شعبان المعظم اور پندرہ شعبان

محمد احمد رضا

شعبان لفظ شعب سے ماخوذ ہے۔ اس کے معنی ہیں تفریق کرنا۔ چونکہ یہ مہینہ نیک اعمال اور برے اعمال میں تفریق پیدا کرتا ہے، اسی لئے اسے شعبان کہتے ہیں۔ شعبان کی جمع شعبانات اور شعبین بھی آتی ہے۔ اس ماہ کا نام شعبان رکھنے کی ایک وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس ماہ کے روزے عبادت گزاروں کے لئے خیر کثیر اور مقام رفعت اور سامانِ بخشش ہیں کہ وہ انسان کو جنت میں داخل کرتے ہیں۔

امام سیوطی ؒ الجامع الصغیر میں نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: { شعبان شھری و رمضان شھر اللہ} یعنی شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کریم کا مہینہ ہے۔

امام جلال الدین سیوطی ’’تفسیر در منثور‘‘ میں لکھتے ہیں کہ خطیب بغدادی اور ابن نجار نے حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ سلام اللہ علیہا سے روایت کی ہے ؛

رسول اللہ ﷺتمام شعبان کے روزے رکھ کر اس کو رمضان کے ساتھ ملادیتے تھے اور آپ کسی بھی ماہ کے تمام دنوں کے روزے نہ رکھتے تھے سوائے شعبان کے۔ میں نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ شعبان کا مہینہ آپ کو بڑا پسند ہے کہ آپ اس کے روزے رکھتے ہیں ؟ آپ ﷺنے فرمایا: ہاں۔ اے عائشہ (رضی اللہ عنہا): کوئی انسان بھی پورے سال میں فوت نہیں ہوتا مگر اس کی اجل شعبان میں لکھ دی جاتی ہے۔ تو میں پسند کرتا ہوں کہ جب میری اجل لکھی جائے تو میں اللہ کی عبادت اور عمل صالح میں مصروف ہوں۔

اسی ماہ مقدس میں ایک رات بہت اہمیت کی حامل ہے۔ جسے عرفِ عام میں شب براء ت کہا جاتا ہے۔ اس رات کے فضائل کی طرف جانے سے قبل ایک اصول عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ہاں بعض احباب کسی حدیث کی سند کو ضعیف دیکھ کر فوراً رد کر دیتے ہیں۔ یہ طریقہ درست نہیں ہے۔ علماء اصول حدیث کا متفقہ اصول ہے کہ ضعیف حدیث فضائل و مستحبات میں قابل قبول ہے۔ ضعیف حدیث سے فرض، واجب ثابت نہیں ہوتا لیکن اس پر عمل کرنا استحباب کے درجہ میں ضرور آتا ہے۔ اور جب ملتے جلتے مضمون کی حدیث مبارکہ جس کی سند ضعیف ہو، کئی طُرق سے آ جائے تو وہ ضعیف سے درجہ سے بڑھ کر حسن لغیرہ وغیرہ کے درجہ میں آ جاتی ہے۔ یہ ہی وجہ سے ہے کہ محدثین نے ان روایات کو اپنی کتب میں درج کیا ہے۔ بہرحال اگر حدیث مبارکہ کی سند ضعیف بھی ہو، تب بھی وہ بہت سے احکام میں قابل قبول ہوتی ہے۔

شعبان المعظم کی پندرہویں شب جسے عام طور پر شب براء ت کہا جاتا ہے یہ رات بہت اہمیت کی حامل ہے۔

اللہ تبارک و تعالی نے سورۃ الدخان آیت نمبر تین میں ارشاد فرمایا؛

{إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِي لَیلَۃٍ مُبَارَکَۃ ٍ}

بے شک ہم نے قرآن کو مبارک رات میں نازل فرمایا۔ بعض مفسرین کے نذدیک اس سے مراد شعبان کی پندرہویں رات ہے۔ اور وہ فرماتے ہیں کہ اس رات میں اللہ سبحان و تعالی نے قرآن کریم کو لوحِ محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل فرمایا اور پھر آسمانِ دنیا سے پیارے آقا کریم ﷺ پر ستائیس رمضان المبارک کی رات سے شروع ہو کر تئیس سال کے عرصہ میں نازل ہوا۔ امام شہاب الدین محمود بن عبد اللہ الحسینی آلوسی تفسیر روح المعانی میں نقل کرتے ہیں ؛

