پلکوں کے سائے میں!

 سیدہ تبسم منظور

شہر میں کام تھا اس لیے فجر کی نماز پڑھ کر نکلنے کا سوچا تھا۔مگر ڈرائیور کسی وجہ سے لیٹ ہوگیا۔ایک خاص کام کے سلسلے میں ہمیں اپنے خاندانی ایڈوکیٹ سے گیارہ بجے ملنا تھا۔ ساڑھے چھ بجے ڈرائیور کار لے آئے تو ہم گھر سے روانہ ہوئے۔برسات کا سہانا خوبصورت اور خوش گوار موسم۔۔۔۔۔کار مین روڈ پر دوڑنے لگی۔

کوکن کی صبح اور وہ بھی بارش کا موسم۔۔۔۔آسمان پر کالے بادل چھائے ہوئے تھے ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے دھرتی نے اپنے اوپر ہرے رنگ کا لحاف اوڑھ لیا ہو۔۔۔۔قدرت کے یہ خوبصورت دلکشں نظارے۔۔۔۔۔۔یہ حسین وادیاں ۔ ۔ ۔  پربتوں سے بہتے ہوئے آبشار ۔۔۔۔۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں۔۔۔۔۔ اونچے اونچے پربت دلہن کی طرح گھونگھٹ اوڑھے ہوئے لگ رہے تھے۔ہرے بھرے کھیتوں پر اڑتا ہوا پنچھیوں کا غول کا غول نظروں کو بھلا معلوم ہورہا تھا۔قدرت کی یہ حسین صناعی دل کو مسرور کررہی تھی اوریوں لگ رہا تھا کہ بھیگی بھیگی معطر معطر ہوائیں ربِ کائنات کی تسبیح خوانی کررہی ہیں۔

کار لہراتے بل کھاتے ہوئے راستے پراپنی منزل کی طرف رواں تھی۔بارش کی وجہ سے راستہ خراب تھا۔ تین گھنٹے کا سفر طے کرنے میں کئی گھنٹے لگ گئے۔آخر کار ہم اپنی منزل پر پہنچ ہی گئے۔ گیارہ بجے پہنچنا تھا اورہم ایک بجے کے قریب پہنچے۔دو سال بعد ہمارا شہر آنا ہوا تھا۔ملاقات کر کے ہمیں اپنی بہن کے گھر بھی پہنچنا تھا۔ ان کے یہاں کسی رشتے دار کی موت ہوئی تھی تو تعزیت کے لئے جانا تھا۔

جب ہم ایڈوکیٹ صاحب کے آفس پہنچے تو ہمارا ملاقات کا وقت نکل چکا تھا۔لیکن ہمارے ان سے پرانے خاندانی تعلقات تھےجوہمارے والدین کے وقت سے چلے آرہے تھے۔اس لئے ہمارے لیٹ ہونے کی وجہ جاننے کے بعد ہمیں اپنے کیبن میں بلالیا۔قریب ایک گھنٹے تک ہم اپنے مسائل پر گفتگو کرتے رہے۔کئی باتوں پر مشورہ ہوا۔انہوں نے بہت جلد ہمارے مسئلے کا حل نکالنے کا وعدہ کیا۔ اس کام کو نپٹا کر باہر نکلے تو بھوک کا شدت سے احساس ہونے لگا۔ ڈرائیور بھی کار میں بیٹھے بیٹھے اکتا رہے تھے۔ پاس ہی ایک ریسٹورنٹ تھا۔ہم نے ڈرائیور سے کہا، ’’ چلئے بھائی کچھ پیٹ پوجا کر لیتے ہیں۔‘‘

