شریعت میں تبدیلی کے خلاف دستخطی مہم میں تیزی کی اپیل

حفیظ نعمانی

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا سید محمد رابع حسنی الندوی نے ملک کے مسلمانوں سے ایک اپیل کی ہے کہ بورڈ کی دستخطی مہم انتہائی سنجیدگی سے چلائی جائے ۔ جوش اور جذبہ کے اظہار کے لیے نہ جلوس نکالے جائیں، نہ نعرے لگائے جائیں، نہ جلسے کیے جائیں اور احتجاج کے اظہار کے لیے نہ کالی پٹی باندھی جائے۔

مسئلہ مقابلہ کا نہیں ہے بلکہ صرف ان سب کو سمجھانے کا ہے جن کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور ہے اور وہ نہیں جانتے کہ اسلام کیا ہے؟اور افسوس اس کا ہے کہ جو دو چار ایسے بھی ان کے ساتھ ہیں جو قرآن عظیم کو خدا کی کتاب اور آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر دین کی آخری دستاویز مانتے تو ہیں لیکن جانتے نہیں کہ وہ کیا ہے؟ اگر وہ جانتے ہوتے اور سنجیدگی سے اپنے سب سے بڑے مودی صاحب کو بتاسکتے کہ ’’اقرأ‘‘ سے شروع ہو کر ’’الیوم اکلمت لکم دینکم ‘‘ تک کی پوری کتاب میں یہی بتایا گیا ہے کہ دنیا کے بنانے والے نے دنیا میں رہنے والوں کے لیے ایک دین (دھرم) بنادیا ہے اور وہ یہ ہے اور اس کی وضاحت تو ہوسکتی ہے لیکن اس میں نہ کمی کی جاسکتی ہے، نہ اضافہ اور نہ تبدیلی ۔اور اس کو بنانے والے نے ہی فرمایا کہ ہم نے اس کا نام اسلام رکھا ہے جو ہمیںپسند ہے۔

مسلمان عالم ہی نہیں دنیا کے سارے عالموں سے بڑا عالم بھی ہو تو وہ اس میں اگر تبدیلی کرنے کے بارے میں سوچے گا بھی تو وہ نافرمانی کرے گا۔ تو کس کی ہمت ہے کہ اس کے ایک لفظ کی بھی نافرمانی کرسکے؟ یہ مسلمانوں کی ضد نہیں مجبوری ہے ان کے صرف ہاتھ ہی بندھے ہوئے نہیں ہیںبلکہ ان کی زبانیں، ان کی آنکھیں، ان کے کان سب بندھے ہوئے ہیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد مکہ کے ا طراف میں بہت سے لوگ مرتد(بے دین) ہوگئے تھے۔ مودی صاحب کی زبان میں گھر واپس ہوگئے تھے لیکن بعد میں انھیں اندازہ ہوا کہ وہ غلطی کررہے ہیں اور پھر وہ اسلام کے سپاہی بنے۔ دین اسلام پر پوری طرح عمل نہ کرنے والے اور اس میں من مانی تبدیلی کرنے والے آج ہی سامنے نہیں آئے ہیں۔ ہمیشہ سے گمراہ ہونے والوں کا بھی ایک طبقہ رہا ہے اور اس طبقہ میں بھی رد و بدل ہوتا رہا ہے۔ اہل قرآن یا قادیانی وغیرہ۔

سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کے مزاج کو بھی اپنے جیسا بنا لیا ہے اگر کسی بات سے اختلاف ہے تو دھرنا، مظاہرہ یا کالی پٹی باندھنا۔ اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ ان باتوں سے ہوتا کچھ نہیں۔ اب بہت کم لوگ وہ رہ گئے ہیں جنھیں اردو کے لیے انجمن ترقی اردو کی دستخطی مہم یاد ہوگی۔ حکومت نے کہا تھا کہ اگر 20 لاکھ آدمی کہیں تو ہم اترپردیش میں اردو کو علاقائی زبان کا درجہ دے دیںگے۔ اردو والے صرف یہ چاہتے تھے کہ سہ لسانی فارمولے میں اردو شامل رہے۔ اور علاقائی زبان کا یہ حق ہوتا ہے۔ اس آواز پر24 لاکھ سے زیادہ دستخط اردو والوں نے کئے تھے۔ ہم بھی ان ورکروں میں تھے جس میں نہ کوئی شور، نہ جلسہ، نہ جلوس، نہ کالی پٹی بس گھر گھر جانا اور دستخط کرانا۔ یہ حکومت کی نیت کی خرابی تھی کہ وہ منہ پر ٹیپ لگا کر بیٹھ گئی اور دستخطوں کا وہ مینار قصر صدارت میں سسک سسک کر مر گیا۔

