غضنفر کا افسانہ ’سانڈ‘ : ایک تجزیہ ( آخری قسط)

صفدر امام قادری

اس کلائمکس کے بعد بھی غضنفر کے پاس ایک اور ڈراما بچا ہوا ہے۔ اب دونوں گانو کے لوگ یک راے ہیں کہ دونوں سانڈوں کو مار دیا جانا چاہیے۔ لیکن ٹھیک اِسی مرحلے میں محکمۂ تحفّظِ وحشیان کے افراد پہنچ جاتے ہیں جن کے نزدیک جانوروں کا مارنا بڑا جُرم ہے اور اُن سانڈوں کو وہ اپنی حفاظت میں لے لیتے ہیں۔ اس مختصر ڈرامائی کیفیت سے افسانہ نگار کو حالات کے جبر اور اُس کی بوالعجبیوں کو واشگاف کرنے کا موقع ہاتھ آگیا ہے جس کے نتیجے میں گانو والوںکے لیے اپنے سرپیٹ لینے کے علاوہ کوئی چارۂ کار بھی نہیں رہتا ہے۔
اس افسانے کی دوباتوں کی طرف مزید توجّہ دینے کی ضرورت ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ مذہب اور سیاست کے اشتراک سے سماج میں کیا کچھ ہو رہا ہے، اس کا صاف صاف اشارہ اس افسانے میں موجود ہے۔ دوسرا یہ کہ آخر جانور کو بنیاد بنا کر انسانی زندگی کی کہانی کیوں لکھی گئی ہے؟ پہلے دوسرے پہلو پر غور کریں تو محسوس ہوگا کہ غضنفر جانوروں کے ارد گرد رہ کر بار بار اپنے افسانے بنتے دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کے افسانوی مجموعے میں ’سانڈ‘، ’کڑواتیل‘، ’ایک اور ققنس‘، ’پہچان‘، ’بھیڑ چال‘، ’ڈوبرمین‘، ’ہَون کنڈ‘، ’اس نے کیا دیکھا‘، ’مٹھائی‘، ’ڈگڈگی‘، ’کلہاڑا‘ اور’اصلاح الوحشیان؛یعنی کُل بارہ افسانے جانوروں کے آس پاس کی زندگیوں سے عبارت ہیں۔ ان کے مجموعے کا ہر تیسرا افسانہ جانوروں یا پرندوں سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ کیا وہ جانوروں کی کہانیاں سنانا چاہتے ہیں؟ انھیں انسانی زندگی کے پیچ وخم کی وضاحت کے لیے جانوروں کی مدد کی ضرورت ہے؟ یا جانور ان کے ہاں انسانی تشخّص حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں؟
جانوروں کی زندگیوں کی تفصیل بتاتے ہوئے انسانی کائنات کے تمام نشیب وفراز واضح کرنے کا غضنفر نے کوئی بالکل نیا اور ذاتی سلیقہ ایجاد کیا ہو، ایسا نہیں ہے۔ ’پنچ تنتر‘، ’منطق الطیر‘سے لے کر’ Animal Farm ‘تک؛ جانوروں کے ساتھ ساتھ ہماری قصّہ گوئی اپنی بھرپور مقصدیت واضح کرتی رہی ہے۔ غضنفر باربار جانوروں کے سہارے آخر کیوں اپنی بات ہم تک پہنچانا چاہتے ہیں اور وہ بھی جانوروں کی کم، انسانی سماج کی زیادہ۔ کم سے کم انھیں سیاسی اور معاشرتی کہانیاں تو جانوروں کے سہارے نہیں ہی کہنی چاہیے تھیں۔
ایک فن کار کی حیثیت سے غضنفر نے اس معاملے میںشاید بہت سوچی سمجھی حکمتِ عملی اختیار کر رکھی ہے۔ جانوروں کے سہارے طنز واستہزا کو وہ بآسانی بڑھا دیتے ہیں۔ انسانی جبر کے مظاہر دکھانے میں بھی انھیں جانوروں کا ذکر کرکے ایک تقابلی منظریہ قائم کرنے میں مدد ملتی ہے۔جہاں انھیں انسانی سماج کے کھیل تماشے دکھانے ہوتے ہیں، وہاں وہ من چاہے طریقے سے جانوروں کے واقعات بتاتے ہوئے انسانوں کے حال چال پس منظر میں دکھاتے چلتے ہیں۔ ہر جگہ انسان کی وہ جیسی شکل چاہتے ہیں، آسانی سے اُسے پیش کرسکتے ہیں۔ یہ غور کا مقام ہے کہ ’’کڑواتیل‘‘ کے کولھو کا بیل مظلوم صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے اور کولھو کے مالک شاہ جی استحصال اور ظلم کے نمایندہ بن کر جانور کے مقابلے خود کم تر دکھائی دیتے ہیں۔ اس سے مختلف افسانہ ’سانڈ‘ کا سانڈ ظالم ہے اور استحصال کا خود نمایندہ معلوم ہوتا ہے لیکن افسانہ نگار کا کمال دیکھیے کہ پھر بھی وہ انسانوں کو ہی ظلم اور استحصال کا کارندہ بتانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہاں جانور اگر ظلم کرتا ہے تو اس لیے کہ وہ انسانوں کے ہاتھوں کا کھلونا ہے۔ اس طرح بے زبان جانوروں سے افسانہ نگار کی محبت لائق توجّہ ہے جس کا عروج افسانے کے آخر میں اس طرح سامنے آتا ہے کہ سانڈوں کو مارنے سے پہلے تحفّظِ وحشیان کے افراد ان سانڈوں کو اپنی حفاظت میں لے کر انھیں مارے جانے سے بچالیتے ہیں۔ جذبوں کی سطح پر یہ معصومیت اور نرمی غضنفر کی ادبی شخصیت کی اصل روح ہے۔
اس افسانے کے سیاسی پہلو کی طرف ہم واپس آتے ہیں۔ گاے تقدیس اور معصومیت کا اشارہ ہے، بیل محنت کا اور سانڈ ظلم اور طاقت کا۔ غضنفر نے اس عام تصوّریے کو بدلنے اور بگاڑنے کی کوئی حکمت نہیں آزمائی۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ عنوان دیکھتے ہی پڑھنے والا سانڈ کے عوام مخالف رویّے کو ذہن میں سمیٹ لیتا ہے۔ قاری کے جذبات اور دل پر افسانہ نگار کس قدر حاوی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگانا چاہیے کہ افسانہ شروع ہوتے ہی سانڈ کی ظالمانہ حرکتوں کا اشارہ ملنے لگتا ہے۔ پہلے جملے میں ہی افسانہ نگار عوامی یادداشت کو اوّلیت دے کر پڑھنے والے کا بھرپور اعتماد حاصل کر لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ حالاں کہ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ غضنفر سانڈ کو ظلم کا نمایندہ نہیں بنانا چاہتے بلکہ سانڈ کے پالنے اور نچانے والوں پر نشانہ سادھتے ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ ایک ہوش مند قصّہ گو کا یہ فرض ہے کہ پہلے وہ قاری کو اپنا بنائے اور پھر اُس کے ذہن میں وہ سب کچھ ڈال دے جس کے لیے وہ افسانہ لکھ رہا ہے۔اس اعتبار سے سانڈ کے تصوّرکوقائم کرنے اور پھر غائب کر دینے میں غضنفر نے خاصی مہارت دکھائی ہے۔
غضنفر نے چوں کہ یہ طے کیا تھا کہ وہ سیاسی اور سماجی افسانہ لکھنے جارہے ہیں، اس لیے انھوںنے سانڈ کا بار بار ذکر تو کیا لیکن ہر بار انھوں نے سانڈ کے پیچھے انسانی جماعتوں کی طاقت کا کھیل بھی لازمی طور پر دکھایا۔ اس کھیل میں نہ جانے کتنے فریق ہیں اور سب موقع بہ موقع اپنا کام کرتے جاتے ہیں لیکن نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ انسانی شکست کی کہانی میں چند اور اق پھر سے جوڑدیے جاتے ہیں۔ غضنفر چلتے پھرتے یہ دکھا دیتے ہیں کہ سانڈ تو پکڑ لیا جائے یا مار دیا جائے لیکن اُسے بچانے والوں کا کیا ہوگا؟ کبھی گانوکے نام پر، کبھی مذہب کے نام پر اور کبھی تحفّظِ وحشیان کے نام پرسانڈ تو بچ ہی جاتا ہے، اس قدر مدد سماج کی صالح قدروں کو کسی موڑ پر نہیں مل رہی ہے۔ واقعتا یہ لمحۂ فکر یہ ہے۔ غضنفر کوئی اعلان تو نہیں کرتے لیکن افسانے کو نہایت پُرسوز مقام پر اسی لیے چھوڑ دیتے ہیں تا کہ پڑھنے والے سماج ، سیاست اور مذہب کے اس کھیل کو سمجھ سکیںکہ کہیں کوئی مددگار یا طرف دار نہیں ہے اور انسانیت کو سفّاک جبڑوں میں برباد کرنے کا ارادہ ہے۔