کھانا کھا کر پھر کار میں سوار ہوئے۔اب ہمیں اپنی بہن کے گھر پہنچنا تھا۔ہماری بہن کے گھر کا ایڈریس ڈرائیور کو جی پی ایس پر ڈالنے کے لئے کہا۔کار جانے پہچانے راستے پر رواں تھی۔یا اللہ یہ شہر کی بھاگ دوڑ والی زندگی۔۔۔۔۔کہیں بھی سکون نہیں۔۔۔۔ کسی کو قرار نہیں ہے یہاں۔۔۔۔بس چلتے رہنا ہی زندگی ہے۔ جگہ جگہ ٹریفک تھا۔۔۔۔کار اچانک ایک سگنل پر رکی۔۔۔۔۔ہم آس پاس کا جائزہ لینے لگے۔۔۔برسات کی وجہ تعفن ہورہا تھا۔کچھ بچے ،کچھ عورتیں گاڑیوں کے پاس مانگتے کھڑے نظر آئے۔ ہمارے ذہن میں ایک دھندلی سی تصویر ابھر آئی۔۔۔۔گڈی۔۔۔۔ہاں گڈی۔۔۔۔یہیں اسی سگنل پر ہی تو ملی تھی!!!!!! ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بس پھر کیا تھا۔ ہماری نظریں اسی کو تلاش کرنے لگیں۔بڑا تجسس ہورہا تھاگڈی کے بارے میں جاننے کے لئے۔ دور دور تک نظریں دوڑائیں پر وہ کہیں بھی نظر نہ آئی۔ہم تذبذب میں تھے کہ کس سے پوچھیں، کیسے پتہ لگائیں کہ گڈی کہاں ہے۔ ہم نے ڈرائیور سے کار کو تھوڑا ایک طرف لگانے کے لئے کہا۔اسی وقت ایک عورت ہماری کار کے پاس آئی۔

’’ مائی کچھ تو دے۔ میرے بچے بھوکے ہیں ۔کچھ کھائے گا تو دعا دے گے۔‘‘

 ہم نے اوپر سے نیچے تک اس عورت کو دیکھا۔۔۔۔۔ میلی کچیلی ساڑھی لپٹ رکھی تھی۔ ایک بچے کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اور ایک کمر سے لٹکا تھا۔۔۔۔۔۔دونوں بچوں کے بدن پر صرف ایک ایک نیکر تھی اور کچھ نہیں۔ہمیں  ان بچوں پر بڑا ترس آیا۔۔۔کچھ پیسے نکال کر اس کے ہاتھ میں رکھ دیئے۔۔۔۔ وہ جانے کے لئے مڑی۔۔۔۔۔’’ارے !ارے! سنو۔۔۔۔۔کیا ایک بات بتا سکتی ہو۔ ‘‘   ’’ہاں بولو مائی!‘‘   ’’گڈی کو جانتی ہو؟؟‘‘  ’’کون گڈی؟ میرے کو نئی معلوم۔‘‘ اور وہ آگے نکل گئی۔ ہم نے اور ایک دو مانگنے والیوں سے پوچھا ۔کسی سے بھی ہمیں کچھ پتہ نہ چل سکا۔ ہم مایوس ہوکر کار میں بیٹھنے ہی جا رہے تھے کہ پیچھے سے ایک عورت نے آواز دی۔

’’ میڈم جی۔۔۔۔۔میڈم جی رکو۔‘‘  ہمارے بڑھتے قدم رک گئے۔وہ پاس آکر بولی،’’تم گڈی کو کاہے کو پوچھ رہی ہو۔۔ اور اس کو تم کیسے جانتی ہو۔۔۔۔۔ایک مانگنے والی سے تم کو کیا لینا دینا؟‘‘

 ہم نے اس عورت کو غور سے دیکھا۔۔۔۔وہ حاملہ تھی۔۔۔عمر بھی کچھ بیس بائیس سال ہی ہوگی۔۔۔بات بھی ڈھنگ سے کر رہی تھی۔ہم نے اس سے کہا۔۔۔’’دو سال پہلے وہ ہم کو اسی سگنل پر ملی تھی۔ ہم نے اس سے بہت دیر تک بات کی تھی۔اس کی وہ بڑی بڑی لال آنکھیں اور اس پر اس کی گھنی پلکیں ۔ہمیں بہت اچھی طرح یاد ہیں۔ کیا بتا سکتی ہو وہ کہاں ہے اور کیسی ہے؟؟؟؟‘‘

’’میڈم جی!  کیا بتاؤں تم کو۔۔۔۔اور کیسے کہوں۔۔۔۔۔وہ۔۔۔وہ ہے نا مر گئی۔‘‘

’’کیا؟؟؟کیا کہہ رہی ہو؟؟ایک چیخ سی نکل گئی ہمارے منہ سے۔

’’ہاں میڈم۔ وہ تین چار مہینے پہلے مر گئی۔‘‘

’’کیوں؟ کیا ہواتھا اس کو؟ کچھ بیمار ہوگئی تھی کیا؟؟؟‘‘

’’نہیں میڈم جی ۔‘‘  ’’تو پھر کیا ہوا تھا؟؟؟‘‘

’’ایک دن اس کو نشہ بہوت ہی جیادہ ہوگیا۔ ایک دم ہی نشہ اس کے بھیجے میں چڑھ گیا۔۔۔۔۔رات کو جو سوئی تو صبحوں اٹھی ہی نہیں۔۔۔غریب کو کون پوچھتا۔۔۔کیوں مری اور کیسے مری؟؟؟کیا غرج پڑی کس کو ؟؟؟‘‘

