شجر غرقد یہودیوں کا پاسبان درخت

سید فاروق احمد سید علی

آج پوری دنیا میں ایک عجیب انقلاب برپا ہوا ہے گہما گہمی مچی ہوئی ہے لوگ سکون کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ جہاں اس میں ہمارے اپنیاعمال کا سب سے زیادہ ہاتھ ہے وہیں ایک ذلت ورسوائی کے مقدر والی قوم یہودی قوم کا بھی ہے۔ جنہوں نے آج پوری دنیا میں اپنادبدبہ او رہیبت وقعت قائم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے اور مٹھی بھر ہونے کے باوجود بھی وہ ساری دنیا پر راج کررہے ہیں۔ وہ دنیا کے ہرممالک کو اپنے زور اورپیسوں کی طاقت سے خرید لیتے ہیں اور پھر وہاں اپنا سکہ جمانے کی ہر ممکنہ کوشش کرتے ہیں ۔اور اپنے بنائے ہوئے قانون کو لاگوکرتے ہیں۔ اور اس قوم کا بس ایک ہی مقصد ہے کہ اسلام اور مسلمان پوری دنیا سے ختم ہوجائے بدنام ہوجائے اور ان کا نام ونشان مٹ جائے۔ لیکن اس شعر کے مصداق۔۔

کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری

سوبار لے چکا ہے تو امتحاں ہمارا

ہم مسلمان مٹنے کے لئے نہیں باقی رہنے کے لئے آئے ہیں مگر ایک سخت آزمائش کے بعد۔ بہر کیف میں جس موضوع کی جانب آپ کو لانے کی کوشش کررہا ہوں وہ یہ ہے کہ ان دنوں پوری دنیا میں اسرائیل(یہودیوں ) نے اپنی طاقت کے زور پر مسلمانوں سے اور اسلام سے بچنے کی ہر ممکنہ کوشش شروع کردی ہیجس سے بچائو کے لئے انہوں نے پوری دنیا میں ننگے پن کو عام کیا ہے، فحش فلمیں ، گانا بجانا، جادو ٹونا، ہوائوں کے ذریعہ سحر کا استعمال، خبیث جنات اور شیاطین کا استعمال مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے تکلیف پہنچانے اور ساتھ ہی ساتھ مسلم ممالک کوتباہ وبرباد کرنے کا ایک سلسلہ جو شروع ہوا ہے وہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا اور نہ ہی پوری دنیا کے وہ مسلمان جو طاقت وقوت کے باوجود اسے روکنے سے قاصر ہیں شاید کچھ مجبوری ہے یا وہ بھی ان کے ہمنوابن گئے ہیں ۔

حدیث کے مطابق یہودیوں نے اپنی حفاظت کی خاطردرخت لگانے کی مہم جو پوری دنیا میں شرو ع کررکھی ہے جس میں ہر کوئی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔ اور ان کی مہم میں شانہ بشانہ کھڑا ہے۔نبوی پیشین گوئی کے مطابق حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ مسلمان یہودیوں سے جنگ کریں اور مسلمان انہیں قتل کردیں یہاں تک کہ یہودی پتھر یا درخت کے پیچھے چھپیں گے تو پتھر یا درخت کہے گا اے مسلمان اے عبداللہ یہ یہودی میرے پیچھے ہے آئو اور اسے قتل کردو سوائے درخت غرقد کے کیونکہ وہ یہود کے درختوں میں سے ہے۔(صحیح مسلم:جلد سوم)

قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔]

