کیا مسجد نماز کے لیے لازمی جزء نہیں!

عبدالسلام ندوی

(مظفر پور بہار)

گزشتہ دنوں عدالت عظمی نے مسجد میں نماز کے تعلق سے جو رولنگ دی ہے اس سے ہندوستانی مسلمان کافی تشویش میں مبتلا ہیں، مسلماؑ نوں کی تشویش کا باعث محض یہ نہیں ہے کہ مسجد کو اسلام کا غیر لازمی حصہ قرار دیاگیاہے، بلکہ اس رولنگ سے جس مضبوط تنازعہ کو جنم دینے کی کوشش کی گئی ہے وہ زیادہ پریشان کن معاملہ ہے، چنانچہ جمعرات کے دن ہی عدالت عظمی نے اپنا یہ فیصلہ سنایا تھا اور ۲۸ ستمبر یعنی جمعہ کو میگھالیہ کے نو منتخب گورنر ٹتھاگت رائے نے کولکاتا ہوائی اڈہ کے احاطہ سے مسجد ہٹانے کا مطالبہ کردیا۔ اور اس مطالبہ میں عدالت عظمی کے فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ سپریم کورٹ نے اسلامی قوانین کامطالعہ کرنے کے بعد یہ واضح ہدایت دی ہے، اس حقیقت کا ہر فرد مسلم معترف ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت کو جن پانچ خصائص سے نوازا ہے ان میں پوری زمین کا پاک ہونا بھی شامل ہے جیساکہ بخاری میں مذکور ہے لیکن اسکا یہ قطعی مفہوم نہیں کہ مسجد اسلام کا غیرلازمی حصہ ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اگرچہ اینٹ اور مٹی پر صرف زر سے طبعا نفور تھا تاہم ہر قبیلہ کومسلمان ہونے کے ساتھ سب سے پہلے مسجد کی تعمیر کا حکم صادر فرماتے تھے، جسکا مقصد صرف رفع ذکر اور تسبیح وتقدیس الہی نہ تھا بلکہ اجتماعی اور اتحادی قوت کو ترقی دینا بھی تھا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم باجماعت نماز پڑھنے کی سخت تاکید فرماتے تھے، یہاں تک کہ ایک صحابی نے جب اپنی کوتاہ بینی کا عذر پیش کرتے ہوئے گھر بیٹھے نماز پڑھنے کی اجازت چاہی تو اسے اجازت نہیں دی گئی اور معذرت رد کردی گئی۔ بعض دفعہ آپ ﷺ منبر سے فرمایاکرتے تھے کہ لوگ جماعت چھوڑنے سے باز آجائیں ورنہ اللہ عزوجل انکے دلوں پر مہر لگادے گاپھر وہ غافلوں میں سے ہوجائیں گے(ابن ماجہ)

مدینہ کے اندر بہت سارے قبائل آبادتھے، ہر قبیلہ کا الگ الگ محلہ اور ہر محلہ میں ایک ایک مسجد تھی، امام ابوداود نے کتاب المراسیل میں بسند لکھا ہے کہ صرف مدینہ کے اندر آپ ﷺ کے زمانہ میں نو مسجدیں تھیں، روایتوں سے یہ بھی ثابت ہے کہ اشاعت اسلام کے ساتھ عرب کے گوشہ گوشہ میں مسجدیں بنتی جاتی تھیں۔ اگرچہ امتداد زمانہ کے ساتھ اب ان باقیات صالحات کا بہت بڑا حصہ صفحہ ہستی سے مٹ گیا، تاہم جومسجدیں مدتوں قائم رہیں ان کی تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ عرب کا کوئی گوشہ ان مذہبی یادگار وں سے خالی نہ تھا، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباسَ ؓ سے ایک حدیث روایت کی ہے جس میں یہ مذکور ہے کہ مسجد نبوی کے بعد سب سے پہلا جمعہ قبیلہ عبدالقیس کی مسجد میں پڑھاگیا جو بحرین کے ایک گاوں جواثی نامی میں واقع تھی، جبکہ بحرین مدینہ سے تقریبا۱۳۰۰ کیلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے، بہر کیف یہ تو ایک معمولی جھلک ہے جس سے عہد نبوت میں مساجد کی تعمیری وسعت کا اندازہ ہوتاہے، علاوہ ازیں تمام محدثین کرام کا بالخصوص مساجد کے تعلق سے ایک مستقل باب باندھنا اور فقہاء اسلام کا بالعموم اس سے متعلق بے شمار فروعی مسائل کا استنباط کرنا کیا عدالت عظمی کے اس دروغ بافی کی قلعی نہیں کھولتا ہے۔

عدالت عظمی کے ججوں نے نہ جانے کن اسلامی قوانین کا مطالعہ کرکے اپنا یہ متنازع بیان دیا ہے پر حقیقت یہی ہے کہ مسجد اسلام کا جزء لاینفک ہے اور اسی سے محمد ﷺ کے عقیدت کیشوں کی اجتماعی قوت برقرار اور روز افزوں ترقی پذیر ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