اب مسلمانوں کو دین متین کے لیے معمولی سی قربانی دینا ہے۔ لیکن مسلمانوں سے یہ نہیںکہا گیا ہے کہ اس کے لیے مخالفت کرنے والوں سے لڑائی لڑو۔ اردو کے لیے دستخط کرانے کے بعد جب نشانہ پورا ہوگیا تو اردو مخالفوں نے مار پیٹ کرکے فساد کرانا چاہا تھا، لیکن ڈاکٹر ذاکر حسین اور حیات اللہ انصاری دونوں گاندھی جی کے ماننے والے تھے۔ انھوں نے تھپڑ کا جواب تھپڑ سے نہیں دیا اور بات آئی گئی ہوگئی۔ وہ مسلمان خواتین جو ایک خاص مزاج کی خواتین میں گھل مل گئی ہیں جنھوں نے ان مندروں میں جانے اور ان مزاروں پر جانے کے لیے مقدمہ بازی کو پیشہ بنا لیا ہے، جہاں عورتوں کو جانے کی اب تک اجازت نہیں تھی وہ مفسدوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئی ہیں۔ نہ اس کا خیال ہے کہ بالوں کے بارے میں اسلام کا کیا حکم ہے ؟نہ پردے کے بارے میں کہ اس کا کیا حکم ہے؟ نہ تو اس کا خیال ہے کہ کیسے کپڑے پہننے کی ہدایت کی گئی ہے؟ وہ کٹے ہوئے بالوں کو ننگے سر جسم کے نشیب و فراز کی نمائش کرتی صرف ایک نعرہ لگا رہی ہیں کہ مردوں اور عورتوں کے حقوق برابر ہیں۔ اور عدالتیں ان کے حق میں فیصلے کررہی ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے دستخطوں کا انجام کیا ہوگا یہ مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ آج بھی گم راہ مسلمان برائے نام ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عمل میں ان سے کوتاہی ہوجاتی ہو لیکن ایمان سب کا محفوظ ہے اور یہ ان کا سرمایہ ہے۔

قرآن عظیم کوئی عام کتاب نہیں ہے یہ وہ بارِ امانت ہے جس کے بارے میں خود پاک پرورد گار نے فرما دیا ہے کہ اگر اس قرآن کو انسان کے بجائے پہاڑ پر نازل کردیا جاتا تو تم دیکھتے کہ وہ پتھر خوف خدا سے روئی کے گالوں کی طرح اڑتے ہوئے نظر آتے۔ جن مسلمانوں کو بزرگ علماء کے پیچھے نماز کی سعادت حاصل ہوئی ہے یا جنہیں خانۂ کعبہ یا مسجد نبوی میں تراویح پڑھنے کی سعادت ملی ہے تو انھوں نے امام محترم کی آواز کا فرق دیکھا ہوگا کہ جب عذاب کی آیتیں اور دوزخ کی سزا کا ذکر آتا ہے تو آواز لرز جاتی ہے۔

اس قرآن میں جو فرمادیاگیا وہ حرف آخر ہے اور صرف خود اس کی حفاظت کرنا ہی اس کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ جس سے بھی اس کے کسی لفظ کو خطرہ محسوس ہو اس سے بچانا اور اس کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا بھی ہر مسلمان کا فرض ہے۔ یہ تو سب سمجھ رہے ہیں کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیںہے، لیکن ہمیں یہ حکم نہیںہے کہ ہم کسی سے لڑیں۔ چین بھی اپنی سی کرکے دیکھ چکا اور روس بھی وہ سب کرچکا جو انسان کے بس میں تھا۔ اور بتانے والے بتا رہے ہیں کہ اس وقت دنیا کے ہر ملک سے زیادہ تبلیغی جماعتیں روس میں کام کررہی ہیں۔ نریندر بھائی مودی بھی آر ایس ایس کے حکم کی تعمیل کررہے ہیںجب ابتک کوئی نہ کرسکا تو پھر کسی کا ڈر نہیں۔ اپنا فرض دستخط کرانا ہے۔ آج جب تعلیم گائوں گائوں پہنچ چکی ہے تو کروڑوں دستخط کرانا کھیل ہے جو صرف دیوالی کی چھٹی میں ہی پورا کیا جاسکتا ہے۔ ہر مسلمان کو اس کے لیے بھی شکر ادا کرنا چاہیے کہ برسوں کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب اپیل کرنے والا صرف بورڈ نہیں ہے جمعیۃ علماء ہند، علماء دیوبند، علماء بریلی اور علماء اہل احدیث کے علاوہ ملی کونسل اور دوسری تنظیمیں بھی ہیں۔ جو ایک بہت بڑی نعمت ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