شرعی قانون کی بالا دستی اور اس کی حکمت

عبد الجبار طیب ندوی

استاذ حدیث وتفسیر جامعۃ الصالحات، کڑپہ، قاضی شریعت دار القضاء کڑپہ (اے پی)

شرعی قانون:

للہ رب العزت کا وہ قانون ہے جو اس نے مومن اور مسلمان بندوں کے لئے بنایاہے، چنانچہ اللہ رب العزت کاارشاد ہے : ’’اللہ نے تمہارے لئے دین (شریعت) مقرر کردیا ہے‘‘ (الشوری :۱۳)، معلوم ہواکہ دین ہی شریعت ہے۔

انسانی خود ساختہ قانون:

اس دنیا میں اچھے اور برے ہر دو طرح کے لوگ آباد ہیں، جب اچھوں کی اچھائیوں پر بروں کی برائیاں غالب آجاتی ہیں تو انسانی سماج اس کے تدارک اور روک تھام کے لئے کچھ قانون اور ضابطے مقرر کرتا ہے، تا کہ برائی اور جرائم کی روک تھام ہوسکے، لیکن اس کے باوجود انسانی سماج میں موجود خطرناک جرائم کم ہونے کے بجائے مزید نئے نئے جرائم سامنے آرہے ہیں، گویا یہ ثابت ہوگیا کہ انسانوں کا خود ساختہ قانون اور اس کا بنایا ہوا اپنا دستور اس کی روک تھام کی اہلیت سے عاری ہے، بسا اوقات انسانوں کے بنائے ہوئے قانون کی بعض شقوں سے دوسرے جرائم پیشہ افراد کو حوصلہ وہمت ملتی ہے، اس طرح اس کے افرادی قوتوں اور طاقتوں میں مزید اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

قانون سازی کا حق کس کو ہے؟ اس قانون کی کمزوری کی وجہ ضعیف وناتواں انسان کا خود قانون سازبنناہے، جبکہ دوسری طرف شریعت اسلامیہ کی معنویت کو دیکھئے کہ اس کا قانون ساز وہ ذات ہے جو انسان کی خوبی وبدی، ذوق وشوق، مزاج وطبیعت، فطرت وعادت، سوچ وفکر اوراس کی حیوانی و بہیمی قوت وطاقت سے اور اس کے ظاہر وباطن سب سے واقف وجانکار ہے، اسی لئے اللہ رب العزت نے قرآن کی زبانی یہ صدا لگائی کہ اس دھرتی پر کسی کی حاکمیت چلنے والی نہیں، حاکمیت وحکومت توصرف اسی کا حق ہے، (الانعام: ۵۷، الاعراف:۵۴)۔

کیوں کہ پوری انسانیت کے لئے وہی ذات نظام حیات کو طے کرسکتی ہے، جو ایک طرف پوری کائنات کے بارے میں باخبر ہو اور پوری انسانیت کے جذبات واحساسات اور اس کی خواہشات وضروریات، نیز اس کے نفع ونقصان سے اچھی طرح واقف ہو، اگر وہ ان حقیقتوں کا علم نہیں رکھتا ہو، تو عین ممکن ہے کہ اس کے دئے ہوئے بعض احکام نفع کے بجائے نقصان اور خیر وفلاح کے بجائے ناکامی وخسران کا باعث بن جائیں۔

شریعت اسلامی کو جو باتیں انسان کے خود ساختہ قوانین سے ممتاز کرتی ہیں، ان میں سے چند کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے:

۱۔ عدل:

شریعت اسلامی کاسب سے امتیازی وصف عدل ہے، اس دین کی بنیاد ہی عدل پر ہے، ’’ ان اللہ یامر بالعدل والاحسان ‘‘(النحل: ۹۰)، اسلام کی نگاہ میں رنگ ونسل، جنس اور قبیلہ وخاندان کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو خاندانوں اور قبیلوں میں تقسیم کیا، تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو، بے شک تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک وہ ہے، جو سب سے زیادہ تقوی اختیار کرنے والا ہے‘‘ (الحجرات: ۱۳)۔