یہودیوں کے اسکالرز اور محقق قرآن و احادیث کا مطالعہ کرکے اپنی ترقی کی راہیں کھولتے اور مسلمانوں کی کمزوریوں پر گرفت کرتے آرہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہودیوں نے حدیث مبارکہ پڑھنے کے بعد غرقد کو اپنا پاسبان شجر قرار دے رکھا ہے اور اسکی کاشت کو اپنے لئے نعمت سمجھتے ہیں ۔یہودی جانتے ہیں کہ آقائے دوجہاں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلنے والا ھر لفظ سچا ہے اور ہر قیمت پر پورا ھونے والا ہے۔ چنانچہ یہودی اس حدیث کی روشنی میں غرقد کی کاشت میں لگے ہوئے ہیں تاکہ مسلمانوں سے جنگ کے دوران جب اس زمین کی ہر چیز پکار پکار کر کہے گی کہ اے مسلمانوں میرے پیچھے ایک یہودی چھپا ہوا ہے۔ اسے قتل کر دو تو اس وقت یہی درخت گونگا بن کر اس چھپے ھوئے یہودی کی پناہ گاہ بن جائے گا۔ یہودی جانتے ہیں ایسا ہی ہوگا۔ یہ معرکہ ہوکر رہے گا۔اصل میں دور حاضر کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے ہی دین اور کتاب کی تعلیمات سے ناواقف ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر مذاہب نے ان تعلیمات کی حقانیت کو آزمانے کے بعد انہی کا مطالعہ کر کے انھیں کمزور ایمان مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

مسلمانو ں سے زیادہ غیر مسلموں خصوصاً یہودیوں نے اسلام کی تعلیمات کو پڑھا ہے غور وفکر کیا ہے اور ان پیشن گوئیوں پر زیادہ عمل کیا ہے جو ان کے (یہودیوں ) کے خلاف ہیں ۔اس کے برعکس انہوں نے اس پر عمل بھی شروع کردیا ہے۔ جس میں سے ایک مہم ان کی غرقد درخت لگانے کی ہیجس کی کاشت کے لئے پوری دنیا میں اجلاس منعقد کئے جاتے ہیں اس فوائد بتائے جاتے ہیں ۔یہودیوں کو مسلمانوں سے اتنا ڈر ہے کہ شاید یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی حکومت پچھلے 40سالوں سے غرقد کی شجرکاری میں مصروف ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اسرائیل میں 2010 تک 24  کروڑغرقد کے درخت لگائے جاچکے ہیں ۔ اوراسرائیل میں چلنے والی ٹرینوں کے اطراف تقریباً  30 سے40 کلو میٹر تک لائن پٹری کے دائیں اور بائیں جانب صرف غرقد ہی لگے ہوئے ہیں تاکہ جب فلسطین کی جانب سے کوئی راکٹ یا بم داغا جائے تو وہ ا س سے بچ سکیں ۔ اس شجرکاری مہم کے پیچھے ایک مقصد تو یہ ہے کہ وہ اپنی حفاظت کرسکیں اور دوسرے یہ کہ جتنی زیادہ جگہوں پر غرقد لگیں گے اتنی جگہ یا زمین وہ اپنے قبضہ میں کرسکیں گے۔یہاں ایک بات میں بتادوں کہ یہ درخت مقبوضہ بیت المقدس کے جافا دروازے کے باہر بھی غرقد بڑے پیمانے پر لگایا گیا ہے جہاں حضرت عیسی علیہ السلام دجال کو قتل کریں گے اور اس جگہ ایک ایئر پورٹ بھی تیار کیا جارہا ہے۔پچھلے چالیس سال سے اس شجرکاری کی مہم تیز تو ضرور ہوئی ہے لیکن اگر تاریخ پر غور کیا جائے توپتہ چلے گا کہ پچھلے۱۰۰ برسوں سے اس مہم کو چلایا جارہا ہے تاکہ غرقد باقی رہے اور باقی رکھنے کے لئے یہودی اپنے تہواروں کے موقع پر ایک دوسرے کو غرقد کا پودا پیش کرتے ہیں اورتاکید کرتے ہیں کہ اسے مزید پھیلائے۔

