شخصیت کی تعمیر: اسلام کی روشنی میں

ڈاکٹر سلیم خان

مجلس نمائندگان کے دوران  طعام گاہ میں  ایک شخص کوسرگرمِ عمل دیکھ کر میں نے اپنے ہم سایہ سے دریافت کیایہ کون صاحب ہیں؟  پتہ چلا شعبہ تربیت کے نائب سکریٹری  محب اللہ قاسمی   ہیں۔ میں سمجھ گیا اللہ سے محبت کرنے والے  اس اسم بامسمیٰ  کے لیے  ممکن  نہیں ہے کہ وہ بندگانِ خدا سے محبت نہ کرے  اور یہی محبت اس سے ارکان مجلس کی خدمت کروا رہی ہے۔  مرکز ِجماعت دہلی میں اگر آپ کا جانا ہو تو مولانا محب اللہ قاسمی سے بھی  ملیں۔ آپ پوچھیں گے کیوں ؟  دراصل  مرکز میں جانے والے  امیر جماعت، قیم جماعت، نائب امراء، سکریٹریز اور اپنے احباب  سے ملاقات کرتے ہیں  لیکن مولانا محب اللہ جیسےغیر معروف افراد سےملاقات کا شرف حاصل نہیں کرتے  حالانکہ ان کی شخصیت بھی  کم متاثر کن نہیں ہوتی۔

آگے چل کر  مولانا قاسمی صاحب کے بارے میں یہ انکشاف ہوا کہ آپ ’شخصیت کی تعمیر ‘نامی کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ ایک عالم فاضل  صاحبِ قلم کا اس  شدو مد کے ساتھ شرکاء کا خیال رکھنا میرے لیے  باعثِ حیرت تھا۔ عام طور پر جن  لوگوں کا قلم چلتا ہے ان کا دماغ تو بہت چلتا ہے۔ زبان بھی خوب چلتی     لیکن ہاتھ پیر کم ہی چلتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ بیشتر کاموں کو اپنے مقام اور مرتبہ سے  کمتر سمجھتے ہیں۔ اس طرح نیکی کمانے کے بہت سارے مواقع سے اپنے آپ کو محروم کرلیتے ہیں۔ شخصیت کی تعمیر مین صفحہ نمبر ۸۷ پر قاسمی صاحب  رقمطراز ہیں’ نیکی اور بھلائی کا عمل خواہ کتنا بھی  چھوٹا اور معمولی کیوں نہ ہو اسےہلکا نہیں سمجھنا چاہیے۔ اسلام میں ہر کارِ  خیر خواہ وہ کسی بھی درجہ کا ہو، اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے کسی عمل کو حقیر سمجھ کر ترک کردینا مناسب نہیں ہے‘۔ یہ درست ہے کہ افراد اور  کاموں  کو حقیر سمجھنے سے انسان کے اندر رعونت    پیدا ہوتی ہے۔  اپنی کتاب کے صفحہ ۸  پر وہ لکھتے ہیں ’اللہ نے انسانوں کو قدم قدم پر ایک دوسرے کا محتاج بنادیا ہے۔ ایسے میں ان کے غرور و تکبر کا کوئی جوا زباقی نہیں رہ جاتا۔ محتاج اور ضرورتمند متکبر نہیں ہوسکتا‘۔ اس طرح کی اچھی  اچھی باتیں کہنا یا لکھنا جس قدر آسان ہے  اس پر عمل پیرا ہو نا اتنا ہی مشکل ہے۔

دورانِ اجلاس ارکان مجلس  فجر کی نماز سے لوٹتے تو گرم گرم چائے ان کا استقبال کرتی۔ نشست سے قبل ناشتہ اور ظہر و عشاء  کی نماز کے بعد کھانا تیا رملتا۔ وقفوں میں چائے وغیرہ سے ضیافت ہوتی اور ہر موقع پر مولانا محب اللہ اپنی ٹیم کے ساتھ مصروفِ عمل دکھائی دیتے۔ ان کی اس گرمجوشی کی وجہ مذکورہ  کتاب کےصفحہ  ۱۰۴ پر یوں بیان ہوئی ہے’ایک مومن کا تعلق دوسرے مومن سے اخوت پر مبنی  ہوتا ہے۔ ایمان کا رشتہ ایسا مضبوط ہونا چاہیے کہ آدمی اپنے مومن بھائی کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھے‘۔ اگلے صفحہ پر وہ  امام ابن تیمیہ کا اقتباس نقل کرتے ہیں’مومن کو دوسرے مومن بھائیوں کی خوشی سے خوشی ہوتی ہے اور ان کی تکلیف  سے وہ بھی تکلیف محسوس کرتا ہے۔ جس میں  یہ کیفیت نہ  ہووہ مومن نہیں‘۔ یہ جملہ پڑھتے وقت ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ آنکھوں میں آگیا اس لیے کہ دوسروں  کی تکلیف کو دور کرنا سہل ہے لیکن کسی کی  خوشی سے خوش ہوجانا مشکل کام ہے۔

آخری دن قاسمی صاحب نے کھانے کی میز پر سوال کیا ’سلیم یہ کیا کہ پہلےتو شوریٰ میں تمہارا نام آیا اور پھر غائب ہوگیا؟‘ میں  نےجواب دیا ’اعلان میں بھول سے چوک ہوگئی تھی اصلاح ہوئی تو چلا گیا‘وہ بولے’ لیکن اتنی بڑی بھول ہوئی کیسے؟‘یہ ذرا مشکل سوال تھا، میں نے پوچھا ’کیا آپ کو جیل جانے کا اتفاق ہوا ہے‘ وہ سٹپٹا کر بولے نہیں‘ میں نے کہا ’جیل جانے کے لیے جرم کا ارتکاب  لازم نہیں ہے لیکن چونکہ جیل کے اندر کوئی کام نہیں ہوتا اس لیے بے قصور قیدی اس سوچ میں گم رہتا  ہے  کہ آخر میں یہاں کیوں ہوں؟ اس کے لیے کون قصوروار ہے وغیرہ لیکن جب اس کو رہائی کا پروانہ مل جاتا ہے تو وہ سب  بھول بھال کر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے  اور کچھ نہیں سوچتا ‘۔    اس جواب پر مولانا کا قہقہہ بلند ہوا اورمیں نمائندگان  کی حسین یادوں  کے ساتھ لوٹ آیا۔ آپ کو محب ا للہ قاسمی صاحب  سے ملنے کی سعادت نہ ملے تب بھی  اپنی ’شخصیت کی تعمیر ‘ کے لیے ان کی کتاب ضرور پڑھیں۔

تبصرے بند ہیں۔