اسلام کے اس ممتاز وصف کو نبی ﷺ نے اور واضح فرما دیااور ارشاد ہوا کہ کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے (مسند احمد: ۵/۴۱۱)، اسلام کے تمام قوانین کی اساس اسی اصول پر ہے، برخلاف انسانی قوانین کے، کہ انسانوں نے جو بھی قوانین وضع کئے ہیں، وہ ایک گروہ کی برتری اور دوسرے طبقہ کی تذلیل وحق تلفی پر مبنی رہا ہے، اس اصول کی روشنی میں آپ خود ساؤتھ افریقہ اور امریکہ میں جو رنگ ونسل کی بنیاد پر معاشرہ میں تفریق ہے دیکھ سکتے ہیں کہ آج بھی نسلی امتیاز کی بنیاد پر شہریت کے مختلف درجات اور حکومت وقت کی طرف سے رعایتیں اور سہولتیں حاصل ہوتی ہیں، بعض ریاستوں میں اب بھی گوری اور کالی نسل کے درمیان شادی خواب پریشاں ہے۔

۲۔ توازن و اعتدال:

شریعت اسلامی کا دوسرا امتیازی وصف اس کا توازن واعتدال ہے، مثلاً مرد وعورت انسانی سماج کے دو لازمی جزء ہیں، جبکہ دنیاوی قوانین بعضے قانون ایسا ہے جس میں عورت کی حیثیت جانور اور بے جان املاک کی سی قرار دی گئی، نہ وہ کسی جائیداد کی مالک ہوسکتی تھی نہ اس میں تصرف کا حق رکھتی تھی، اپنے مال اور نہ اپنی جان پر اسے کوئی اختیار تھا، یہاں تک کہ وقت مزعومہ دانشوروں نے یہ بحث چھیڑ دی کہ عورتوں میں انسانی روح پائی جاتی ہے یا حیوانی؟نعوذ بااللہ من ذلک
اسی کے بالمقابل دوسری طرف کچھ لوگوں نے عورتوں کو تمام ذمہ داریوں میں مردوں کے مساوی قرار دے دیا، عورتوں کی جسمانی کمزوری، ان کے ساتھ ہر ماہ پیش آنے والے قدرتی حالات کو پس پشت ڈال کر محفلوں، دفتروں اور گذرگاہوں میں ان کی صد فیصد حاضری کو آزادی نسواں کانام دے کرکے اپنی ہوس بھری نگاہوں کی تسکین کا سامان فراہم کیا، انجام کار کیا ہواکہ اس آزادی نے سماج کو بے حیائی، اخلاقی انارکی، ناقابل علاج امراض، خاندانی نظام کا بکھراؤ اور خود عورتوں کو ناقابل تحمل فرائض کا تحفہ دیا۔

جب کہ اسلام نے مردوں اور عورتوں سے متعلق نہایت متوازن قانون دیا ہے، انسانی حقوق میں مردوں اور عورتوں کو مساوی درجہ دیا گیا، (البقرۃ: ۲۲۸)، لیکن سماجی زندگی میں دونوں کے قوی اور صلاحیت کے لحاظ سے فرق کیا گیا ہے، اور بال بچوں کی تربیت کی ذمہ داری عورتوں پر اور ان کے خرچہ اور یعنی نان ونفقہ کی ذمہ داری مردوں پر رکھی گئی ہے، سماجی زندگی کا یہ نہایت ہی زریں اصول ہے۔

عقل ومصلحت سے ہم آہنگی:

اللہ سے بڑھ کر کوئی ذات انسان کی مصلحتوں سے واقف نہیں ہے، اسی لئے شریعت کے احکام عقل کے تقاضوں اور انسانی مصلحتوں کے بالکل عین مطابق ہے، اس کے برخلاف انسان کا خود ساختہ بہت سے قانون ایسے ہیں جو عقل اور انسانی مصلحتوں کے بالکل مغائر ہیں جیسے شراب کی حرمت ہے، اسلام میں شراب حرام ہے، جبکہ دنیاوی قانون اس کے پینے کی اجازت دیتا ہے، حالانکہ یہ بات دنیا کے سامنے عیاں ہے کہ شراب انسان کے لئے نہایت نقصان دہ اور اس کی صحت کو برباد کردینے والی چیز ہے، اس پر سب کا اتفاق ہے، مگر آج دنیا کے تقریباً تمام ممالک اس کے پینے کی اجازت دیتے ہیں، اسی طرح غیر قانونی جنسی تعلق کے بارے میں تمام مذاہب اور ہم جنسی کے بارے میں تمام میڈیکل ماہرین متفق ہیں کہ یہ صحت کے لئے نہایت مہلک فعل ہے، اس کے باوجود بہت سے ممالک نے اس کی اجازت دے رکھی ہے۔