یہودی اپنے کاموں میں تو مصروف ہیں ہی لیکن سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ یہ درختوں کی شجرکاری اور کاشت ایسے ممالک میں بڑے پیمانے پر جاری ہیں جہاں مسلمانو ں کی تعداد زیادہ ہے اکثریت میں ہے۔ جن میں انڈونیشیا،ملائیشیا،پاکستان،افغانستان شامل ہے جہاں ان درختوں کا پھیلائو تیزی سے جاری ہے۔ اور پھر ہمارا ملک ہندوستان مودی جی کے برسراقتدار آنے کے بعد یہودیوں کی آلہ کاراور ان کے اشاروں پر ناچنے والی اور ہاں میں ہاں ملانے والی تنظیم آر ایس ایس بجرنگ دل نے یہودیوں کے تمام کامو ں کا ٹھیکہ لے رکھا ہے اور غرقد کی شجرکاری اتنی تیزی سے انجام دی ہے کہ صرف مہاراشٹر میں ہی 5 کروڑغرقد کے پودے لگانے کا ٹارگیٹ پورا کررہی ہے جس میں سے 3 کروڑ غرقد لگائے جاچکے ہیں۔ جبکہ راجستھان میں بھی اتنے ہی غرقد کے پودے لگائے جانے ہیں ۔ ان سے اپنی دوستی کو اٹوٹ ثابت کرنے کے لئے الغرقد نامی جس درخت کی شجر کاری کے علاوہ کاشت بھی شروع کررکھی ہی اس غرض سے جہاں اسرائیل میں غرقد نامی اس درخت کی کاشت کے لئے عوام سے فنڈز لئے جاتے ہیں وہاں اسکو کپڑوں پر بھی منقش کیا جاتا ہے اور اب تو نئی بے راہ نوجوان نسل بغیر تحقیق کچھ بھی اوڑھنے بچھونے اور پہننے کے لئے پاگل ہوئی جارہی ہے۔غرقد درخت کو مزیدمشہورکرنے اور عام کرنے کے لئے ایک کیفے پریس کمپنی نے غرقد کے درخت والی تصاویر کی ٹی شرٹس، مگس، بٹن ٹوپیاں اور دیگر مصنوعات آن لائن فروخت کرنا شروع کردی ہے۔ اس کے علاوہ جیوش نیشنل فنڈ کی زیرسرپرستی آئے اے ایل سی امریکہ ادارے یو ایس ایڈ کے تعاون سے اسے لگانے کا کام کیا جارہا ہے۔ اس تنظیم نے ایک کتابچہ طبع کیا تھا جس میں لکھا تھااور یہودیوں کو ایک خوبصورت تحریر کے ساتھ ہدایت دی تھی کہ’’اورجب تم گھر لوٹو تو درخت لگاکر لوٹو‘‘۔save the gharqad treeکابھی نعرہ انہوں نے دیا تھا۔واضح رہے کہ اس تنظیم کا اسرائیلی ملکیت میں 31 فیصد حصہ ہے۔

غرقد درخت کو انگریزی میں Bosthronباکستھرون کہتے اور یونانی نام lyciumسے جانا جاتا ہے۔lyciumکی تقریباً 70 اقسام ہیں ان میں سےlycium shawiiنامی قسم متحدہ عرب امارات میں کثرت سے پائی جاتی ہے۔ یہی قسم مدینہ منورہ میں بھی پائی جاتی تھی تاہم پہلے اللہ کے رسولﷺ نے اسے ختم کروایا تھا بعد میں پھر سعودی حکومت نے اس کا صفایا کروایا۔یہ درخت چار پانچ یا زیادہ سے زیادہ چھ فٹ اونچا ہوتا ہے اسے عربی میں عسویج کہتے ہیں اس کی ایک اور قسمlycium barbarumہے جو81ویں صدی عیسوی میں پائی گئی تھی جسے طبی فوائد کی حامل قرار دیا گیا تھا جو اسرائیل اور فلسطین میں بکثرت پائی جاتی ہے جو دوسرے غرقدوں کے مقابلہ زیادہ گھنے اور لمبے ہوتے ہیں ۔ اس کی ایک اور قسم lycium ferocissimumہے جو افریقہ میں پائی جاتی ہے جو افریقہ سے ،سٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں لگائے گئے جس کی شاخیں زمین سے آکر لگتی ہے۔ ان تمام غرقد کی قسموں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ان تمام پر ایک جیسے سرخ یا نارنجی پھل لگتے ہیں اور سبھی بنجریا صحرائی علاقے میں اگ سکتے ہیں ۔چونکہ یہ درخت عام جھاڑیوں کی طرح نظر آتے ہیں اس لئے عام لوگ اسکی پہچان نہیں کرسکتے تاہم اس کے چیری جیسے خوبصورت پھل آنے کے بعد ہی سمجھ میں آتا ہے کہ یہ کیا ہے ذرائع کے مطابق عیسائی مشنریوں کی مدد سے افغانستان اور دیگر پتھریلے علاقوں میں واقع باشندوں کو یہ باور کرایا کہ یہ جنگلی چیری کے درخت ہیں اور اسے پانی کی بھی ضرورت نہیں اس لئے یہ ریگستانی اور پتھریلی زمین پر زیادہ تیزی سے کاشت ہوجاتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ان پانچ اقسام میں سے یہودی سب سے زیادہ کونسی قسم کے درخت لگارہے ہیں تو اس کا جواب یہودیوں کی تنظیم کی ایک خاص کتاب میں ملا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقے اور اسرائیل میں Lycium shawiiکی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور وہ یہی پودا لگارہے ہیں جسے اللہ کے رسول ﷺنے جنت البقیع سے تلف کیا اکھاڑ پھینکا تھا۔اسی مناسبت سے میں آپ کو بتادوں کہ جنت البقیع کا اصل نام بھی بقیع الغرقد اسی لئے ہے کہ جس جگہ یہ قبرستان ہے پہلے وہ غرقد کی جھاڑیوں کا خطہ تھا۔