روي عن ابن عباس وقتادۃ وابن جبیر ومجاھد، وابن زید والحسن وعلیہ أکثر المفسرین وقال عکرمہ وجماعۃ: ھي لیلۃ النصف من شعبان۔ وتسمی لیلۃ الرحمۃ واللیلۃ المبارکۃ  ولیلۃ البراءۃ

حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت قتادہ، ابن جبیر، امام مجاہد، ابن زید، حسن اور اکثر مفسرین سے مروی ہے، حضرت عکرمہ اور ایک جماعت نے روایت کیا: (لیلۃ مبارکہ سے مراد) شعبان کی نصف شب (یعنی پندرہویں شعبان کی رات) ہے۔ اسی رات کو رحمت کی رات، مبارک؍برکت والی رات، براء ت و مغفرت والی رات کہا جاتا ہے۔

دیگر مفسرین نے اس آیت کریمہ سے مراد لیلۃ القدر کی رات بھی مراد لی ہے۔ ہم اس کا بھی انکار نہیں کرتے۔ مفسرین کی آراء موجود ہیں۔ لیکن اسی آیت کے تحت حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سمیت کئی مفسرین نے پندرہ شعبان کی رات بھی مراد لی ہے۔ میری نظر میں آیت کریمہ کا سیاق و سباق بھی پندرہ شعبان کی رات پر دلالت کرتا ہے کہ اس آیت سے متصل اگلی آیات قضاء قدر کے فیصلوں کی رات کے بارے میں ہیں۔ اور احادیث سے ثابت ہے کہ قضاء و قدر کے فیصلوں کی رات(یعنی جس رات میں سال بھر کے متعلق قضاء و قدر کے فیصلے لوح محفوظ سے نقل کر کے ان فرشتوں کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں جو شعبہ ہائے تکوینیات میں کام کرنے والے ہیں۔ تفسیر عثمانی) وہ رات شعبان کی پندرہویں رات ہے۔

جامع البیان میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی لوگوں کے درمیان چل رہا ہوتا ہے، حالانکہ وہ مردوں میں اٹھایا ہوا ہوتا ہے، پھر آپ ؓ نے سورۃ الدخان کی (مندرجہ بالا) آیات کی تلاوت فرمائی۔ پھر فرمایا کہ اس رات میں ایک سال سے دوسرے سال تک دنیا کے معاملات کی تقسیم کی جاتی ہے۔

بعض مفسرین نے اس فیصلوں کی رات سے مراد لیلۃ القدر کی رات لی ہے۔ لیکن یہ اختلاف حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی اس روایت سے ختم ہو جاتا ہے کہ؛ معالم التنزیل میں ہے، آپ ؓ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالی نصف شعبان کی رات کو معاملات کے فیصلے فرماتا ہے اور لیلۃ القدر میں ان فیصلوں کو ان اصحاب (فرشتوں ) کے سپرد کر دیتا ہے۔ اسی بات کو مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے تفسیر عثمانی میں سورۃ الدخان کی آیت پانچ کے تحت اس طرح بیان فرمایا کہ؛ ممکن ہے وہاں (پندرہ شعبان کی رات) سے اس کام کی ابتداء اور شب قدر پر انتہاء ہوتی ہو۔

مختصر یہ کہ صحابہ کرام سمیت بہت سے مفسرین و محدثین کے اقوال و آثار کے مطابق اس آیت سے مراد پندرہ شعبان کی رات ہے۔ احادیث میں اس رات کی کئی فضائل بیان ہوئے ہیں۔ جن میں سے چند روایات ذیل میں درج ہیں۔

حضرت علی المرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا؛

  اذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلھا و صوموا نھارھا فان اللہ ینزل فیھا لغروب الشمس الی سمائ الدنیا فیقول: الا من مستغفر لی فاغفر لہ الا مسترزق فارزقہ الا مبتلی فاعافیہ الا کذا الا کذا حتی یطلع الفجر۔ سنن ابن ماجہ۔ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا۔ باب ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان۔ حدیث نمبر:1388۔