’’کیا؟؟؟؟کیا کہہ رہی ہو؟ وہ نشہ کرتی تھی؟؟؟‘‘

’’میڈم جی!  وہ کاہے کونشہ کرتی ۔وہ تو اس کا سوتیلا باپ اس کو نشہ کروا کر غلط کام کرواتا تھا۔‘‘

یا اللہ یہ تڑپ تھی اس کی۔۔۔ کتنی اذیت سہتی تھی۔۔۔دل سے بڑی کوئی قبر نہیں ہوتی ۔ہر روز اس کا کوئی نہ کوئی احساس دفن ہوتا ہوگا۔

’’میڈم جی ! دن بھر وہ بھیک مانگتی۔۔۔۔شام کو جب گھر جاتی تو باپ اس سے جو پیسہ بھیک میں ملتا وہ چھین لیتا۔پھر کھانا بنواتا۔۔۔ رات کھانے کے بعد اس کو دارو پلاتا اور غلط کام کرواتا۔۔۔۔کسی کو بول بھی نئے سکتی تھی ۔اس کے چھوٹے بھائی کو جان سے مارنے کی دھمکی دیتا۔۔۔اور دونوں کو بہت مارتا بھی تھا۔میں اس کے باجو میں رہتی۔۔۔میرے بہوت پوچھنے کے بعد میرے کو بتائی تھی اور قسم دی تھی میرے کو کے کسی کو بولنا مت۔۔۔ نئے تو میرے بھائی کوجان سے مار دیگا۔ بیچاری نے بہوت ظولم برداس کیا۔ہر روز نشہ کر کر کے پاگل ہونے کو تھی۔۔۔۔چلنے کو بھی نئے ہوتا اس کو تو بھی باپ مار مار کر بھیک مانگنے کو بھیجتا۔کیا کرتی بے چاری۔۔۔۔اس واسطے چ اس کی آنکھ لال ہوتی تھی۔مر گئی۔۔۔۔چھوٹ گئی جالم دنیا سے۔۔۔۔روز روز مرنے سے تو اچھا ہچ ہے نا ایک بار میچ ختم ہوگئی۔ ادھر غریب کا کوئی نئے ہوتا۔گندی نالی میں پیدا ہوتا ہے اور ادھرہچ ختم بھی ہوجاتاہے۔ جاؤ میڈم جی جاؤ!!! چھوڑو ہم لوگ کو اپن کے حال پر۔۔۔۔۔ ‘‘

اوروہ اتنی تیزی سے مڑی اور آگے بڑھی کہ ہم لرز کر رہ گئے۔ ہم اس کی باتیں سن کر جیسے ساکت ہوگئےتھے۔ہمیں ایسا لگا جیسے اس ایک لمحے میں ہم نے صدیوں کا سفر طے کیا ہو ۔ ۔ ۔ کھڑے کھڑے تو پیر ویسے بھی سن ہوگئے تھے۔اٹھانا محال ہورہا تھا۔۔۔مشکل سے اپنے آپ کو گھسیٹتے ہوئے کار میں آکر بیٹھ گئے۔ڈرائیور نے کار آگے بڑھا دی۔

نہ جانے اس کی گھنی پلکوں کے سائے میں کتنے درد چھپے ہوئےتھے؟؟؟؟ کتنی تکلیف سے گزر رہی تھی وہ؟؟؟؟ کب تک ہوتا رہے گا ایسا؟؟؟ کب تک معصوم بچیاں لٹتی رہیں گی ؟  بیٹی امیر کی ہو یا غریب کی۔۔۔۔ ہر روز لٹ رہی ہیں۔۔۔۔کب تک انہیں موت کے گھاٹ اتارا جائے گا؟؟؟؟  آخر کب تک؟؟

تبصرے بند ہیں۔