بہر کیف اسرائیل اس وقت پوری دنیا میں اپنے پاسبان درخت غرقد لگانے کے لئے کمر کس چکا ہے کیونکہ وہ اپنے اعتقادات سے زیادہ اسلام کی سچائی کو مانتا ہے۔واضح رہے کہ2008میں ممبئی میں اسرائیلی سنٹر پر حملہ ہوا تھا جس میں ایک بھی اسرائیلی سفیر یا سفارت کار ختم نہیں ہواتھا کیونکہ انہوں اپنے سفارت خانہ میں لگے غرقد درخت کے نیچے پناہ لی تھی۔اس تجربہ کے بعد اسرائیل نے تمام سفارت خانوں میں غرقد کے درخت لگادئے تھے۔

فلسطینی علما ئے کرام کا کہنا ہے کہ بالخصوص اسرائیل میں بڑے پیمانے پر غرقد لگاکر یہودیوں نے نبی کریم ﷺ کی پیش گوئی کا وقت قریب کردیا ہے خیبر میں شکست کھانے کے بعد سے اب تک ان کے پاس نہ کوئی ملک تھا او رنہ ہی فوج لیکن 20  ویں صدی میں انہو ں نے پہلی مرتبہ ایک ملک حاصل کیا جبکہ دجال کا خاتمہ بھی بیت المقدس میں ہونا ہے او رممکنہ طور پر وہ یہود سے ہوگا۔تو ہمیں چاہئے کہ ہم رسول کی پیروی کریں یہودیوں کی مخالفت کریں اور ان کی کسی بھی غیر محسوس اورنہ چاہتے ہوئے بھی سے مدد نہ کریں ۔اس سے پرہیز کریں ۔

بہر کیف اس کے علاوہ ہمیں چاہئے کہ ہم اسلامی تعلیمات سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ سے بھی واقف رہیں اپنے دین وایمان کو بچانے کے ساتھ یہودیوں اور دجالی فرقوں اور فتنوں سے بھی قرآن وحدیث کی روشنی میں بچتے رہیں ۔کیونکہ اسلامی ذرائع کے مطابق یہودی قوم کچھ بھی کر گزرنیکو تیار ہے اور وہ ابھی جادو کے ذریعہ پوری دنیا کیانسانوں خصوصاً مسلمانوں پر کنٹرول کرنے کا کام کررہی ہے۔اس کے لئے ہمیں چاہئے حدیثہ مبارکہ کی روشنی کے مطابق ہمیشہ باوضورہیں ،گھر سے نکلتے وقت آیتہ الکرسی کے علاوہ جمعہ کے سورہ کہف پڑھنے کی عادت ڈالیں ۔ حرام مال سے اجتناب کریں ،اور علمائے حق کی صحبت میں زیادہ سے زیادہ وقت گزار کر اپنے اور اپنے گھر والوں کی حفاظت کریں ۔