۴۔ فطرت انسانی سے مطابقت:

انسانوں کی فطرت سے کون زیادہ واقف ہوسکتا ہے؟ ظاہر ہے اس کا خالق ہی زیادہ واقف ہے اس کی فطرت سے، اسی لئے اللہ رب العزت نے دین ایسا بھیجا جو انسانوں کی فطرت سے بالکل ہم آہنگ ہے، چنانچہ قرآن کریم میں ہے: فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیہا (الروم: ۳۰)، فطرت سے بغاوت ہمیشہ انسان کے لئے نقصان وخسران اور تباہی وبربادی کا سبب بنا ہے، انسان کے بنائے ہوئے قانون کو دیکھئے بالکل فطرت سے بغاوت قدم قدم پر ملے گی، مثلاً اللہ تعالی نے عورت کو جلد باز اور عجلت پسند بنایا ہے، اسی لئے اسلام نے طلاق کا اختیار عورت کو نہیں دیا، بلکہ مرد کو اختیار دیا، اور عورت کے لئے عدلیہ سے گلو خلاصی کی سہولت دی، اسلام کا یہ قانون بالکل عین فطرت ہے، مگر وہیں مغرب نے مردو عورت دونو ں کو مساوی درجہ دیتے ہوئے طلاق کا حق بھی دونوں کو دیدی، پھر وہی ہونا تھا کہ طلاق کی شرح بڑھ گئی، یہاں تک کہ بہت سے ملکوں میں طلاق کی شرح نکاح سے بڑھ گئی، اسی طرح انسانی فطرت ہے کہ سخت اور مناسب سزائیں ہی انسان کو جرائم سے روک سکتی ہیں اور مجرم کے ساتھ حسن سلوک اور سزا میں تخفیف در اصل مظلوم کے ساتھ نا انصافی اور سماج کو امن سے محروم کرنے کا باعث ہے، اسی لئے اسلام میں قتل کی سزا قتل رکھی گئی اور بعض بڑے جرائم کی سزا بھی سخت رکھی گئی ہے، لیکن مختلف ملکوں میں قتل کے مقابلہ قتل کی سزا ختم کردی گئی اور مجرم کے ساتھ سہولت کا معاملہ کیا گیا، اس کانتیجہ یہ ہواکہ جرائم پر مجرموں کی جسارت اور بڑھتی جارہی ہے، اسلام کی اس حقانیت کو سمجھتے ہوئے اب بعض ملکوں نے قتل کی سزاکے اجراء کا فیصلہ کیا ہے۔

اس کے علاوہ بھی شریعت اسلامیہ کی خصوصیات اور اس کے امتیازات ہیں، حقیقت یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ ہی ایک ایسا نظام حیات ہے کہ جس پر چل کر انسان دین ودنیا کی سعادتیں اور نیک بختیاں حاصل کرسکتا ہے۔