ترجمہ: جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو تم اس کی رات کو قیام کیا کرو اور اس کے دن روزہ رکھو، بے شک اللہ تعالی اس رات اپنے حسبِ حال غروب آفتاب کے وقت آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے تو وہ کہتا ہے: کیا کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا نہیں ہے کہ میں اسے بخش دوں ؟ کوئی رزق طلب کرنے والا نہیں ہے کہ میں اسے رزق دوں ؟ کوئی بیماری میں مبتلا نہیں کہ میں اسے عافیت دوں ؟ کیا کوئی ایسا نہیں ؟ کیا کوئی ایسا نہیں ؟ یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔

 حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میرے پیارے آقا  ﷺ  نے فرمایا؛ یطلع اللہ عزوجل الی خلقہ لیلۃ النصف من شعبان فیغفر لعبادہ الا لاثنین: مشاحن و قاتل نفس۔ مسند احمد بن حنبل۔ حدیث نمبر: 6642۔ ترجمہ: اللہ تعالی اپنی مخلوق کی طرف شعبان کی پندرہویں کی شب توجہ فرماتا ہے اور اپنے بندوں کو معاف فرماتا ہے سوائے (دو طرح کے افراد کے) اپنے بھائی سے عداوت، دشمنی،  قطع تعلقی رکھنے والے اور دوسرا کسی انسان کو قتل کرنے والے کے۔

اس رات کی عبادت کے حوالے سے حضرت عائشہ صدیقہ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ:

فقدت رسول اللہ  ﷺ  ذات لیلۃ فخرجت فاذا ھو بالبقیع رافع راسہ الی السماء فقال لی: اکنت تخافین ان یحیف اللہ علیک و رسولہ، قالت: قلت یا رسول اللہ ظننت انک اتیت بعض نسائک، فقال: ان اللہ عزوجل ینزل لیلۃ النصف من شعبان الی السماء الدنیا فیغفرلاکثر من عدد شعر غنم کلب۔ مسند احمد بن حنبل؛ مسند الصدیقۃ عائشۃ بنت الصدیق رضی اللہ عنھا۔ حدیث نمبر: 26018۔

ترجمہ: ام المؤمنین حضرت امی جان عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا و سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ  ﷺ کو (بستر مبارک پر) نہ پایا، پس میں آپ کی تلاش میں باہر نکلی تو دیکھا کہ آپ آسمان کی طرف اپنا سر اٹھائے ہوئے جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں۔ آپ  ﷺ  نے فرمایا: کیا تجھے ڈر ہوا کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کریں گے؟ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ  ﷺ ؛ مجھے گمان ہوا کہ آپ کسی دوسری زوجہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : یقینا اللہ تبارک وتعالی (اپنی شان کے لائق) شعبان کی پندرہویں شب آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے، پس وہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بحش دیتا ہے۔