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں تمام فتنوں اور شرور سے حفاظت فرمائے اور خاتمہ بالخیر کریں ۔ بولا چالا معاف کرا زندگی باقی تو بات باقی۔۔(اللہ حافظ)

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    ایک یہودی کے پاس ایک مسلمان ہیرے تراشنے کا کام کرتا تھا۔ جو اپنے کام میں ہنر مند اور حد سے زیادہ ایماندار تھا۔ یہودی اس سنار کی کاری گری سے بے تحاشہ نفع کمانے کے باوجود اُسے مناسب معاوضہ ادا نہ کرتا تھا ۔ جس کی وجہ سے وہ بمشکل اپنے گھر کا خرچہ پورا کرتا تھا۔ یونہی کام کرتے کرتے اس نے عمر گزار دی۔ اس کی بیٹی جوان ہو گئی وہ اپنی قلیل آمدنی میں سے کچھ بھی جمع نہ کر سکا۔ بیٹی کی شادی کے لئے سنار کاریگر نے یہودی سے کچھ رقم بطور ادھار مانگی کروڑ پتی یہودی نے رقم دینے سے معذوری ظاہر کر دی۔ سنار اپنی قسمت کو برا بھلا کہتا ہوا گھر لوٹ آیا۔ رقم ادھار نہ ملنے پر بیوی نے سخت ناراضگی اور طعنوں کے تیر برسا کر الگ استقبال کیا۔ پریشان حال بیچارہ ساری رات سوچتا رہا اب کیا ہو گیا۔ دوسرے دن وہ دکان پر کام کے لئے نہ گیا۔ بعد میں یہودی سنار کے بلانے پر جب وہ دکان پر پہنچا تو اس کے ہاتھ میں ایک پوٹلی تھی۔ جو اس نے یہودی کے سامنے کھول کر رکھ دی۔ اس میں قیمتی ہیرا دیکھ کر یہودی سوالیہ نگاہوں سے کاریگر سنار کی طرف دیکھنے لگا۔
    کاری گر بولا مالک یہ ہمارا خاندانی ہیرا ہے۔ اسے بیچنے کی اجازت نہیں آپ اسے گروی رکھ کر مجھے کچھ رقم دے دیں۔ میں آپ کو رقم لوٹا کر اپنا ہیرا واپس لے لوں گا۔ یہودی راضی ہو گیا۔
    مسلمان کاری گر نے قرضے کی رقم سے بیٹی کی شادی کر دی۔ پھر دن رات کام کر کے قرض کی رقم آہستہ آہستہ ادا کرنے لگ گیا۔ قرضے کی آخری قسط ادا کرنے کے بعد مسلمان کاری گر نے اپنے ہیرے کا مطالبہ کیا ۔ یہودی نے وہ ہیرا لا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔ ہیرا تراشنے والے کاری گر نے ہیرا لے کر پانی میں رکھ دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہیرا گھُل کر ختم ہو گیا۔ ہیرا تراشنے والے کاری گر نے کہا مالک یہ مصری کی ڈلی تھی۔ جسے میں نے اپنے فن سے ہیرے کا اس طرح سے روپ دیا تھا کہ آپ جیسا سنار بھی دھوکہ کھا گیا۔ آپ نے میری عاجزی اور درخواست پر قرضہ نہ دیا۔ جس کی وجہ سے مجھے یوں آپ سے رقم نکلوانی پڑی میں مسلمان ہوں اس لئے بھاگا نہیں آپ کی پائی پائی ادا کر کے سرخرو ہو گیا۔
    افسوس کہ آپ نے میری قدر نہ کی۔ اس لئے ملازمت چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ کاری گر یہودی کو پریشان چھوڑ کر چل دیا۔

    (حکایات رومیؒ سے لیا گیا)

تبصرے بند ہیں۔