’سانڈ‘ میں نئی اور پرانی نسل میں کسی بڑی آویزش کو نہیں دکھایا گیا ہے۔ سورج پور کے نوجوانوں اور بزرگ کے تعلّقات پر غور کریں تو پتا چلے گا کہ دونوں کے بیچ اچھا خاصا تال میل ہے اور ایک دوسرے سے صلاح ومشورہ کا سلسلہ قائم ہے۔ دونوں کے درمیان ترسیل کی کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور سماجی مسئلوں میں دونوں مل جُل کر غور وفکر سے کام لے رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس افسانے میں Synthesisکاعمل چل رہا ہے۔ پرانے اور نئے لوگوں میں نہ کوئی ضد ہے اور نہ مقابلہ آرائی۔ ایک دوسرے سے کسی بڑی شکایت کا بھی پتا نہیں چلتا۔ آنے والے دور میں شاید ایسا ہی سماج بنے جہاں نہ کسی کو احساسِ برتری ہو اور نہ احساسِ کمتری سے کوئی پسپا ہونے کے لیے مجبور ہو ۔ حالاں کہ یہ غم انگیز صورت ہے کہ پرانی اور نئی نسل کے ایک ساتھ سرگرمِ عمل ہونے کے باوجود ہمارے مسئلے حل نہیں ہوتے اور ہم بہ تدریج ختم ہوتے جانے کے لیے مجبور ہیں۔
اس افسانے میں اسطور کا بہت خوبی سے استعمال ہوا ہے۔ سانڈ یعنی ظالم قوت اسطور کے سہارے ہی جو از حاصل کرتا ہے۔ اصلاً مذہب اسی قدر اس افسانے میں اوپری سطح پر دکھائی دیتا ہے۔ لیکن افسانہ نگار کا یہ کارنامہ ہے کہ ایک ذرا سی بات سے اُس نے پورے افسانے میں استحصال کے قائم ہونے والے ڈھانچے کی پہچان کرلی اور ہمارے ذہن میں یہ سوال بھی بھر دیا کہ کس طرح مذہب اور دھرم کرم کے نام پر سماج دشمن تصوّرات استعمال میں لائے جاتے ہیں اور دھیرے دھیرے ہمارا سماج آپس میں لڑ کر بہ تدریج کمزور ہوتا جاتا ہے۔ اسطور کے استعمال سے یہاں سیاست کا اعلانیہ انداز بھی نہیں اُبھرا اور مذہب کے نام پر قائم غیرانسانی رواجوں کا بھی پردہ فاش ہو گیا۔
اپنی نسل میں زبان کی سطح پر غضنفر کے ہاں سب سے زیادہ تجرباتی ذہن دکھائی دیتا ہے۔ غضنفر کے ذریعہ وضع کی جارہی رنگ برنگی زبان کی طرف زبان کے اداشنا سوں کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس سادہ سے افسانے میں یوں تو انشا پردازی دکھانے، زبان کے گُل بوٹے ٹانکنے کی گنجایش نہیں تھی۔ اس کے باوجود اُن کے ہر جملے میں اُن کا مخصوص طریق کار ابھرتا نظر آتا ہے۔ بالخصوص جزئیات نگاری میں انھوں نے اپنی مہارت کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ حالات اور کیفیت کو پوری اثر آفرینی کے ساتھ ابھارنے میں انھیں اپنی اسی قوت سے مدد ملتی ہے۔ ’سانڈ‘ میں طنز کی کیفیت، بیان میں اجمال اور بُنت میں استحکام اسی زبان دانی سے پیدا شدہ ہیں۔ اپنے اکثر افسانوں یا ناولوں میں غضنفر اپنی انشا پردازانہ صلاحیتوں سے قصّے کو پھیلانے کا کام کرتے ہیں جسے انھوں نے یہاں کسی بھی طور پر نہیں آزمایا ہے۔ یہاں زبان کے صرف تاثیری پہلو کو ہی انھوں نے ملحوظ رکھاہے اور اس میں انھیں بھرپور کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
تو کیا ’سانڈ‘ ہمارے زمانے کا بڑا افسانہ ہے؟ کیا اسے اردو کے عظیم مختصر افسانوں میں جگہ دی جا سکتی ہے یا کیا اسے شہہ کار قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا یہ ’کفن‘، ’عیدگا‘، ’ہتک‘، ’لاجونتی‘ کی صف میں شامل ہو سکتا ہے؟ ان سوالوں کے جواب میں مجھے ’ہاں‘ نہیں کہنا چاہیے۔ غضنفر نے بڑی تخلیق لکھنے کے لیے بنیادی مسالہ جمع کر لیا ہے۔ ان کا مطالعۂ کاینات، زبان اور تکنیک پر قدرت ایسے جوہر ہیں جن کے بَل پر انھیں نہ صرف اپنے عہد کا بڑا ناول لکھنا ہے بلکہ ان پر کئی یاد گار افسانوں کا لکھنا بھی قرض ہے۔ انھیں اپنے عہد کا رزمیہ لکھنا ہے لیکن اس کے لیے غضنفر کو اپنی تخلیقی شخصیت کو شاید مزید صیقل کرنا پڑے۔

تبصرے بند ہیں۔