اسلام کی جڑیں شہداء کے خون سے لالہ زار ہیں‎

محمدصابر حسین ندوی

اسلام کی جڑیں نوجوانوں کے خون سے لت پت ہیں، اس کی ہر شاخ پر سروں کی قربانیوں کی علامات ہیں، اس کا درخت تناور اور ثمر آور ہے؛ لیکن ہر پھل اور پھول کی اصل میں لہو کا قطرہ نہیں بلکہ دریا ہے،جو انسانی تعبیربحر احمر کہلانے کے لائق ہے، اس نے یونہی نہیں قیصر وکسری کے تاج نیزوں پر اچھالے،عظیم سلطنتوں اور ان کے فرعونوں کی فرعونیت کو گرد کیا، کلدانی و یونانی تہذیب اور رومی و مجوسی تصوارات کو زیر خاک کیا، یونہی نہیں اس نے چہار دانگ عالم میں اپنی قوت و طاقت اور صلاح و خیر کا ڈنکا بجایا؛ بلکہ ان سب کے پس پردہ جاں نثاروں اور سر بکف جیالوں کی سر کردگی، باطل کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور حق کی حمایت ونصرت میں جان لٹا دینے کا جذبہ شامل تھا، خلافت راشدہ، اموی، عباسی اور عثمانی خلافت کی بنیادوں میں گرچہ بعض پر اعتراضات کئے جا سکتے ہیں، ان کے سیاسی موقف اور شاہی تعیش پر نشاندہی کی جاسکتی ہے، لیکن صدہا سال تک ہفت اقلیم پر اسلامی علم کو لہرانے کا سہرا انہیں جواں مردوں پر ہے، جو روباہی سے پرے اور لیت و لعل سے بعید از بعید تھے، مشرق ومغرب اور شمال و جنوب کی طنابیں ملادینے اور پوری انسایت کو ایک ہی رنگ میں رنگ دینے والے وہی حق پرور اور جانفشانی کے حامل افراد تھے، جن کی نمائندگی کرتے ہوئے اور اس کے پس پردہ لذت آشنائی کے ذائقہ کا پتہ دیتے ہوئے علامہ اقبال رحمہ اللہ نے بجا فرمایا:

یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے

جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی

دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا ودریا

سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو

عجب چیز ہے لذت آشنائی

شہادت ہے مطلوب ومقصود مومن

نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

مکہ مکرمہ کے افق سے اسلام کے طلوع ہونے اور اس کی کرنوں کی ضیاء پاشی مدینہ منورہ کی پاک سرزمین پر ہوتے ہی محض ایک سال کے انتظار  بعد جس کی ابتدا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند ہم نوا اورسرفروش اصحاب کرام رضی اللہ عنھمکے ساتھ کر چکے تھے، جنہوں نے غزوہ بدر کی صورت میں خدائی عزت و جلال اور اسی کی حکومت و سیادت کا اعلان کردیا تھا، وہ ایک مشت بھر جماعت نے باطل پرست اور غیر اللہ کے پجاریوں، ہبل اور لات ومنات کے حامیوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی دی تھی، ابوجھل کا غرور اور ابولھب کا گھمنڈ چور چور کردیا تھا، عتبہ وشیبہ کی طاقت کو ملیامیٹ کر دیا تھا، اور رہی سہی کسر دوسری متعدد غزوات کے ذریعہ پوری کردی تھی، اس مختصر گروہ نے کچھ سالوں میں ہی اپنے ایمانی جذبہ، خون میں سمند رکاسا جوش اور دریا کی سی روانی لئے ہوئے مقوقس کے تاج کو بھی روند ڈالا، زر تشت کے آتشکدے بھی بجھاڈالے، دجلہ و فرات پر مکین ظالم و جابر کے مکانوں کو نیست و نابود کرنے کیلئے اپنے گھوڑے بھی دریا میں ڈال دئے، ان کا تیار کردہ ’’بروج مشیدۃ‘‘کی بلندی، پر زور فصیلیں اور دراز قامت بھی ان کے سامنے بونے لگنے لگے، وہ جہاں جاتے حق کا بول بالا ہوجاتا، باطل کا سر کچل دیا جاتا، اور وہ رسوا و خوار ہو کر کسی دور دراز علاقہ یا کسی غیر آباد آبادی میں روپوش ہوجاتا،دنیا اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود تنگ ہوجاتی اور ان کے سامنے اسلام کی سر پرستی قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہتا،شاعر مشرق نے خوب کہا ہے:

نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے

زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے

توڑے مخلوق خداوندی کے پیکر کس نے

کاٹ کر رکھ دئے کفار کے لشکر کس نے

دشت تو دشت ہیں،دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے

بحر ظلمات میں دوڑادئے گھوڑے ہم نے

اس جماعت ہی کے ایک متبرک گروہ نے جو اہل بیت کا شرف رکھتے تھے، نواسہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ تھا، اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ جگر گوشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہلاتے تھے، جنہیں جنت کی سرداری کا مقام حاصل تھا؛ اس کے باوجود جب نانا محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر اور اس کی روح پر بن آئی، یزیدیت نے سر اٹھا یا، زیاد کی تلوار خون کی پیاسی ہوگئی، صحابہ کرام رضی اللہ اجمعین پر ایک غیر متفق شخصیت نے رعب و داب جمانے کی کوشش کی، اور دین پر اجارہ داری قائم کرنے اور اسے اپنے گھر کی لونڈی بنانا چایا؛ تو اس مرد مجاہد نے مع اہل وعیال بے سرو سامانی اور تنگ دامنی میں بھی اس کی فوج کا مقابلہ کیا، اس نے پیاس کی شدت اور بھوک کے شدید احساس کے ساتھ داد شجاعت دی، وہ ترستا رہا، میدان جنگ میں بچوں کی، عورتوں کی اور اہل بیت ہونے کی دہائیاں دیتا رہا ؛لیکن اس کے سامنے سپر ہوجانے اور اپنے نانا گرامی قدر صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو بازیچہ بننے پر راضی نہ ہوا، اس نے سر کٹایا؛ لیکن سر جھکایا نہیں، اس نے دریا کے پاس پیاس کی موت برداشت کی ؛لیکن دین کے سودے کے ساتھ پیاس بجھانے کو ترجیح نہ دی، اس نے معصوموں کی آہ و فغاں پر اور اپنے خون کے آخری قطرہ کے بہادینےپر لبیک کہا؛ لیکن قرآن و دین کے لٹ جانے پر آمادہ نہ ہوا،اور یہ ثابت کردیا کہ:

ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کے مصیبت کیلئے 

اور مرتے تھے تیرے نام کی عظمت کیلئے

تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکموت کیلئے 

سر بکف تھے کیا دہر میں دولت کیلئے 

ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے

پاوں شیروں کے بھی میدان سے اکھڑ جاتے تھے

تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے

تیغ کیا چیز ہے،ہم توپ سے لڑ جاتے تھے

نواسہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کی توہین کی گئی، اسے نیزے پر اچھالا گیا، تشتری میں سجایا گیا؛ لیکن اس گھرانے کے کسی فرد نے بھی اس پر مصالحت نہ کی کہ دین کے کسی معاملہ پر حرف مو بھی انحراف کر لیں، نئے طرز حکومت یا یوں کہئے نااہل کے ہاتھوں اسلام کو پارہ پارہ کردئے جانے کو برداشت کر لیں، عرش الہی سے لے کر روئے زمین کی تمام مخلوقات میں ہلچل ہے، مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ میں تشویش پائی جارہی ہے، بزرگوں اور خیر اندیش میں تذبذب پایا جارہا ہے؛ لیکن کوئی نہیں جو اسلامی پرچم کی بلندی اور ظلمت کے خلاف رخت سفر باند لینے پر روک سکے، کسی کی بھی محنت رائیگاں اور صلہ رائیگاں ہے،مد مقابل حکومت کی بھی پیش کش ہے،بیعت و ارشاد کا عالی مقام بھی منتظر ہے،مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا نصیب ہے،رفقاء اور اعزاء کا دامن ساتھ ہے؛لیکن وہ آسمانی دین کی بے توقیری کیوںکر جھیل جاتے؟ کیونکر اپنے نانا محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی پگڑی اچھلنے دیتے؟۔

