ انداز میں کروایا گیا ۔ارشاد ہے:انا انزلنا ہ فی لیلۃ القدر وما ادرک مالیلۃ القدر لیلۃ القدرخیر من الف شھر تنزل الملائکۃ والروح فیھا باذن ربھم من کل امر سلام ھی حتی مطلع الفجر۔( سورۃ القدر:1۔5)بیشک ہم نے اس ( قرآن ) کو شب ِ قدر میں نازل کیا ۔اور تمہیں کیا معلوم کہ شب ِ قدر کیا چیز ہے ؟شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔اس میں فرشتے اور روح اپنے پروردگار کی اجازت سے ہر کام کے لئے اترتے ہیں، وہ رات سراپا سلامتی ہے فجر کے طلوع ہونے تک ۔‘‘

    سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے اس رات کی عظمت واہمیت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:من قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ۔(بخاری: 1777)یعنی جو شخص شب ِ قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثوا ب کی نیت سے عبادت کے لئے کھڑا رہا اس کے تمام پچھلے ( صغیرہ) گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں ۔اور جو اس رات سے محروم رہ گیا اور عبادتوں کو انجام دینے سے غافل رہا تو ایسے شخص کو نبی کریم ﷺ نے سب سے بڑا محروم القسمت فرمایا ہے ۔چناں چہ ارشاد ہے :ان ھذا الشھرقداحضرکم وفیہ لیلۃ خیر من الف شھر،من حرمھا فقد حرم الخیر کلہ ،ولایحرم خیرھا الا محروم ۔( ابن ماجہ:1634) تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے ،جس میں ایک رات ہے جوہزار مہینوں سے افضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا وہ سارے ہی خیر سے محروم رہ گیا اور اس کی بھلا ئی سے محروم نہیں رہتامگر وہ شخص جو حقیقتاً محروم ہی ہے ۔

 شب ِ قدر چوں کہ اللہ تعالی کی خصوصی عطا کی رات ہے اس امت کے لئے ،جس کے ذریعہ اللہ اپنے بندوں کو نوازنا اور معاف کرنا چاہتے ہیں اور قصوروارں کو بخشنا اور عفو ودرگزرکامعاملہ فرماناچاہتے ہیں اس کے لئے یہ رات بھی ایک بہانہ ہے ۔اور اس رات میں جو دعا مانگنے کی تلقین کی گئی ہے وہ بھی اسی حقیقت کو واضح کرتی ہے ۔چناں چہ حضرت عائشہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا تھا کہ اگر شب ِ قدر نصیب ہوجائے تو کونسی دعا مانگنا چاہئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عنی کے ذریعہ دعا مانگو۔

    اب ہمیں چاہیے کہ اس عظیم اور بابرکت رات میں اللہ تعالی معافی مانگے اور توبہ کا اہتمام کرے ،اللہ اپنے بندوں کی توبہ بہت جلد قبول فرماتے ہیں ۔قرآن کریم میں اللہ تعالی نے گنہ گار بندوں کو مایوس نہ ہونے کا حکم دیتے ارشاد فرمایا:قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لاتقنطوامن رحمۃ اللہ  ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا انہ ھوالغفور الرحیم۔(الزمر:۵۳)’’کہہ دو:اے میرے وہ بندو!جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کررکھی ہے،اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو،یقین جانو اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے ۔یقینا وہ بہت بخشنے والا،بڑا مہربان ہے۔‘‘یعنی اگر کسی شخص نے ساری زندگی کفر ،شرک یاگناہوں میں گزاری ہے تووہ یہ نہ سمجھے کہ اب اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی ،بلکہ اللہ تعالی کی رحمت ایسی ہے کہ مرنے سے پہلے پہلے جس وقت بھی انسان اپنی اصلاح کا پختہ ارادہ کرکے اللہ تعالی سے اپنی پچھلی زندگی کی معافی مانگے اورتوبہ کرلے تواللہ تعالی اس کے تمام گناہوں کومعاف فرمادیتا ہے۔( توضیح القرآن:2/1425)ایک جگہ ارشاد ہے:وھوالذی یقبل التوبۃ عن عبادہ ویعفوا عن السیات ویعلم ماتفعلون۔(الشوری:25)’’اوروہی ہے جواپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور گناہوں کومعاف کرتا ہے ،اور جو کچھ تم کرتے ہو ،اس کاپورا علم رکھتا ہے۔‘‘اور جگہ فرمایا:یایہاالذین امنوا توبوا الی اللہ توبۃ نصوحا عسی ربکم ان یکفر عنکم سیاتکم ۔( التحریم :8)’’اے ایمان والو!اللہ کے حضور سچی توبہ کرو ۔کچھ بعید نہیں کہ تمہاراپروردگار تمہاری برائیاں تم سے جھاڑدے ۔‘‘قرآن کریم میں جگہ جگہ توبہ کی تلقین کی گئی ،گناہوں سے معافی مانگنے کاحکم دیا گیا اور زندگی کو ایک مرتبہ پھر ازِ سر نو رب کے حکموں کے مطابق ڈھالنے اور بنانے کا پیغام دیا گیا۔

     نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالی کی شان ِ کریمی ورحیمی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:ان اللہ عزوجل یبسط یدہ باللیل لیتوب مسی ء النھار ویبسط یدہ بالنھار لیتوب مسی ء اللیل حتی تطلع الشمس من مغربھا۔( مسلم :4959) بے شک اللہ عزوجل رات کے وقت اپنا ہاتھ پھیلادیتا ہے ( جس طرح اس کی ذات پاک کے شایان ِ شان ہے)تاکہ دن کے وقت گناہ کرنے والا توبہ کرلے،اور وہ اپنے ہاتھ کو دن کے وقت پھیلادیتا ہے تاکہ رات کو گناہ کرنے والا توبہ کرلے اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے یہاں تک کہ جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا۔ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد مروی ہے:لواخطاتم حتی تبلغ خطایاکم السماء،ثم تبتم لتاب علیکم۔(ابن ماجہ:4246)اگر تم اس قدر گناہ کروکہ تمہارے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں ،پھر تم توبہ کرلوتو اللہ تعالی تمہاری توبہ قبول فرمالے گا۔۔آ پ ﷺ سے مروی حدیث قدسی ہے:یا عبادی انکم تخطئون باللیل والنھار ،انااغفر الذنوب جمیعا ،فاستغفرونی اغفرلکم ۔( مسلم :4680)کہ اے میرے بندو!تم دن رات گناہ کرتے ہواور میں تمام گناہ معاف کردیتا ہوں تم مجھ سے بخشش طلب کرو میں تمہیں بخش دوں گا۔

     یہ تین احادیث اور دو تین آیات اللہ تعالی کی بے پناہ رحمت کو ظاہر کرنے والی ہم نے نقل کی ہیں ،باقی قرآن وحدیث میں ایسی بہت سی آیات واحادیث موجود ہے جس سے ایک گنہ گار بندے کو حوصلہ ملتا ہے ،وہ دنیا میں چاروں طرف سے مایوس ہوسکتا ہے ،لوگوں کے سلوک وبرتاؤسے ناامید ہوسکتا ہے ،دنیا اسے تنہا چھوڑسکتی ہے ،لیکن اس کا پروردگار کبھی اس کو تنہا نہیں کرتا ،بلکہ وہ تو بندوں کو اس کی رحمت ومغفرت سے مایوس ہونے نہیں دیتا اورمایوس ہونے سے منع کرتا ہے۔شب ِ قدر دراصل معافی ومغفرت کی رات ہے ،اپنے پیارے اور شفیق رب کو منانے کی رات ہے ،آنسوؤں کو بہاکر،قصوروں کا اقرارکرکے ٹوٹے ہوئے رشتہ ٔ بندگی کو مضبوط کرنے کی رات ہے ۔شکستہ دل کو سہارادینے ،لڑکھڑاتے قدموں کو جمانے کی رات ہے۔بندہ اس رات میں بڑھ کر اپنے مولی کی رحمتوں سے دامن کو بھر سکتا ہے۔شب ِقدر انسانوں کو پیغام دیتی ہے کہ وہ اپنے من میں ڈوب کر زندگی کا سراغ پائے ،وہ دنیا میں لایعنی کاموں کے لئے اور فضول مشغلوں کے لئے نہیں بھیجا گیا،وہ عیش وعشرت کی تلاش ،آرام وراحت ہی کو ڈھونڈنے میں رہ جائے اس لئے نہیں آیا،دنیا کی چمک دمک سے متاثر ہوکر رب کو بھول جائے اور اس کے احکام وتعلیمات کو فرامو ش کردے اس لئے اس کو یہ زندگی عطا نہیں کی گئی ہے بلکہ اس کو یہ حیاتِ مستعار کو بامقصد بناکر آخرت کی حقیقی اور دائمی سرخروئی وکامیابی کو حاصل کرنے کی فکر وکوشش ،محنت وعمل کے لئے دی گئی ہے۔

    اب تک زندگی کی بہت سی راتوں کو ہم نے ضائع کیا،شب ِ قدر کی بہت ہم نے ناقدری کی ،وقت گزاری میں اس کے بابرکت لمحوں کو ختم کیا ،لیکن آئیے اب کہ عہد کریں کہ اس مرتبہ شب ِ قدر کی عظمت کو پامال ہونے نہیں دیں گے ،اور غفلتوں کا شکار ہوکر اس کی رحمتوں سے محروم نہیں ہوں گے۔ہاتھوں کو پھیلائیں گے ،دامن کو دراز کریں گے ،آنکھوں میں ندامت کے آنسو لاکر ،احساسِ شرمندگی کے ساتھ جرموں کے اعتراف اور قصوروں کے اقرار کے ساتھ کریم اللہ سے خوب معافی مانگیں گے اورسچی پکی توبہ کرکے زندگیوں میں انقلاب و اصلاح برپا کرنے کا ایک تازہ ارادہ ،نیا ولولہ ،پختہ عزم کریں گے۔آخر میں مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کی مقبول ِ زمانہ مناجا ت کا ایک بند ملاحظہ کیجیے۔

   آیا ہوں تیرے در پر خاموش نوالے  کر

 نیکی سے تہی  دامن  انبار ِ  خطا  لے  کر

  لیکن تیری چو کھٹ سے امید ِ سخا لے  کر

اعمال  کی  ظلمت  میں توبہ کی  ضیالے کر

دربار   میں  حاضر  اک  بندہ ٔ  آوارہ

تبصرے بند ہیں۔