یہ حدیث پاک شب براء ت کی عبادت کے بارے میں واضح ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ پیارے آقا ﷺ خود اس رات کو قبرستان میں تشریف لے گئے ہیں اور راویہ حضرت ام المؤمنین ہیں۔ لہذا یہ کہنا کہ اس رات کو قبرستان جانا، عبادت کرنا بدعت ہے تو اس سے بڑی جہالت اور کیا ہو سکتی ہے؟ لیکن ایک بات مدنظر رہے کہ اس رات میں قبرستان جانے، عبادت کرنے کو لازم نہیں کہنا چاہئے، اگر کوئی نہیں کرتا تو وہ قطعاً گنہگار نہ ہو گا۔ اور یہ بھی لازم نہیں کرنا چاہئے کہ اس رات کی محفل کرنی ہے تو وہ کسی قبرستان میں ہی کرنی ہے، کہیں اور عبادت نہیں کر سکتے، یا عبادت کو خاص کر دینا کہ جیسے مشہور ہے، خاص نوافل ادا کئے جاتے ہیں اور ان میں خاص سورتیں ہی پڑھی جاتی ہیں، سوال کیا جاتا ہے کہ اس رات کو کتنے نوافل پڑھیں اور ان میں کون کون سی سورتیں پڑھیں یہ سب لازم نہیں ہے۔ روایات میں فقط عبادت کا حکم ہے، قیام کرنے یعنی نوافل ادا کرنے کا حکم ہے۔ اگر کسی بزرگ نے کوئی خاص نوافل ادا کئے ہیں تو وہ ان بزرگوں کا طریقہ تو ہو سکتا ہے لیکن ان نوافل اور اس خاص عبادت کو لازم نہیں کیا جاسکتا۔ میرے نقطہء نظر میں ہمیں احادیث مطہرہ سے سنتِ رسول ﷺ کو اخذ کرتے ہوئے اس بات کا خیال بھی رکھنا چاہیے کہ جو چیز احادیث مطہرہ میں جس قدر ثابت ہو ہمیں اس سنت کو اس سے زیادہ بڑھانا نہیں چاہئے۔ رسول اللہ ﷺ سے اس رات کو قبرستان جانا فقط ایک بار ثابت ہے، لہذا اگر کوئی زندگی میں ایک بار اس رات میں قبرستان گیا تو اس کی یہ سنت ادا ہو گئی۔ اب اگر وہ باقی ساری زندگی شب براء ت میں قبرستان نہیں جاتا تو اسے خلافِ سنت عمل کرنے والا نہیں کہہ سکتے۔ اسی طرح ماہ شعبان کی پندرہویں کے روزہ کے بارے میں حکم ہے کہ ذخیرہ حدیث میں اس روزہ کے بارے میں ایک روایت موجود ہے، جس کی سند درجہ صحیح پر نہیں ہے۔ لہذا اس روایت کو سامنے رکھ کر اس روزے کو لازم قرار دینا، یا جو نہ رکھے اسے یہ کہنا کہ اس کا روزہ نہ رکھنا خلافِ سنت ہے یہ غلط ہے۔ البتہ ماہ شعبان کے پورے ماہ کے روزے رکھنے کی فضیلت احادیث سے ثابت ہے لیکن اگر کسی نے پورہ ماہ روزے نہ رکھے اور شعبان کے آخری ایک دو روز کے روزے رکھنا چاہتا ہے اس کی ممانعت ہے۔ شب براء ت کی احادیث سنت اور مستحسن عمل پر دلالت کرتی ہیں، لہذا اس رات کی عبادت کو مستحسن اور  سنت ہی سمجھنا چاہئے اور کسی عمل کو لازمی قرار نہیں دینا چاہئے۔

اس کے علاوہ شب براء ت کے حوالے سے چند مزید احادیث مطہرہ پیش ہیں کہ؛ مسند البزار کی روایت کے مطابق حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا ؛ اللہ تعالی اس رات سب کو معاف فرما دیتا ہے سوائے اپنے بھائی سے دشمنی رکھنے والے اور شرک کرنے والے کو معاف نہیں فرماتا۔

امام طبرانی کی المعجم الکبیر کی حدیث نمبر 590میں ہے، حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالی اس رات کو اپنے بندوں پر مطلع ہوتا ہے اور مومنوں کی مغفرت فرماتا ہے، کافروں کو مہلت دیتا ہے اور دوسروں سے حسد کرنے والوں کو ان کے حسد میں چھوڑ دیتا ہے یہاں تک کہ وہ حسد کرنا ترک کردیں۔ سعودی عرب کے جدید دور کے عالم شیخ ناصر الدین البانی نے اپنی کتاب ظلال الجنۃ فی تخریج السنۃ لابن ابی عاصم میں تخریج کرتے ہوئے اس حدیث کو صحیح لکھا ہے۔امام بیہقی شعب الایمان کی حدیث نمبر3836، حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتی ہے تو منادی (اللہ کریم)  ندا دیتا ہے: کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں ؟ کیا کوئی سوال کرنے والا ہے کہ میں اسے عطا کروں ؟ پس زنا کرنے والے اور مشرک کے سوا ہر سوال کرنے والے کو عطا کیا جاتا ہے۔ (زنا کرنے والا یا مشرک؛ جو پہلے کافر ہو، شرک کرتا ہو وہ سچی توبہ کر لیں تو اللہ انہیں بھی معاف فرما دیتا ہے)۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ پانچ راتیں ایسی ہیں کہ جن میں دعا کرو تو رد نہیں ہوتی۔ جمعہ کی رات، رجب کی پہلی رات، شعبان کی پندرہویں رات اور دونوں عیدوں کی راتیں۔ اس کے علاوہ مجموع الفتاوی میں علامہ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں کہ جب کوئی بھی شخص شب براء ت میں نماز (نوافل) ادا کرتا ہے جیسا کہ اسلاف امت سے بہت لوگ اس کا اہتمام کرتے تھے تو یہ بہت اچھا عمل ہے۔

اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے صدقے اور توسل سے ہمیں صحیح معنی میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و اتباع کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین (ﷺ)۔

تبصرے بند ہیں۔