شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام سہ روزہ بین الاقوامی سمینار کا افتتاح

نثر کا اپنا آہنگ ہوتا ہے۔ اس کی اپنی شعریات ہے۔ افسانوی اور غیر افسانوی نثر میں خط امتیاز کھینچنا کچھ آسان نہیں۔ جب دونوں کا بیانیہ تخلیقی ہو تو یہ مشکل اور بڑھ جاتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار معروف نقاد، شاعر اور فکشن نگار پروفیسر انیس اشفاق نے شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور اردو اکادمی دہلی کے مالی تعاون سے ’’اردو کا غیرافسانوی ادب ‘‘(۱۹۰۱ تا حال) کے موضوع پر سہ روزہ بین الاقوامی سمینار کے افتتاحی جلسے کے مفصل کلیدی خطبے میں کیا۔ انھوں نے سوانح عمری، خودنوشت، سفرنامہ، خاکہ، انشائیہ، روزنامچہ، اورمکتوب کے مختلف اقتباسات کا موازنہ افسانوں اور ناولوں کے بیانیے سے کرتے ہوئے کہا کہ ’’نثر اگر تخلیقی ہوجائے تو وہاں افسانہ اور غیر افسانہ کے درمیان تفریق کا پیمانہ متعین کرنا ایک دشوار گزار عمل ہے۔ ‘‘

زمان و مکاں اور انسان غیر افسانوی نثر میں اپنے اصلی روپ میں نظر آتے ہیں : پروفیسر انیس اشفاق

صدارتی خطبے میں ممتازادیب و دانشور پروفیسرشمیم حنفی نے کہاکہ طرز اظہار کی جتنی مختلف شکلیں غیر افسانوی نثر میں مل جاتی ہیں وہ ادبی سرمایے کو ثروت مند کرتی ہیں۔ ہماری ادبی تاریخ میں درجنوں ایسے ادبی شہ پارے موجود ہیں جو افسانوی ادب کے بالمقابل اپنی علیحدہ اور مستحکم شناخت رکھتے ہیں اور ان کی موجودگی میں غیر افسانوی ادب کو نظرانداز کرنا کسی سنجیدہ ادبی معاشرے کے لیے صحت مند رویہ نہیں ہے۔

مہمان خصوصی ڈاکٹر شیخ عقیل احمد(ڈائر کٹر این سی پی یو ایل) نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس وقت ہندوستان کی تمام یونیورسٹیوں میں شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ زبان و ادب کی تدریس اور ترویج و اشاعت میں سب سے زیادہ فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ مہمان اعزازی پروفیسروہاج الدین علوی(ڈین فیکلٹی آف ہیومینٹیز اینڈ لینگویجز)نے پروفیسر انیس اشفاق کے کلیدی خطبے کو عالمانہ اور پر مغز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس خطبے سے غیر افسانوی نثر کی مختلف اصناف کی خصوصیات ہی نہیں بلکہ غیر افسانوی نثر کی شعریات اور اس کی جمالیات کی نئی جہتیں روشن ہوئی ہیں۔

بیانیہ، اسالیب کا تنوع اور اظہار کی کثیر الجہتی غیر افسانوی نثرکے امتیازات ہیں : پروفیسر شمیم حنفی

اردو اکادمی دہلی کے وائس چیئرمین پروفیسر شہپررسول نے اس سمینار کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس کا افتتاح جس تزک و احتشام اور وقیع خطبے کے ساتھ ہوا ہے اس سے قوی توقع ہے کہ اگلے دو دنوں میں غیر افسانوی ادب کے حوالے سے بہت سے نئے پہلو سامنے آئیں گے۔ اس موقع پر مصر کے مہمان اسکالر مصطفی علاء الدین محمد علی نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ بین الاقوامی سمینار غیر افسانوی ادب کی مختلف جہات اور امکانات کا بھر پور احاطہ کرے گا اور اس حوالے سے ایک نئی تاریخ رقم ہوگی۔ استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے صدر شعبۂ اردو پروفیسر شہزاد انجم نے اس سمینار کے انعقاد کے لیے این سی پی یو ایل اور اردو اکادمی دہلی کے بھر پور تعاون کا شکریہ اداکرتے ہوئے مہمانان کا خیر مقدم کیا۔ اس موقع پر شعبے کے اساتذہ نے گلدستے سے مہمانان کا استقبال کیا۔

نظامت کے فرائض سمینار کے کنوینرڈاکٹر ندیم احمد نے انجام دیے۔ پروگرام کا آغاز ڈاکٹر قاری شاہ نواز فیاض کی تلاوت کلام پاک اور اختتام پروفیسر احمد محفوظ کے اظہار تشکر پر ہوا۔ اس موقع پر جاپان کے مندوب پروفیسر ماتسو مورا، محترمہ کمولا(ازبکستان)، ڈاکٹر خان فاروق(کانپور)، ڈاکٹر احمد کفیل(گیا)، ڈاکٹر نسیم سلطانہ(حیدرآباد)، ڈاکٹر علی عباس(چنڈی گڑھ)، محمدخلیل سائنسداں،  ڈاکٹر یوسف وانی، ڈاکٹر معراج الدین(کشمیر)، پروفیسر قاضی عبید الرحمن ہاشمی، پروفیسر خالد محمود، ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی، پروفیسر عراق رضا زیدی، ڈاکٹر فوزان احمد، ڈاکٹر شاہد تسلیم، ڈاکٹر ابوظہیر ربانی اور ڈاکٹر زمرد مغل کے علاوہ شعبے کے اساتذہ پروفیسر عبدالرشید، پروفیسر کوثر مظہری، ڈاکٹر خالد جاوید، ڈاکٹر عمران احمد عندلیب، ڈاکٹر سرور الہدیٰ، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر واحد نظیر، ڈاکٹر حنا آفرین، ڈاکٹر ابوالکلام عارف، ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر سلطانہ واحدی، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر محمد آدم، ڈاکٹر سمیع احمد، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر شاداب تبسم، ڈاکٹر نعمان قیصر، ڈاکٹر محضر رضا اور ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی کے علاوہ بڑی تعداد میں ریسرچ اسکالرس اور طلبا و طالبات موجود تھے۔

1 تبصرہ
  1. Md Mazahir کہتے ہیں

    شکریہ

تبصرے بند ہیں۔