اعداء اسلام نے شریعت کے بعض احکام کو غیر منصفانہ اور عورت مخالف قراردیا ہے، مغربی دنیا نے اس جھوٹ کو اتنا بیان کیا کہ لوگوں نے ان کو سچ تصور کرلیا، خود ہندوستان کی کرسی عدالت پر بیٹھے وکلا نے بھي مغرب کے جھوٹ کو اپنے فیصلہ کا ماخذ ومرجع قرار دیا؛ کیوں کہ انسان جو کچھ پڑھتا ہے اور لکھتا ہے اسی کو سچ سمجھتا اور اسی کے مطابق اس کی سوچ بنتی ہے؛ صورت حال اس وقت زیادہ افسوسناک ہوجاتی ہے، جب پڑھے لکھے مسلم دانشور بھی اس بھنور میں پھنس جاتے ہیں تو اس وقت یا تو وہ شرعی احکام کی غلط تشریح و توضیح کرتے ہیں یا پھر معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہیں، اس ناواقفیت کی دو ہی وجہیں ہوسکتی ہیں :۱۔ شرعی احکام سے عدم واقفیت، ۲۔ یا پھر شرعی احکام سے واقف تو ہیں لیکن اس کے پس منظر اور حالات سے آگہی نہیں ہے، اور اس کی مصلحتوں پر ان کی نظر نہیں ہے؛ لہذا اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ شریعت کے احکام صحیح طور پر لوگوں تک پہونچائیں اور ان کی مصلحتوں اور حکمتوں کو واشگاف کیا جائے، لہذا اسی دل درد مند اور فکر ارجمند کے ساتھ دار القضاء کڑپہ نے ضلع کے مختلف علاقوں میں ماہ تفہیم شریعت منانے کا ایک اہم فیصلہ لیا ہے، اس کے ذریعہ مسلمانوں کو اور خاص طور سے ملک کی میڈیا اوربرادران وطن کو شریعت کے احکام صحیح طور پر پہونچانے کی ایک سعی اور کوشش کی جارہی ہے، ماہ تفہیم شریعت میں مندرجہ ذیل موضوعات پر علماء کرام کے بیانات ہوں گے:

۱۔ کم عمری کی شادی:

کم عمری کی شادی کی اسلام نے صرف اجازت دی ہے، نہ تو ترغیب دی ہے اورنہ ہی اس کوفضیلت والا بتایا ہے، تاہم اس سے منع بھی نہیں کیا ہے، کیوں کہ یہ ایک سماجی ضرورت بھی ہے، جو لوگ کم عمری کی شادی کے مخالف ہیں وہ شادی کے لئے اٹھارہ سال کی عمر کی قید کے حق میں ہیں، ان کی دلیل یہ ہے کہ کم سنی اور کم عمری کی شادی لڑکیوں کے لئے نقصان دہ ہے، اس سلسلہ میں کئی باتیں قابل غور ہیں :

الف: طبی نقطہ نظر سے دیکھیں تو جسمانی نشو نما تمام لڑکیوں اورلڑکوں میں یکساں نہیں ہوتی ہے، موسمی حالات، غذا، ماحول، اور موروثی اثرات کی وجہ سے بلوغت کی عمر میں فرق ہوتاہے، اور جسمانی قوت وطاقت میں بھی ظاہری فرق ہوتا ہے؛ اس لئے اٹھارہ سال کی تعیین قابل فہم نہیں۔

ب: اخلاقی پہلو :

فحش ویڈیو، فلموں اور مخرب اخلاق رسائل تک کم عمروں کی رسائی ہوچکی ہے جس کی وجہ سے نابالغ بچے تک جنسی بے راہ روی کے شکار ہیں، شادی سے پہلے اسقاط حمل کی کثرت ہوگئی ہے، قابل غور پہلو یہ ہے کہ کم عمری کے نکاح زیادہ نقصان دہ ہے یاکم عمری کے جنسی تجربات؟۔

ج: تیسری بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اب لڑکے اور لڑکیوں میں تعلیم کا رجحان بڑھا ہے، چودہ پندرہ سال کی عمر میں لڑکے اور لڑکیاں میٹرک کرتے ہیں، اور اس سے آگے کی تعلیم مکمل ہونے تک اچھی خاصی عمر ہوچکی ہوتی ہے، اس کی وجہ سے کم سنی کے نکاح کے واقعات اب خود کم ہورہے ہیں ؛ اس لئے کم عمری کے نکاح کو روکنا ہے تو تعلیم کو فروغ دینا چاہئے اور اسے عام کرنا چاہئے۔

۲۔ تعدد ازدواج کا مسئلہ:

تقریباً دنیا کے تمام مذاہب میں تعدد ازدواج کو جائز قرار دیا گیا ہے، ہندو مذہب کی مشہور کتا ب رگ وید ( ۱۰۸۱۰۔ ۱۰۵) میں ایک مرد کے لئے ایک سے زیادہ نکاح کرنا درست قرار دیا گیا ہے، دیودا میں تو سماج کی تفریق کے ساتھ یہ حکم ہے کہ شودر کے لئے صرف ایک بیوی ویش کے لئے دو چھتری کے لئے تین، برہمن کے لئے چار اور بادشاہ جتنی چاہے رکھنے کی اجازت ہے، یہودیت میں بھی اس کی اجازت ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تین بیویوں کا ذکر خود توریت میں موجود ہے، حضرت سارہ، حضرت ہاجرہ اور حضرت قطورہ، اسی طرح حضرت یعقوب علیہ السلام کی چار بیویوں کا ذکر بھی ملتا ہے، خود حضرت موسی علیہ السلام کی دو بیویاں تھیں، حضرت سلیمان علیہ السلام کی سات سو بیویاں اور تین سو حرمین تھیں۔ عیسائیت میں اصلاً تعدد ازدواج کی اجازت ہے۔

اسلام نے بھی تعدد ازدواج کی اجازت دی ہے؛ لیکن اس سلسلہ میں تین باتیں قابل توجہ ہیں :

الف: اسلام نے اس کی صرف اجازت دی ہے، اس کو فضیلت نہیں بتایا۔

ب: بیویوں کی تعداد کو محدود کردیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ چار نکاح کی اجازت ہے۔

ج: یہ اجازت عدل وانصاف کے ساتھ مشروط ہے یعنی اگر کوئی شخص ایک سے زائد بیوی رکھتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ ان کے درمیان انصاف کا معاملہ کرے، ورنہ ایک بیوی کو ر کھے۔

۳۔ طلاق:

شریعت اسلامی میں طلاق ایک ناپسندیدہ مباح عمل ہے، مرد کو اس کا اختیار دیا گیاہے، عورت کو نہیں دیا گیا، عورت کے لئے خلع اور عدلیہ سے گلو خلاصی کی سہولت دی گئی ہے۔ جبکہ مغرب نے مرد اور عورت کو مساوی درجہ دیتے ہوئے طلاق کا حق بھی دونوں کو دیدی، نتیجہ یہ نکلا کہ اب طلاق کی شرح بڑھ گئی۔

۴۔ میراث:

اسلام پہلا مذہب ہے جس نے عورتوں کو میراث میں حق دیا ہے، لیکن اس کے باوجود متعصب ذہنیت نے میراث میں عورتوں کے حقوق کو غیر منصافانہ کہ کر اسلام کے روشن چہر پر قدغن لگانے کی کوشش کی ہے، حقیقت یہ ہے کہ میراث میں کئی حالتیں ایسی ہیں جس میں مرد اور عورت دونوں مساوی ہیں، اور کئی حالتیں تو ایسی بھی ہیں جس میں مردعورتوں سے کم پاتا ہے، عورتوں کے حصے اس سے زیادہ ہوتے ہیں۔

یہ اور اس کے علاوہ اور بھی بہت سے مسائل ہیں جیسے نفقہ مطلقہ، لے پالک، تین طلاق کا تصو ر، پوتے کی وراثت، جن پر اعداء اسلام نے اعتراضات کئے ہیں، علماء اور دانشوران قوم نے الحمد للہ اس کے مسکت جوابات بھی دئے ہیں، ضرورت اس وقت اس بات کی ہے کہ امت کا ہر فرد شرعی احکام سے واقف ہواور ان احکام کے پس منظر اور مصلحتوں پر ان کی گہری نظر ہو تا کہ ان تک شرعی احکام صحیح طور پر پہونچ سکے اور اسلام کے خلاف معاندانہ و مخالفانہ رویہ اختیار کرنے سے باز آجائیں۔ اس لئے آپ تمام حضرات سے گذارش کی جاتی ہے کہ ماہ تفہیم شریعت کے اس پروگرام کو دامے درمے قدمے سخنے کامیاب بنانے کی کوشش کریں، اللہ آپ کو اس کا اجر عظیم عطا فرمائے گا۔

تبصرے بند ہیں۔