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے، ہر کربلا کے بعد

  دراصل اسلام میں اصل بات یہی ہے کہ حق کی خاطر سر حاضر کردیا جائے، باطل کو دندانہ شکن جواب دیا جائے، اس کے سامنے رونا، پیٹنا اور اپنے آپ کو کوستے رہنے کی کوئی گنجائش نہیں، بات بات پر بے سرو پا کے اقدام اور حق کی خاطر شش و پنج کا کردار نبھانے کی قطعا اجازت نہیں، اس دین کی سرفرازی اور عزت تلوار کے سایہ میں ہے، اس کی توقیر کی بحالی اور زمانے میں بت کدوں، ناجائز عقیدوں کی بیخ کنی صرف اورصرف شجاعت و بہادری ہی کا حصہ ہے، یہی ہے جس کے ذریعہ اسلام مخالف کے دانت کھٹےکئے جاسکتے ہیں،ہر لحظہ ڈر و خوف کے ساتھ جینا اور اسلام کے نام پر ظالم طاقتوں کے ہاتھوں نوالہ تر بن جانے کی قطعااجازت نہیں، باطل طرز حکومت پر تکیہ کرنے اور اسلام کا دم بھرنے کے باوجود ان کے فیصلوں ہر ہامی بھرنے اور ہر لمحہ اپنے دین کو فطری دین بتا کر آرڈیننس جاری کرتے رہنے کی گنجائش سمجھ نہیں آتی، اس بات تاریخ شاہد ہے کہ کمزور ہمیشہ دبایا جاتا ہے، اسے ہر بات پر مصلحت کی چادر اوڑھائی جاتی ہے، یا حسین وعدوں کی وادیوں میںگمشدہ مال کی طرح چھوڑ دیا جاتا ہے،اور یہ صورت حال مجموعی طور پر پائی جائے تو پوری قوم کسی وادی تیہ میں بھٹک، بھٹک کر جان دے دیتی ہے؛لیکن اگر کسی کےاندر طاقت ہو تو وہ زمانے سے نبر آزما ہوتا ہے، دریاوں کو موڑ دیتا ہے، اس کے سامنے سمندر کی ٹھاٹھیں بھی پست ہوجاتی ہیں،پہاڑوں اور چٹانوں کی سختی بھی موم بن جاتی ہے،وہ زمانے کو تلوار کی نوک پر رکھتا ہے،اور شیطانیت کا سر کچل کر رکھ دیتا ہے۔

قتل حسین دراصل اسی پیغام کا نام ہے، اور یہ سخت تازیانہ ہے اس سوچ پر جوکوئی اسلام کو چند رسوم و عقائد پر مقید کردینا چاہتا ہے، اور جو دین کے نام پر غیر اسلامی نظام کو اپنے گلے میں ڈالے ہوئے ہیں، اس کا شیدا اور اس کا حامی بنے ہوئے ہیں،شوشلزم، کمیونزم،جمہوریت یا سرمایہ داری کے خول سے باہر نہیں نکل پارہے ہیں،یہ سرزنش ہے اس فکر پر جو ایک ہی دل میں ضدین کو جمع کر دینا چاہتے ہیں،اور ان پرطنز ہے جو’’عشق قاتل سے بھی اور مقتول سے بھی ‘‘کے روادار ہیں،یاد رکھئے! زمانے میں کبھی بھی دو قاتیں ایک ساتھ موجود نہیں رہیں،اصل حکمرانی حق کی ہے،اسی کیلئے دوام و پائیداری ہے،اسی کیلئے روز قیامت کی صبح ہے،باطل تو جانے والا ہے،وہ خوار و ذلیل ہونے والا ہے،پہلے بھی ا س نے منہ کی کھائی ہے،اور اب بھی اسے زیر زمیں ہی ہو کر رہنا ہے،ہمیں بس انتظارہے اس دن کا جب اسلا م اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ اور پوری جلوہ گری کے ساتھ افق انسانی پر چھا جائے گا اور سرکشوں کا سر مسل دیا جائے گا،اور جب کشتوں کے پشتے لگ جائیں گے،اور دنیا پھر سے اس کی تنگی سے ؛وسعت کی طرف گامزن ہوگی،اور ایک ایسا قافلہ وجود میں آئے گا جو پوری انسانیت کو ایک ایسی دنیا کی طرف دھکا لے جائے گا جس کی انتہاءصرف اور صرف جنت ہے۔

تبصرے بند ہیں۔